اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-

Telephone:-        

 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت02-06-2010

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

کالم۔۔۔ عفاف اظہر

 
جمعہ کی دوپہر کو بیک وقت لاہور کے علاقوں ماڈل ٹاون اور گڑھی شاہو کے حملوں میں سو کے قریب احمدی ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زاید زخمی ہوۓ. خبر تمام اخبارات کی شہ سرخی بنی تو حکمرانوں نے بھی مذمتی بیانات داغ کر اپنا فرض نبھایا. ایک قیامت خیز نظارہ تھا جب قانونی طور پر ثابت شدہ کافر احمدی نماز جمعہ ادا کر رہے تھے اور ثابت شدہ قانونی مسلمان ہینڈ گرنیڈ بموں اور ہتھیاروں سے مسلح دھماکوں کے ساتھ " قادیانیت مردہ باد" کے نعرے لگاتے ہوۓ ان پرگولیاں برسا رہے تھے ، میں حیران تھی کہ . ....."دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں " نہتے احمدی خود کو بچانے کے لئے مسلح حملہ اوروں سے مسلسل دست و پا تھے . میڈیا کے لئے یہ سنسنی خیز خبرموضوع سخن بنی جس پر سیاسی و سماجی مباحثے بھی کئے گئے .اور بلا آخر اس سر عام قتل غارت گری کو دہشت گردی کی ایک واردات جس کا ذمہ دار طالبان کی کالعدم تنظیم کو قرار دے دیا گیا .
مگر میں یہ کیسے مان لوں کہ یہ فقط ایک دہشت گردی کی واردات تھی کہ جب میری آنکھوں نے چک سکندر اور ننکانہ صاحب میں سینکڑوں احمدی خاندانوں کو مجلس تحفظ ختم نبوت کے ہاتھوں زندہ جلتے دیکھا ہو . میں یہ کیسے مان جاؤں کہ اس کی ذمدار فقط کالعدم تنظیم ہے کہ جب مرے کانوں نے سات اکتوبر دوہزار پانچ کو ماہ صیام کی ایک شام مندی بہاؤ الدین میں احمدی نمازیوں کی چیخ و پکار اوران پر ہوتی گولیوں کی بوچھاڑ سنی ہو . میں یہ کیسے قبول کر لوں کہ اس کا مقصد فقط خوف ہراس پھیلانا تھا جب میں نے مظفر آباد اور ایبٹ آباد میں جانوں سے گئے ااحمدی خاندانوں کے عزیز اقارب کے آنسو پونچھے ہوں ، اور جب میں نے قوم کے مسیحاؤں کے روپ میں احمدی ڈاکٹرز کی بیہیمانہ قتل و غارت گری پراپنی قوم کی بد بختی پر خوں کے آنسو بہائے ہوں .اگر آج احمدیوں پر یہ حملہ دہشت گردی ہے تو پھر ١٩٨٩ میں چک سکندر اور ننکانہ صاحب میں سینکڑوں احمدی خاندانوں کی جائے املاک لوٹ کر ان کو زندہ جلا دینا کیا تھا ؟ اگر آج اس حملے کی ذمدار کالعدم تنظیم ہی ہے تو پھر مندی بہاؤ الدین میں برپا قیامت کا ذمہ دار کون تھا ؟ اگر آج ان حملہ اوروں کا مقصد فقط دہشت پھیلانا ہے تو پھر ١٩٧٤ سے اب تک احمدیوں پر کئے جانے والے مظالم اور بد سلوکیوں کے مقاصد کیا تھے ؟
پاکستان میں جماعت احمدیہ ١٩٧٤ میں پارلیمان کے غیر مسلم قرار دینے کے بعد سے جس وحشیانہ سلوک سے دو چار ہے ہاں وہ دہشت گردی ضرور ہے مگر طالبانی دہشت گردی ہرگز نہیں بلکہ حکمرانی اور قانونی دہشتگردی ہے . ہاں یہ دھہشتگردانہ واردات ضرورہے مگر اس کی ذمہ دار کالعدم تنظیم نہیں بلکہ اس کی ذمہ دار بھٹو اور اس کے بعد آنے والی ہر حکومت ہے . ہاں یہ سر ا سر ظلم ضرور ہے مگر یہاں پر ظالم طالبان نہیں ہمارا معاشرہ اور ہمارا قانون ہے ، ہاں یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ضرور ہے مگر اس کی ذمہ دار عوام کی محافظ پولیس ہے ، ہاں یہ فقط تعصب ہی تو ہے مگر اس کی قصور وار ہماری زرد صحافت بھی ہے .اور سب سے بڑھ کر ہماری قوم جو اس قوت سماعت سے محروم ہے جو مظلوم کی داستان سن سکے ، جو اس قوت بصارت سے محروم ہے جو مجبور ہم وطنوں کی بے بسی دیکھ سکے ، اس دل سے محروم ہے جو کسی کا درد محسوس کر سکے.
ایک ریاست کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ کسی شہری کے ایمان کا فیصلہ کرے مگر بھٹو کی پارلیمان نے یہ کیا اور پھر اس کے بعد ہر آنے والی حکومت نے اس آگ کو بجھایا نہیں بلکہ مزید اس پر مزید تیل چھڑکا ضیاء الحق نے آرڈیننس تعزیرات پاکستان کی دفعہ دو سو اٹھانوے کے تحت احمدیوں کو خود کو مسلمان کہنے پر پابندی ان کی مساجد کو مسجد کہنے پر پابندی اسلامی اصلاحات استعمال کرنے پر پابندی اسلامی نام رکھنے پر حتی کہ سلام کرنے بسماللہ پڑھنے اذان دینے پر پابندی لگا دی گی اور پھر ان کے خلاف پر تشدد کاروائیاں نقطہ عروج پر جا پہنچیں . ہر شعبہ زندگی میں تعصب کا سامنا کرنا پر ملازمتوں کا معامله ہو یا پھر تعلیم کا تجارت کا ہو یا پھر کاروبار کا جماعت احمدیہ کو عقائد کی بنا پر ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا میڈیکل کے طلبہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے تو کبھی قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لئے یہ حلف نامہ دینا پڑتا کہ درخواست دہندہ مرزا غلام احمد کو نہیں مانتا حتہ کہ پاسپورٹ پر مذہب کا خانہ بنا کر احمدیوں کو قومی دھارے سے الگ کر دیا گیا. کبھی اسرائیل کبھی امریکا اور کبھی انڈیا کے ایجنٹ کہلاے جاتے رہے میڈیا آنکھیں بند کئے ہر ظلم پر پردہ پوشی کرتا رہا احمدیوں پر ظلم پر ظلم ہوتا رہا اور تمام تر انسانی حقوق غصب کر لئے گئے مگر میڈیا تعصب کی عینک پہنے نہ صرف خاموش تماشائی بنا رہا بلکہ زرد صحافت کے علمبردار " عالم ان لا ین "جیسے ٹیلی ویزن پروگرام میں احمدیوں کے قتل عام کے فتوے تک دئے جاتے رہے . محافظ پولیس نے کبھی احمدیوں پر ہونے والے مظالم کی رپورٹ درج نہیں کیں بلکہ ہمیشہ مخالفین کا ہی ساتھ دیا . یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ابھی چند ہی روز قبل مجلس جب تحفظ ختم نبوت کے ایک کھلے عام جلسے میں جہاں با اثر شخصیات بھی شریک تھے وہاں بڑے جہازی قسم کے بینرز پر تحریر تھا کہ " قادیانیوں کو صرف تین دن کی مہلت دی جائے یا تو اپنا عقیدہ تبدیل کر لیں وگرنہ لائن میں کھڑے کر کے گولی مار دی جائے " " قادیانیوں کو ملک بدر کر دیا جائے ملک میں رہنا ہے تو عقیدہ چھوڑنا ہو گا "...جب ہمیں اس کام کے لئے یہاں قدم قدم پر خدمتگار میسر ہیں تو پھر وزیرستان کو الزام دینے کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟

