اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت04-02-2010

سٹیٹ یونین خطاب اور سچ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

 
ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکہ اپنے دشمنوں سے زیادہ دوستوں کے لئے خطرناک ہے اور امریکی اپنے مفادات کے لئے اپنے حلیفوں کو بیچنے سے دریغ نہیں کرتے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے چند روز قبل اپنے سٹیٹ یونین خطاب میں فرنٹ لائنر اتحادی پاکستان کو رسوا کرنے اور ہمیں اپنی اوقات دکھانے کے لئے نایاب نسخہ کیمیا استعمال کیا کہ اس نے اپنی پرجوش تقریر میں پاکستان کا نام تک نہیں لیا۔وہ افغان جنگ کے تذکرے تو گاہے بگاہے کرتے رہے مگر پاکستان کی دس سالہ خدمات کو خراج پیش کرنا انکی مقفل زبان کو گوارہ نہ تھا۔ امریکہ میں سکونت پزیر لاکھوں پاکستانی جھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔وہ دم بخود ہیں کہ امریکہ کے لئے پاکستان کے فوجی اور سویلین مررہے ہیں۔محبتوں کا گہوارہ پاکستان امریکہ کے لئے میدان جنگ و مقتل گاہ بن چکاہے۔قبائلیوں کی وہ اکثریت جنہیں بابائے قوم نے اگست1948 میں ریاست کی مشرقی سرحدوں کا نگہبان بنایا تھا۔قائد نے جن قبائلیوں کو پاک فوج کے دستٍ بازو کا لقب دیا تھا وہ جو پاکستان کی سالمیت کے لئے ہر وقت قربان ہونے پر امادہ خاطر تھے وہی قبائلی اج دہشت گردی خود کش بمباری اور ریاست مخالف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔آخر قبائلی کیوںپاک فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں؟ اس سوال کا سہل جواب یہی ہے کہ سب کچھ امریکی نوازشات ڈرون حملوں افغانستان اور فاٹا میں ناٹو کی بہیمانہ ظلمتوں کے قہر سے مرنے والے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کے رد عمل میں قبائل کے دلوں میں نفرت کی سلگنے والی اگ کا کمال ہے۔پاکستان امریکہ کے لئے اپنی سلامتی و ملی وحدت کا جنازہ نکال چکا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اوبامہ نے پاکستان نام کا لفظ زبان پر لانے کی جسارت نہ کی۔ایسی توقع کرنے والے بیرون ملک رہائش پزیر پاکستانی ہوں یا پاکستان کے حکمران وہ مغربی خیالات کی ترجمانی کرنے والی ایسٹیبلشمنٹ کے راج دلارے ہوں وہ مغربی تہذیب کی نقالی کرنے والے لینڈ لارڈ ہوں یا خاکی وردی کو اپنی کھال کہنے والے جرنیل ہوں پتہ نہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر دور کی سامراجی و فسطائیت پسند طاقتیں طفیلی ریاستوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی رہی ہیں مگر ہمارے عقل کے تارے فیوز ہوچکے ہیں ۔ ہم ایسی سبق اموز تاریخ سے سیکھنے کی طرف مائل نہیں۔امریکہ میں موجود تارکین وطن کی حالت زار پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سفید فاموں نے اوبامہ کے خطاب کو کن تبصروں سے نوازا۔کسی نے کہا کاش ریگن زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ جس ملک کو اس نے کنگال کرنے کا اغاز کیا تھا اسکا انجام کیا ہے؟ کسی نے ریگن و کلنٹن کو اڑے ہاتھوں لیا تو کسی نے بش دوم پر ناک بھوئیں چڑھائیں۔دانشور برادری نے رائے زنی کی کہ اگر اوبامہ بجٹ خسارے کو کم کرنا چاہتے ہیں تو کابل سے فوج نکالیں کیونکہ ہر فوجی پر دس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہورہا ہے۔ایسے دانشوروں نے چیخ چیخ کر بتایا کہ کابل سے فوجیوں کی واپسی کا صرف ایک اقدام ہی بجٹ خسارے کو پورا کردے گا۔قوم کی غالب اکثریت نے مشورہ دیا کہ افغانستان سے فوج نکال لی جائے تاکہ ایک طرف امریکی فوجیوں کی برق رفتار ہلاکتوں کو روکا جاسکے تو دوسری طرف ڈانوا ڈول معیشت کو ڈوبنے سے بچایا جائے۔