اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-hameedafridi99@hotmail.com

Telephone:-  03462514083      

 

 

 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت15-12-2010

سقوط ڈھاکہ اور آج کاپاکستان

کالم۔۔۔ عبدالحمیدآفریدی

سولہ دسمبر1971ءکی تاریخ ایک ایسی دل خراش داستان غم کے دریچے میں دفن ہے جس کے ماضی کا ایک ایک لمحہ ایک ایک واقعہ سنتے وقت آنکھیں پرنم ہو ئیں بغیر رہ نہیں سکتی ۔ملک کے اندرونی خلفشار اور نااہل حکمرانوں کے فیصلوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے اس وطن کو دولخت کردیا جو 1947ءمیں بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیاگیا تھا۔بالا آخر دشمن اپنے اس ناپاک عزائم میں کامیاب ہو گیاجس کی وہ برسوں سے تاک میں تھا۔
اگر مشرقی پاکستان کے اہم مسائل پر بروقت قابو پالیا جاتا تو شاید یہ المیہ پیش نہ آتا ،مسائل کو گفت وشنید کے زریعے حل کرلئے جاتے تو بیرونی قوتوں کو موقع نہیں ملتا اور نہ ہی مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آتا لیکن افسو س کہ کس کس بات کا رونا رویا جائے ۔سقوط مشرقی پاکستان کے المیہ کے وجوہات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ اسباب ایسے ہر گز نہ تھے جنھیں باآسانی حل نہ کیے جاسکتے ہو۔لیکن ہو نا کیا چاہیے تھا اور ہو اکیا ۔اس عالم ناک اور ناقابل فراموش تاریخ کو 39سال گزر گئے جب بیرونی سازش سے پاکستا ن کا باز و کٹ گیا ۔جب کبھی اس تلخ حقیقت کے پہلو پر روشنی ڈالی جاتی ہے جہاں بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا گیا، جہاںہندووں نے بنگالیوں کے دلوں میں نفرتیں پران چڑھائی،جہاں پاکستانی فوجیوں کاہتھیار ڈالنے کی رسم ادا کی گئی، جہاں 93ہزارفوج یر غمال بنا لی گئی اور جہاں عالمی برادری میں پاکستان کے وقار کو سخت ٹھیس پہنچا تو دل میں سکت نہیں رہتی کہ ان زخموں کو پھر سے کریدہ جائے ۔
جس طرح بھارت دشمنی کے جوہر دیکھارہاتھا ایسے ہی بھارتی ریڈیو نے 14سمبر سے من گھڑت خبر یں نشر کرنا شروع کی جس سے تخریب کارروں کو اپنی من مانی کارروائیاں کرنے کاموقع ملا ،مکتی باہنی کے ہتھیار بند غول ہر طرف دہشت پھیلاتے پھیرتے جو دل میں آتا وہ کر گزرتے کسی کو پاکستانی سمجھتے سنگینوں سے چیر ڈالتے کئی پاکستانیوں کو پاک فوج سے تعاون کرنے کی سزا کے طور پر کھڑے کھڑے گولیوں سے ا ±رادیا،کسی کو زمین پر چت لٹاکر سینے میں سنگین گھونپ دیئے گئے ،بعض اضلاع میںپاکستان سے وفا کرنے والوں کو گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر سڑکوں اور گلیوں میں گھسیٹا گیا،اور جن لوگوں کے خلاف شدید انتقام عروج پر تھی ان کی ٹانگیں جیپوں سے باندھ کر انہیں زندہ چیر دیا گیایہ ظالم وبربریت وہ لو گ کررہے تھے جو انسانی خون کے شدت سے پیاسے تھے اور ان کے علاوہ جوجنسی درندے بن گئے تھے انہوں نے اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لئے معصوم عورتوں کی عصمتوں کوتار تار کیا ۔یہ سب تماشا ئے ظلم ارض مشرقی پاکستان میں ہورہاتھا لیکن انہیں روکنے والا کو ئی انسان نہ تھا۔
16دسمبر 1971ءکو سقوط ڈھاکہ کی دستاویز پر پاکستان کے لیفٹنٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی اوربھارت کے جگجیت سنگھ اروڑہ نے اپنی مہر ثبت کی ۔اس تقریب کی سر گزشت کا مختصر سا احوال صدیق سالک کی کتاب © ©” ہمہ یاراں دوزخ “ سے پڑتھے ہیںاور دیکھتے ہیں کہ وہ کیسامنظرتھا ۔ رمناریس کورس میں اتنا بڑا انسانی سمندر شاید کبھی © ©”بنگا بندھو“(مجیب الرحمن کا مقبول عام نام)کی تقریر سننے کے لئے بھی جمع نہ ہوا تھا ۔یہ سمندر جذباتی ہیجان سے ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔دور دور تک انسانی سر ہی سر نظر آتے تھے ۔وہ نعرے لگارہے تھے ‘چیخ رہے تھے‘ چلا رہے تھے ۔غرضیکہ ایک قیامت صغر یٰ کا منظر تھا ۔لاکھوں کے اس مجمع میں چند اہل بصیرت بھی تھے جو بالکل چپ سادھے کھڑے تھے ۔معلوم نہیں وہ پاکستان کے ٹکڑے ہو نے پر پریشان تھے یا بھارتی بالادستی کی بھیانک تصویر ان کی آنکھوں کے سامنے تھی ۔لیکن ان کی طرف دھیان کو ن دیتا !آج کا دن اہل خرد کا نہیں اہل جنون کا دن تھا ۔اور دیوا نے جب بے لگام ہوجائیں تو ان سے کچھ بعید نہیںہوتا ‘لہذا حفظ ماتقدم کے طور پر بھارتی سپاہی اس سمندر کے آگے بند باندھے کھڑے تھے۔آگے جو جگہ خالی تھی وہ آج کی تقریب کی رسوم کے لئے مخصو ص تھی ۔
اس تقریب میں فاتحین کی طرف سے کئی سینئر اور جونیئر افسر موجودتھے ۔لیکن پاکستان کی طرف سے اس طعن و تشنیع کا واحد نشانہ جنرل نیازی تھے ۔جنرل فرمان علی کو بھارتی جنرل ناگرا اپنے ساتھ لے گیا تھا ‘حالانکہ اس رسوا ئی میں ان کی شرکت تقریبی لحاظ سے ضروری نہ تھی۔اس کے علاوہ صحافی ‘فوٹوگرافر او رکیمرہ مین خاصی تعداد میں موجودتھے ۔
آخر اس ذلت آمیز تقریب کانقطہ عروج آپہنچا ۔پاکستان اور بھارت کے مختصر دستوں نے الگ الگ گارڈ آف آنر

