اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-hameedafridi99@hotmail.com

Telephone:-  03462514083      

 

 

 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت22-11-2010

کرپشن زہرقاتل

کالم۔۔۔ عبدالحمیدآفریدی


اپنے ذاتی مفاد کے لئے اختیارات کا ناجائز استعمال کرپشن کہلاتا ہے کرپشن کو اردو میں بدعنوانی کہا جاتا ہے بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ دنیا کے بیشتر ممالک میں ہورہی ہے ۔لیکن جس انداز سے بد عنوانی کا گراف پاکستان میں بڑھ رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ایک ادنیٰ ملازم سے لیں کر سرکاری افسر تک اور سرکاری افسر سے لیں کر وزیرتک اور وزیرسے لیں کر حکومتی سربراہوں تک کے لو گ اس گھناﺅنے جرم میں ملوث پائے گئے ہیں۔بین الاقوامی برادری کے کئی ممالک میںکرپشن ہورہی ہے۔جاپان کے کئی وزراءاو ر بعض سابق وزیر اعظم مختلف کاروباری اداروں سے مالی فوائد اٹھانے کے الزام میں ملوث پائے گئے ،اسی طرح بھارت کے کئی سابق و زراءاور سابق وزیراعظم نر سیماراﺅ رشوت سے متعلق حوالہ سکینڈل میں ملوث پائے گئے ۔افغانستان میں بھی کرپشن زوروں پر ہے اب موجودہ دور میں حامد کرزئی کے دور اقتدار میں بھی یہ ملک شدت سے کرپشن میں ملوث ہے اور پاکستان میں تونیچے سے اوپر تک ہر سطح پر کرپشن ہورہی ہے ۔
کرپشن کا مطلب یہ نہیں کہ رقم خوردبرد کرلی جائے یا رشوت لیں لی جائے بلکہ ہر وہ اقدام جس سے ذاتی مفاد کے لئے اختیارات کا ناجا ئز استعمال ہو کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔پرائیوٹ اداروں اور نیم سرکاری مالیاتی اداروں میں بھی کرپشن ہو تی ہے انتخابات کے دنوں میںسیاسی تنظیمیںووٹ خریدتی ہے۔اعلیٰ عہدے دینے کے ساتھ خصوصی مراعات کی پیش کش ۔انتخابات کی آزادی میں مداخلت بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ۔تحائف کی صورت میں رقوم کی ادائیگی ،بہتر ملازمت دلانے کے لیے رشتہ داروں کی حمایت ۔سماجی اثر و رسوخ ،سیاسی تعلقات ایک عام میرٹ سے وابستہ فرد کے حق کو ختم کردیتی ہے ۔سرکاری واجبات کی ادائیگی نہ کرنا ۔بینکوں سے قرضے لیں کر معاف کرالینا۔ٹیلی فون ،بجلی ،سو ئی گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی نہ کرنا یہ سب کرپشن کے زمرے میں آتا ہے ۔آج کل تعلیم یافتہ نوجوان رشوت ،سفارش اور تعلقات کے بغیر عام معمولی سی نوکری بھی نہیں حاصل کرسکتا ہے جبکہ دوسری طرف ارکین پارلیمنٹ پیسوںسے ڈگریاں حاصل کرکے سرکاری کرسیوں پر براجمان ہے ۔کرپشن کی حقیقی وجہ ہر صورت سے امیر بننے کی ہے یہ زریعہ رشوت کی صورت میں ہو ،غبن کا طریقہ ہو ،فراڈ ہو یا چالاکی،دھوکہ دہی کی واردات ہو ،اختیارات کاناجائز استعمال ہو یاکسی ادارہ میں معمولی کام کرنے کی درخواست ہو کرپشن ان سب معاملات میں شامل ہیں ۔ایک ادنی ملازم امتحانات میں پانی پیلانے کے بہانے امیدواروں سے پیسے لیں کر نقل فراہم کرتا ہے کسی سرکاری افسر سے ملاقات کرانے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں ،گاڑی کا لائسنس بنانے کے لیے رشوت دینے پڑتی ہے۔