ایک اخبار نے سرخی جمائی کہ چین زری شعبے میں ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے جبکہ امریکہ نے تین ارب ڈالر کی کی ہے۔دوسرے نے یہ خبر چھاپی کہ امریکہ عراق و افغانستان میں ایک کھرب ڈالر سالانہ پھونک رہا ہے۔کسی نے اوبامہ کو صہیونی بنکوں کا غلام کہا تو کسی نے تجزیہ کیا کہ ائل انڈسٹری اور اسلحے کی صنعتوں سے وابستہ سرمایہ دار امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کی راہ میں کانٹے گھول رہے ہیں۔ریگن کا تذکرہ ہر زبان پر زد عام رہا۔ریگن دور میں بجٹ خسارہ 10 فیصد تھا جو بش نے انتہاوں تک پہنچا کر سپرپاور کی مالیاتی طاقت بکھیر دی اور اب سارا گند اوبامہ کی دہلیز پر ہے۔اوبامہ نے خطاب میں دو الفاظBLACK TUESDAY اور bloody sunday استعمال کئے۔1930 کی دہائی میں امریکی معیشت کے فلک بوس مینار زمین پر اگرے۔لاکھوں ارب پتی پل بھر میں کنگال ہوگئے۔سینکڑوں نے خود کشی کا پھندا چوما۔بے روزگاری کساد بازری مہنگائی کا ٹمپریچر نقطہ انجماد تک پہنچ گیا۔امریکی اس بحران کو بلیک ٹیوزڈے کے نام سے یاد رکھتے ہیں۔اوبامہ نے بلڈی سنڈے کی راگ الاپی جب مظاہرین کے جلوس پر پولیس نے قصابوں کی طرح چھرا پھیر کر خون ریزی کا میلہ سجادیا تھا۔ اوبامہ نے تاریخ کے حوالے دیکر بیروزگاری و کساد بازاری کے خاتمے تعلیم و صحت کے شعبوں میں زیادہ رقم مختص کرنے پر اصرار کیا۔ اوبامہ نے تقریر کرلی تو کئی افراد کی انکھوں میں انسو موتیوں کی طرح جھڑ رہے تھے۔مغربی دانشور کرسٹوفر نے تبصرہ کیا اوبامہ امریکی عوام کی روحوں کو پہنچانتے ہیں وہ اس موسیقی کو جانتے ہیں جو امریکیوں کے خون میں ٹھاٹھیں مار رہی ہے۔ ۔اوبامہ نے دل اویز تقریر سے گوروں و کالوں کے دل جیت لئے تاہم امریکہ میں رہنے والے ایک کروڑبیس لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کے چہرے خذاں رسیدہ پتوں کی طرح زرد پڑگئے۔ غیر قانونی تارکین میں میکسیکین عراق پاکستان بھارت بنگلہ دیش سمیت کئی ملکوں کے شہری شامل ہیں۔ وہ حسرت و یاس میں مبتلا تھے کہ اوبامہ انہیں سیٹل کرانے کا اعلان کریں گے مگر نتیجہ صفر۔اوبامہ نے غیرقانونی پردیسیوں کی امد کو روکنے کا اعلان کردیا۔امریکی اس نقطے پر خوش ہیں وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں بے روزگاری غربت سماجی و معاشی مسائل بڑھ رہے ہیں اسی لئے تارکین پر پابندی احسن فیصلہ ہے۔فیڈریشن فار امریکن فیڈریشن کا کہنا ہے کہ اگر اوبامہ نے روزگار دینے کے اعلان کو عملی جامعہ پہنایا تو پچاس فیصد بیروزگاروں کو نوکریاں مل جائیں گی جبکہ دیگر بے روزگار ان ملازمتوں پر نظر رکھیں گے جہاں غیر ملکی کام کرتے ہیں۔امریکی سرکار غیر ملکیوں کے خلاف ایکشن کرتی ہے تو غیرملکی تارکین کو بے روزگار ہونا پڑے گا۔غیر ملکی لوگ نئی افتاد سے ہراساں ہیں۔انکے تمام خواب سراب بن گئے کیونکہ انہوں نے امریکی سرزمین پر قدم رکھنے کے لئے کئی پاپڑ پیلے۔یہ بھی سچ ہے کہ اپنی سرزمین کا کانٹا بھی سنبل اور ریحاں کی طرح خوشبودار ہوتا ہے تاہم غیر قانونی تارکین نے امریکہ کی معاشی ترقی میں خوب ہاتھ بٹایا ہے۔اسی لئے امریکہ کو غیر ملکیوں کے ساتھ ناروا سلوک بند کرنا چاہیے۔دنیا کے تمام ملک اپنے شہریوں کو امریکی شہریت دلانے کے لئے ہنگامی اقدامات کریں۔دوسری طرف پاکستان کو اوبامہ کی تقریر کی روشنی میں اپنی بے توقیری پر احتجاج کرنا چاہیے۔ ہمیں سوچنا ہوگا جس ملک کی خاطر ہم جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں کیا ایسے ملک کے لئے اپنا سرکٹوانایا فرنٹ لائن اتحادی بننا قرین انصاف ہوگا؟ پاکستان کو ہنری کسنجر کے محولہ بالا جملے کی روشنی میں ازاد و خود مختیار خارجہ پالیسی کا اجرا کرنا چاہیے۔
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team