(GURARD OF HONOUR)

 پیش کیا جن کا معائنہ جنرل نیازی اور جنرل اروڑا نے مل کر کیا ۔اس کے بعد دونوں نے ایک مختصر سی میز پر بیٹھ کر ”جنگ بندی “کے معاہدے پر دستخط کیے۔اس وقت جنرل نیازی کی چھاتی کر اس بیلٹ

(CROSS BELT)

 اور جنگی اعزازات کی علامتی پٹیوں سے سجی ہو ئی تھی اور ان کے چہرے پر جذبات پر قابو پانے کی کو شش کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے بعد سپاہیانہ تحمل اور وقار کے ساتھ ا ±ٹھے اور ا ±ٹھ کر اپنا ریوالورمیز کے ا ±س پار جنرل اروڑا کے حوالے کیا ۔ریوالوار حوالے کیا کیا‘مشرقی پاکستان حوالے کردیا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے المیہ کاجب سرگزشت دیکھتے ہیں تو انتہائی ددر قلب محسو س ہو تا ہے اس الم ناک سانحہ ہ پر اور ایک بازو کٹ جانے کے بعد آج کے پاکستان پر نظر ڈالیں تو جان کر حیرت ہو گی کہ ماضی کے غلط فیصلوں سے حکمرانوں نے عبرت حاصل نہیں کی ۔جوقومیں اپنی کیے غلطیوں سے سبق حاصل نہیںکرتی ان کا مستقبل تاریک رہتا ہے ۔جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں ملک دوٹکڑے ہوا اس وقت بیرونی سازش میں خاص طور پر روس اور بھارت نے اپنا کردار اداکیا ۔اسکے بعد وطن عزیز کا سب زیادہ نقصان سابق صد ر پرویزمشر ف کے دور حکومت میں ہو ا ،پورا کا پوار ملک ا ±ٹھا کر امریکہ کے جھولی میں پھینک دیاگیا ۔
سقوط ڈھاکہ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے حکمرانوں کو قومی وملی یکجہتی کی طر ف تو جہ دینی چاہیے نسلی تعصبات ،قوم پرستی اور مذہبی فرقہ واریت کی پر چار کرنے والے بیرونی سازشوں کو بے نقاب کرناچاہیے ۔صوبائی خودمختیاری کی طرف خاص تو جہ دینے کی ضرورت ہے جس میں اول نمبر بلوچستان کا ہے جو رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن یہاں بنیادی حقو ق نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں پانی کم دیا جاتا ہے سو ئی کے مقام پر جہاں سے گیس دریافت ہو ئی ہے یہی صوبہ اس سہولت سے محروم ہے تعلیمی اداروں کی کمی ،غربت اور بے روزگاری کی شرح بلند ہے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ روزکا معمول ہے بلوچ بھائیوں کی احساس محرومی ختم کرنے کے لئے حکومت کو بلوچستا ن پر خاص تو جہ دینی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ دشمن صرف مو قع غنیمت کی تلاش میں ہے اسی طرح دوئم نمبر خیبر پختون خواہ کا ہے جہاں بیشتر علاقے بجلی سے محروم ہے ترقیاتی کاموں کا فقدان ہے قبائلوں علاقوں میں امریکی ڈرونز آٹیک نے پاکستانی محب وطن قبائل کے دلوں نفرتیں بڑھادی ہیں آئے روز دہشت گردی کے واقعات خودکش بم دھماکوںمیں پختون اپنے پیاروں کی لاشیں ا ±ٹھا ۱ ±ٹھا کر تک چکے ہیں لیکن حکومت پاکستان کے پاس کو ئی حل نہیں ۔جنوبی ایشیاءکے لئے انٹیلی جنس افسر ڈاکٹر پیٹرلے ووائے نے 25نومبر 2008کو نیٹو کے مستقل نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاتھا کہ پاکستان چند برسوں میں پشتون بیلٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔یہ انکشاف وکی لیکس میں سامنے آیا ہے جس میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پشتون علاقوں میں روایتی قبائلی نظام ختم ہوچکا ہے اور پاکستانی حکام صورتحال کومسلسل نظر انداز کررہے ہیں ۔اسی طرح سند ھ میں قوم پرستی اور کراچی میں نسلی تعصبات سمیت مذہبی فرقہ واریت کی طر ف بھی تو جہ دینے کی ضرورت ہے ۔چاروں صوبوں کو ایک سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے جع ہوکر © ©”ہم ایک ہے“ ” ہم ایک ہے “کی صدا بلند کرنی چاہیے ۔16دسمبر 1971ءپوری قوم کے لئے ایک عبر ت کانشاں ہے اس عبر ت سے سبق حاصل کرتے ہوئے آپس کی رنجشوں کو نفرتوں کو زمین میں دفن کردینا وقت کی والین ضرورت ہے آپس میں یک دل یک جان ہو کر وطن کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ،بیرونی سازشوں کو جو آج بھی پاکستان کے درپے ہیں ان کے خلا ف متحد ہو نے کی ضرورت ہے ۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team