پولیس سے جان چھڑانے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے ۔ٹریفک قوانین توڑ دو بیس سے تیس روپے میں جان بخش دی جاتی ہے یہ سب کیاہے؟ جس ملک میںکرپشن انتی عام ہو اس ملک کا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 34واں نہیں بلکہ پہلا نمبر ہونا چاہیے تھا ۔اس سال ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کے حوالے سے دنیا کے 178ممالک کی فہرست جاری کی ہے جس میں پاکستان کا 34واں نمبر ہے جبکہ گزشستہ سال پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 42ویں نمبر پرتھاحکومت کی حالیہ ناقص کارکردگی سے رینکنگ مزید 8درجے کم ہو ئی ہے ۔بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں صومالیہ کا پہلا نمبر ہے دوسرے نمبر پر افغانستان اور میانمار اور اس کے بعد عراق کا نمبر آتا ہے اس فہرست میں بھارت کا نمبر 89واں ہے ۔جبکہ ڈنمارک ،نیوزی لینڈ اور سنگاپور شفاف ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔دنیا کے بدعنوان ممالک سے متعلق کرپشن پر سیپشن انڈیکس 2010جاری کرتے ہوئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئر مین سید عادل گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں 300ارب روپے کی کرپشن ہو ئی ہے جس سے معیشت غیر مستحکم اور مہنگائی و بیروزگاری میں اضافہ ہو اہے۔
حکومت نے کرپٹ ترین ممالک کے فہرست کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں ہے لیکن ملکی حالات کی اصل حقیقت سے سبھی واقف ہے آج ایک تعلیم یافتہ اور ایک ناخواندہ سبھی ملکی معاملات اورحالات میں نہ صرف شعور رکھتے ہیں بلکہ بہت زیادہ دلچپسی بھی رکھتے ہیں اس کی وجہ پاکستان میں آزاد صحافتی زرایع ہیں ۔ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ ہم تو بہت صاف ہے ہم تو کرپشن جانتے بھی نہیں ہے لیکن افسوس کہ ماضی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کرپشن نے زہر قاتل کی طرح اس ملک کو تباہ کیا ہے اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد کو ئی اچھا قائد نہیں مل سکا،ان عظیم رہنماوں کے بعد جتنے حکمران اس ملک میں آئے ہیں ان میں سے اکثریت میں قیادت کا فقدان تھا ۔ایک بہترین لیڈر اورایک بہترین حکمرانی پاکستان کو میسر نہ آسکی ۔حکمرانوں نے لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کرکے ملک کو ناتافلائی نقصان پہنچا یا ہے پاکستان میں بے پناہ وسائل اور معدنیات ہیں لیکن ان کا بہتر استعمال نہ کرکے حکمرانوں نے ملک کو بھگاری بنادیا جو کشکول لیے دنیا بھر میں امداد کی بھیگ مانگتاپھیر تا ہے۔