آج میں حکمران وقت ، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر اس بے حسی، اور غیر ذمہ داری کی کوئی انتہا بھی ہے ؟ جبکہ ملک کی تاریخ شاہد ہے کہ با اثر شخصیات نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر عوام سے جلوس نکلواے سڑکوں پر لا کر ان کا بے جا استعمال کیا اپنے نا جائز مطالبات کے حصول لئے ہر غیر قانونی حربہ استعمال کیا یہاں تک کہ ملکی قوانین سے کھیلتے ہوۓ حسب منشاء ترامیم کو داخل اور خارج کیا جاتا رہا مگر اقلیتوں کے مخالف ظالمانہ قوانین جوں کے توں ہی رہے . ہماری سپریم کورٹ جو کہ حسب منشاء واقعات پر از خود نوٹس لینے میں کافی چوکس نظر اتی ہے مگر مظلوم اور نادر اقلیتوں کے حالت و واقعات سے ہمیشہ سے بے خبر ہے آخر کیوں ؟ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالہ ہے کہ " ایک معصوم انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے " اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ " اگر دریاے فرات کے کنارے ایک کتا بھی مر جائے تو اس کا جواب حاکم وقت سے مانگا جائےگا " اور آج احمدی ایک اقلیت ہی سہی مگر ہیں تو انسان اور ان کے اس تواتر سے بہتے لہو کے دریاؤں کا جواب دہ بھی کسی نہ کسی کو تو ہونا ہو گا .
پتھر پہ لکیر ہے یہ تقدیر مٹا دیکھو گر ہمت ہے --- یا ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team