اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت08-02-2010

امریکی انصاف اوتار اور عافیہ صدیقی

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

 
صدر ریگن نے اپنے دور میں امریکیوں سے سوال پوچھا تھا کہ امریکہ اقوام عالم میں سپرپاور کا اعزاز کس طرح برقرار رکھے ہوئے ہے۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 80 فیصد سے زائد امریکیوں نے یہ رائے دی تھی کہ امریکی عدالتوں کے شفاف و بروقت انصاف نے ہمیں سپرپاور بننے کا موقع فراہم کیا۔ اس رائے کی دوسرے زاوئیے سے تشریح کی جائے تو یہ جملہ جواب بن سکتا ہے اگر امریکی کورٹس نے شفاف عدل کا دامن چھوڑ دیا تو امریکہ کے سر پر عالمی قیادت کا تاج نہیں رہے گا۔امریکی عدلیہ کے شفاف انصاف کا ایک کرشمہ ڈاکٹر عافیہ کیس میں جھلک رہا ہے جس میں سپرپاور کی عدلیہ کے ججز نے 80 فیصد امریکیوں کے جواب کی نفی کرتے ہوئے اپنا شیطانی چہرہ دنیا میں عیاں کرڈالا۔جیوری نے عافیہ کیس کا ظالمانہ و وحشیانہ فیصلہ کرکے انصاف کا خون کیا۔ لگتا ہے یہ کورٹ کائنات کی عجیب و غریب عدالت ہے جہاں گواہوں ثبوتوں کی عدم موجودگی میں متعصب و فاسق ججوں نے عافیہ پر تھوپے گئے ساتوں فرضی الزامات کو حرف بحرف درست تسلیم کرکے امہ کی بیٹی کو مجرم بنادیا حالانکہ یہ ثابت ہوگیا کہ رائفل پر عافیہ کی انگلیوں کے نشان نہ تھے۔یہ حقیقت بھی سچ بن کر سامنے تھی کہ رائفل سے نہ تو فائر ہوا اور نہ ہی موقع واردات سے گولی کا خول برامد ہوا۔کسی دیوار پر گولی کا نشان تک نہ مل سکا اور نہ ہی کسی فوجی کے جسم پر معمولی خراش ائی۔ استغاثہ کے دلائل میں بعدالمشرقین اور تضادات تھے۔وکلائے صفائی نے عدلیہ کے ججز کو باور کروایا کہ یہ ساری کہانی ایک خود تراشیدہ افسانے سے کم نہیں۔بارہ رکنی جیوری کے پاس عافیہ کو سزا دینے کے لئے دو جواز ہی کافی تھے وہ مسلمان اور پاکستانی ہے۔عافیہ دنیا کی واحد لڑکی نہیں ہے جو امریکی انصاف کی وحشت و بریت کی بھینٹ چڑھ گئی ہو بلکہ ماضی کی تاریخ ایسی غمناک کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ڈکٹیٹرز ہی بہو بیٹیوں اور ماووں کو سامراج کے مست ہاتھی کے سامنے ڈالنے کا شوق پالتے ہیں۔یہ ڈکٹیٹرز اپنی غیرت و حمیت ضمیر اور خود مختیاری کو ہر دور کے سامراج اور امریکہ کے پاس گروی رکھتے ہیں تب انہیں تخت نشین بننے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ایوب خان سے لیکر یحیی خان تک اور ضیا الحق سے لیکر مشرف تک سارے وائٹ ہاوس کے مرغان دست اموز تھے جنہوں نے ایک طرف امریکہ کو ملک کے اندر عقوبت خانے قائم کرنے کی فیاضانہ اجازت د تو دوسری طرف امروں نے ہم وطنوں پر ظلم و تعدی کا بارود برسایا۔مشرف نے تو ہم وطنوں کو ڈالروں کے چمکدار بریف کیسز کے بدلےcia کے ہاتھوں بیچ کر بے ضمیری کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ جبر والم کا سینہ تان کر مقابلہ کرنے اور ازیت کے جنگل میں سفر کرنے والی مقہور خواتین کی فہرست کافی طویل ہے۔جابر حکمرانوں کی بھی لمبی فہرست ہے جنکی بے حسی اور بے غیرتی کے کارن خواتین سفاکیت کے پنجرے میں بند ہوئیں۔ عافیہ صدیقی ازیت زدہ فہرست کا روشن نام ہے۔جنرل مشرف جو بیک وقت صدارت اور عسکری سرداری کے نشے میں چور تھے وہ ڈکٹیٹرز کی دوسری فہرست کا خونی کردار ہے جس پر تاریخ ہمیشہ زلت رسوائی اور لعنت و ملامت کی یلغار کر تی رہے گی ۔امریکہ نے ساٹھ کی دہائی میں لاطینی امریکہ کے بھوک و ننگ میں جکڑے ہوئے لوگوں پر جنگ مسلط کردی۔عوام کیمونسٹ انقلاب میں بھلائی کی اس لگائے ہوئے تھے جبکہ امر وں و جرنیلی مافیاز نے دین و ایمان امریکہ کی جیب میں ٹھونس دیا تھا۔ایسے ہی ایک ملک ہنڈراس کے ڈکٹیٹرز نے چند خواتین کو سی ائی اے کے سپرد کردیا۔ان ستم رسیدہ عورتوں میں گلوربا پرائزے ریز پہلی خاتون تھی جسکی غمناک داستان نے ایک زمانے کو رلا دیا۔glorba prizay razz نے بتایا کہ امریکیوں نے سب سے پہلے برہنہ جسم کے نازک حصوں پر بجلی کی تاریں چسپاں کردیں۔وہ وقفے وقفے سے جھٹکے دیا کرتے۔