آیئے ایک نظر ہم کرپشن کے حو الے سے ماضی کی تاریخ پر ڈالتے ہیں ۔کسی ملک کی آزادی کے بعد 63سال معنی رکھتے ہیں اگر اس ملک کو سچے محب وطن پاکستانی حکمران ملتے تو آج دنیا کے نقشے پر پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی صفت میں کھڑا ہوتا ۔لیکن صد افسوس کہ اس ملک کوایسے حکمران نصیب ہوئے جنھوں نے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کیا ۔لوٹ کھسوٹ کرکے بیرون ملک بینک بھرے خوبصورت وعالیشان محل تعمیر کیے۔حکمرانی پاکستان پر کی اور پر لندن دوبئی امریکہ یاکسی اورملک میں سکونیت اختیارکرلی۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم دین کی حکومت آئی اور ان کے بعد دیگر ے 5حکومتیں آئی جن میں محمد علی بوگرہ،چوھردی محمد علی،حسین شہید سہروری،اسماعیل ابراہیم چندریگراورملک فیروز خان نون شامل ہیں ان تما م حکمرانوں کے دور میںکرپشن تھی جب ملک میںکرپشن اپنے عروج پر پہنچ گئی اور ملک کے تمام ادارے بری طرح اس سے متاثر ہوئیں تو7اکتوبر 1958کو ملک میںمارشل لاءنافذ کردیا گیا جس کی حکومت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے سبنھالی ۔ملک میں مارشل لاءکی وجہ یہ بتا ئی گئی کہ کرپشن اپنے عروج پر تھی اور ہر طرف اسملنگ کابازار گرم تھا ،چور بازاری ،زخیرہ اندوزی،اقرباءپروری،ناجائز مراعات اور ناجائر اختیارات کا دوردورہ تھا ان کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کی وجہ سے ملک بحرانی کیفت کا شکارتھا ۔ایوب خان کا دور حکومت آیا تو انہوں نے مختلف شعبوںمیں اصلاحات کیں لیکن یہ حکومت بھی کرپشن کے خاتمے کے لئے موثر اور ٹھوس اقدامات نہ کرسکی ۔ملک میں بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ مزید بڑھ گئی۔ایوب خان کی حکومت کی ناکامی بعد25مارچ 1969کو ملک میں دوسرا مارشل لاءنافذ کردیا گیاجس کی بھاگ دوڑ جنرل یحییٰ خان نے سنبھالی اس وقت ملک میں کئی انتظامی خرابیوں کے ساتھ کرپشن بھی موجود تھی۔جنرل یحییٰ خان نے تما م خرابیوں کو دور کرنے کےساتھ کرپشن کے روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے۔انھوں نے کرپشن کے خاتمے کے لئے مستقل کمیٹی بنائی یہ کمیٹی ہائی کورٹ کے ایک جج اورایک بریگیڈ یئر اور ایک رکن پر مشتمل تھی ۔اس کے علاوہ ناجائز طریقوں سے حاصل کی جانے والی املاک کی تحقیقات کی غرض سے ایک خصوصی کمیٹی کے قیام کا آرڈیننس جاری کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ چند باتھوں میں دولت جمع ہونے سے روکنے کا آرڈیننس بھی ان کے دو ر حکومت میں جاری کیا گیا۔ان تما م تر کوششوں کے باوجو د ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہ کرسکیں اور یہ غلیظ برا ئی معاشرے میں تیزی سے پھیلتی رہی ۔
دسمبر 1971کو یحییٰ خان کی حکومت کا سورج غروب ہو گیا اس کے بعد 23دسمبر 1971کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کا آغاز ہوا۔بھٹو صاحب نے جس وقت ملک کا انتظام سنبھالا ۔اس وقت وطن عزیز میںہر طرف افراتفری اور انتشارپھیلاہوا تھا سیاسی عدم استحکام تھا1971ءپاک بھارت کی جنگ میں پاکستان دولخت ہو گیاتھااس وقت ملک ایک نازک چورراہاپر کھڑا تھا۔انھوں نے ملک کوبحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے متعدد اقدامات اور اصلاحات کیں تاہم ملک کو نازک صورتحال سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔اداروں کو مضبوط نہ بناسکے اور ملک میں موجود کرپشن کا خاتمہ کرنے میں کامیا ب نہ ہوسکیں۔جس کے نتیجے 1977ءکو ملک میں تیسرا مارشل لاءنافذ کردیا گیا ۔یوں نظام حکومت جنرل ضیاءالحق کے ہاتھ میں آئی۔اس دور میں ہر شعبہ ہائے زندگی کو استحکام ملا۔قوم کا روشن مستقبل کے بارے میں اعتماد بحال ہوا ۔ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کو اقتصادی ترقی کے پیمانے پر قابل رشک حقیقت حاصل ہو ئی ایک طر ف ملک کی ترقی کے لئے کچھ بہتر اقدمات کیے گئے لیکن دوسری طرف یہ حکومت بھی کرپشن کے خاتمے میں ناکام رہی ملک میں رشوت ،چوری ،ڈکیتی اور دیگر معاشرتی برائیوں نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں تھی ۔17اگست 1988ءکو جنرل ضیاءالحق ایک طیارے حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔
یکم دسمبر1988ءکو محترمہ بے نظیر بھٹو ورزیر اعظم منتخب ہو ئی۔اس حکومت نے بھی کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے اس دور میں اسٹاک ایکسچینج کھولے گئے ،سیاسی وفاداریاں کھلی منڈی میں مویشیوں کی طرح بیجی اور خریدی گئیں ۔ممبران اسمبلی کو یر غمال بنا کر حسب بے جا میں رکھا گیا ،لالچ اور دھمکیوں کے زریعے انہیں اپنے ضمیر کے مطابق کو ئی فیصلہ کرنے سے روکا گیا ۔رشوت اقرباءپروری ،چور بازارزروں پررہی ان خرابیوں کے خلاف کو ئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے اور پھر نتیجے کے طور پر یہ حکومت بھی دیگر حکومتوں کی طرح ختم کردی گئی۔
6 نومبر 1990کونواز شریف کی حکومت کی آئی انھوں نے کئی اصلاحات اور کئی پروگرام متعارف کرائے۔متعد د نئی پالیساں مرتب کیں ان سب کوششوں کے باوجود وہ ملکی اداروں کو مضبوط اور کرپشن سے پاک نہ کرسکیں۔رشوت ،چور بازاری،ڈکیتی،اقرباءپروری اس دور میںبھی موجود رہی نواز حکوت میں بھی ملک بحرانی کیفیت سے دوچار رہا ۔سندھ میں فوجی آپریشن نے ملک کے حالات مزید خراب کردیئے جس سے دہشت گردی ،ڈکیتی،اغواءبرائے تاوان اور دیگر جرائم میں شدت سے اضافہ ہو ا۔اداروں میں بھی کرپشن بڑھی ۔یوں نواز حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا لیکن وہ ملک سے کرپشن کو صاف نہ کرسکیں ۔19اکتوبر 1993ءکو ایک بار پھر متحرمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہو ئیں ۔اپنے
دوسرے دور حکومت میں اگر چہ متحرمہ نے کرپشن کے خاتمہ کے لئے کچھ اقدامات کئے مگر یہ کار گر ثابت نہ ہوسکیں اس کی وجہ یہ تھی کہ اداروں میں کرپشن سرایت کر چکی تھی اور اب اسے ختم کرنا آسان نہ تھا،رشوت ،چوری ،ڈکیتی ،اقرباءپروری عام ہو تی گئی لیکن یہ حکومت بھی دیگر حکومتوں کی طرح ان برائیوں پر کنڑول نہ کرسکی۔بالاآخر یہ حکومت بھی جلد اختتام کو پہنچی۔ملک میں عام انتخابات کرائے گئے جس کے نتیجے میں ایک بار پھرعوام نے نواز شریف کومنتخب کیا ۔ان کے دور حکومت میں رشوت ،نا جائز مرا عات اور ناجائز اختیارات کا استعمال، بے روزگاری ،غربت غرض دیگر تما م مسائل موجود رہے آزادی کا نصف پاکستان گزار چکا تھا اور یہ تما م برائیاں اداروں میں سرایت کر چکی تھی جس کا خاتمہ اب ناممکن نظر آرہاتھا ۔1999میں نواز حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشرف خوداقتدار پر براجمان ہو گئے۔پرویزمشرف کی حکومت نے ملک ایسا ناتلافی نقصان پہنچایا جس کی مثال ماضی کی کسی حکومت میں نہیں ملتی ۔پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ تو لگایا لیکن نہ وہ پاکستان کو بچا سکیں اور نہ ہی اسلام کی حفاظت کرسکیں ۔ان کی حکومت میں بھی چوربازاری ،ڈکیتی ،رشوت ستانی ،ناجائز مراعات ،اقرباءپروری ،ذخیرہ اندوزی اپنے عروج پر رہی کسی ادارے میں اصلاح کرنے کی کوشش نہیںکی گئی جس کے نتیجے میں ملک کے تما م ادارے کرپٹ ہو کر رہ گئے اور ملک کا ہر ادارہ بیمار دکھائی دینے لگا۔اس کے علاوہ نام نہاد امریکہ کے جنگ میں اتحادی بنے کے بعد ملک کا بیڑا غرق کردیا ۔جس کا خمیازہ ہر پاکستانی بھگت رہا ہے ۔2008 ءمیں مشرف حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور18فروری 2008ءکے انتخابات کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی ۔یوسف رضا گیلانی ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے اور آصف علی زرداری ملک کے نئے صدر بن گئے۔اس نئی حکومت کو کئی گھمبیر مسائل وارثے میں ملیں وہ چاہے معاشی مسائل ہو یا دہشت گردی کا یا پھر کرپشن جیسی لعنت کا۔
آج کرپشن ہر ادارے میں سر چڑھ کر بول رہی ہے آزادی کے سفر سے لیں کر آج تک ہم نے مختلف دور حکومت کی کارکردگی کاجائزہ لیا لیکن کسی ایک حکومت نے بھی اس لعنت کو صحیح معنوںمیں سنجید گی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی اور آج کرپشن کی جو صورتحا ل ہے وہ ہمارے سامنے ہیں پولیس کا شعبہ ہو یا تعلیمی شعبہ ہو حکومتی ادارے ہو یہ کو ئی عام جگہ ہر طرف یہ برائی عام ہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن پر سیپشن انڈیکس 2010 پاکستان میں بھی موسٹ کر پٹ سیکٹرمیں پولیس پہلے نمبر پر پاور کا شعبہ دوسرے نمبر پرہے اسی طرح تعلیم وصحت کا شعبہ ٹیکس اور کسٹم کے علاوہ دیگر شعبے بھی شامل ہیں
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پر اعتراضات تو تھے ہی لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان نے تمام اداروںکو ٹرانسپیرنسی سے رابطے ختم کرنے کی ہدایت جاری کی ہے حکومت نے کہا ہے کہ ملک کوبدنام کرنے کی سازش میں ملوث کسی ادارے کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ٹرانسپیرنسی کی کارراوئیاں ملک دشمن قرار دی جاسکتی ہے ۔یہ تما م باتیں بڑی مضحکہ خیز لگتی ہے جب کبھی زرائع ابلاغ نے حکومتی ارکان کو ان کا اصل چہرہ آئینہ میںدیکھایا تو حکومت نے کبھی صحافیوں کو بھارتی واسرائیل ایجنٹ قراردیئے اور کبھی نیوز چینلز پابندی عائد کی گئیں اسی طرح بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے جب پاکستان میںحکومت کوان کے اصل کارنامے دیکھائے تو اب اس عالمی تنظیم پر پابندی لگا نے اور اس کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
ملک کی جو صورت حال ہے اس میں کرپشن ،مہنگائی ،ذخیرہ اندوزی ،بے روزگاری ،غربت ،دہشت گردی ،توانائی کا بحران ،لو ٹ کھسوٹ،چوربازاری ،ڈکیتیاں ،میرٹ کا قتل عام ،اور معیشت کی زوال پذیری آخر کس کس سماجی مسائل کانام لیاجائے جہاں ہر طرف اندھیر نگری ہو ۔ان تما م برائیوں سے ہرپاکستانی باخوبی واقف ہے کسی ادارے کی رپور ٹ شائع ہونے سے عوام الناس کو علم نہیںہوجا تا کہ کس جگہ کتنی کرپشن ہے وہاں کے مقامی باشندوں کو ان رپورٹ کی ضرورت نہیںہو تی بلکہ انھیںمعلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میںکرپشن سمیت دیگر سماجی برائیاں کس قدر سرایت کرچکی ہے اس لیے اگرحکومت عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پر پابندی عایدکربھی دیتی ہے اس سے کو ئی فرق نہیںپڑے گا یہاںبچہ بچہ جانتا ہے کہ اس ملک میں کرپشن کے حوالے سے کیا گل کھلتے ہیں
ٹریفک قوانین توڑ دو بیس سے تیس روپے میںجان بخش دی جاتی ہے ،سیاسی وابستگیاں ہو تو سرکاری نوکری مل سکتی ہے ،تعلیم کے شعبہ میں سرکاری اسکولوں کاحالات زار کیا ہے؟ سب جانتے ہیں ۔ملک میں افغانیوں کے قومی شناختی کارڑز کس طرح بن جاتے ہیں ؟ یہ بھی سب جانتے ہیں ۔معذور افراد کو ٹریفک لائسنس جاری کردیے جاتے ہیں ۔رشوت ،سفارش اور تعلقات کے بنا عام معولی نوکری بھی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں لیں حصول ملازمت کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔جبکہ حکومتی ارکان پیسوں سے جعلی ڈگریاں خرید کر پارلیمنٹ میں سرکارکی اعلیٰ کرسیوںپر براجمان ہے یہاں تک کے کرکٹر بھی کرپشن سے پاک نہیں اور ابھی حج انتظامات کے بارے میں شک ہے کہ یہاںبھی کرپشن ہو ئی ہئے ملک میںکس کس ادارے کانام لیا جائے اورکس کانہیں بس جس کو جہاںموقع ملا وہاں کرپشن نے کام کردیکھایا۔
کرپشن ہماری ثقافت کاحصہ بن چکی ہے آئندہ اس کے کیا مضر اثرات ملک وقوم پر مرتب ہوسکتے ہیں اس کے بارے میں سوچا نہیں جارہا کیوں کہ اس ملک کے حکمران مدت پوری کرنے کے بعد دوبئی ،لندن ،سوئیزرلینڈ یا پھر امریکہ میں سکونیت آختیار کرلینگے پاکستانی مرے کپے انھیں کیا فکرہو گی ۔
کرپشن کے خاتمہ کے لئے حکومت کو سنجید گی سے اقدامات کرنے چاہیے ملک کے تما م اداروں کا احتساب ہو ناچاہے میرٹ پر وزراتیں دینی چاہیے۔اینٹی کرپشن کے محکمے میں نہایت دیانت دار ،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شرعی وسنت کے حامل افراد ہی کو بھر تی کئے جائیں۔جن کا کسی سیاسی جماعت سے کو ئی تعلق نہ ہو ۔پولیس کی تنخواہیں بڑھا دینی چاہئے ،ٹیکس چورں کے خلاف سخت کارراوئی کرنی چاہیے ۔حکومتی فنڈکاشفاف طریقے سے استعمال کے لےے قانون متعارف کراناچاہیے۔رشوت لینا والا اور دینا والا دونوں جرم میں برابر کے شریک ہے اس لیے دونوں کو سزا دینی چاہیے۔ایسے کئی تجویز زیر بحث لائی جاسکتی ہے لیکن سب سے بڑھ کراگر انسان کے دل میں خوف خدا ہو، موت کا یقین ہو اورآخرت میںاللہ تعالیٰ کو جواب دینا کا ڈر ہو ۔تو ایسا شخص کرپشن کے قریب بھی نہیںجاسکتا ۔اللہ ہم سب کو ہدایت دیں اور حکومت کو ان سماجی برائیوں کے خاتمے کے ہمت وحوصلہ عطا فرمائے۔

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team