پہلے ہی جھٹکے میں موت اچھی لگنے لگتی ۔ترکی میں بھی ایک سانحہ رونما ہوا جسکا تذکرہ ضروری ہے۔پولیس نے ایک کروش گھر میں چھاپا مارا اور اہل خانہ کو کہا کہ اپکی دوبیٹیوں سے تفتیش کرنی ہے اور ہم گرفتاری کے لئے ائے ہیں۔ایک لڑی کا نام میڈن تھا جسکی عمر صرف چودہ سال تھی۔میڈن نے ویت نام کی درد ناک کہانیاں پڑھ رکھی تھیں۔جونہی میڈن cia کا پتہ چلا تو اس نے کھڑکی میں سے نیچے چھلانگ ماردی اور عدم راہی ہوگئی۔سی ائی اے کے پاس ایک اوزار ہے جسے وہ انسانی کانوں کے اندر چھ انچ تک داخل کر دیتے ہیں اور پھر اسے گھما کر دماغ کو عذاب دیا جاتا ہے تاانکہ وہ ہلاک ہوجائیں۔ عافیہ پر بھی امریکی درندوں نے شیطانی مظالم ڈھائے جو روح کو سسکا دیتے ہیں۔ چند لوگ عافیہ کی رہائی کے سپنے دیکھ رہے تھے کہ امریکہ کا بے لاگ نظام عدل عافیہ کو رہا کردے گا مگر قرائن سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ عافیہ کو کبھی انصاف نہیں مل سکتا۔ہماری بدگمانی کی وجہ نودوگیارہ کے بعد مسلمانوں پر مسلط کی جانیوالی ظلمت سوز داستانوں کا شاخسانہ تھی۔امریکہ سمیت اسکے یورپی حواریو ںسے پوچھا جانا چاہیے کہ دشت لیلی، قلعہ جنگی تورا بورا بگرام اور گوانتاناموبے میں بے گناہوں پر انسانیت سوز سلوک کے چابک مارنے والے مجرم نہیں ؟گزشتہ 9سالوں میں احترام ادمیت انسانی بنیادی حقوق کی پامالی سمیت کو نسا ایسا جرم ہے جو اتحادی فوجوں نے نہ کیا ہو؟ امریکیوں نے عراق و افغانستان میں جبر و تشدد کا ہر بھونڈا طریقہ استعمال کیا جو وحشیوں اور سفاک شکاریوں کے حاشیہ خیال میں اسکتا ہے۔ چنگیز ہلاکواور نازیوں کو امریکیوں نے پیچھے چھوڑدیا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی ایسی کورٹ ہے جہاں کروسیڈ وار کے حامیوں امریکیوں اور اتحادیوں کو جنگی جرائم میں سزا دی جا سکے؟ امریکیوں کی قانون پسندی اورجمہوریت پروری انصاف کی فراہمی صرف امریکہ کے اندر موجود ہے۔ وہاں بلیوں کو کانٹا چبھ جائے تو انکا قانون دھاڑنے لگتا ہے اور انصاف پھن پھیلا کر کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ مسلمانوں و پاکستانیوں کو حشرات الارض سمجھا جاتا ہے۔ عافیہ کیس کی روح کو سمجھنے کے لئے امریکی فلم ساز جیمز کیمرون کی فلمAVATAR دیکھنی چاہیے۔ اس فلم نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑھ دئیے ہیں۔یہ فلم اب تک1.5 بلین ڈالر کا ریکارڈ بزنس کرچکی ہے۔ جیمز نے فلم میں امریکی فوجیوں کو زر پرست و زرخرید دکھا کر انکی ظلمت اور سفاکیت کو عیاں کیا ہے۔ عربی اخبار شرق الاسط نے فلم پر تبصرہ شائع کیا کہ فلم ایک طرف امریکہ کی ظالمانہ خارجہ پالیسی کو بے نقاب کرتی ہے تو دوسری طرف فلم سابق قاتل اعظم بش اور چیلوں رمز فیلڈ نائب صدر ڈک چینی کی عراق و کابل میں دراندازی کے لئے خود ساختہ الزامات کی ایجادات کی اصل پلاننگ اور جنگ برائے تیل کی تلخ حقیقت کو دنیا کے سامنے لے ائی ہے۔پاکستان کی بیٹی عافیہ کو مجرم بنادیا گیا۔وہ انصاف کے لئے سترہ کروڑ پاکستانیوں کی طرف ملتجیانہ انداز میں دیکھ رہی ہے مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی قوم بلوں میں خوف زدہ سانپوں کی طرح گھسی ہوئی ہے۔عافیہ سے اظہار یکجہتی اور امریکی نظام عدل پر دوچار حرف غلط بھیجنے کے لئے پاکستانی قوم کو باہر انا چاہیے تاکہ دنیا یہ دیکھ لے کہ ہمارا ضمیر جاگ رہا ہے اور ہم زندہ قوم ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر ہم خدائی قہر کو دعوت دینے کے ملزم بن سکتے ہیں۔ ٹالسٹائی نے صدیوں پہلے شائد موجودہ حالات کے پیش نظر یہ جملہ کہا تھا اگر اپ ظلم ختم کرنے کی عملی جدوجہد میں شامل نہیں ہوسکتے تو کم از کم اپنے دلوں میں ظلم و الم کے خاتمے کی خواہش تو کرسکتے ہو۔ حکومت پاکستان شہرہ افاق وکلا کا پینل تشکیل دے تاکہ وہ امریکہ میں عافیہ کی رہائی کے لئے قانونی جنگ لڑسکے۔ارباب اختیار کو بدگمانیوں اور خوش گمانیوں سے بالاتر ہوکر پوری کاوش و سنجیدگی سے مقدمہ لڑنا چاہیے۔ہم پچھلے 8 سالوں سے غلامانہ سبک سری سے امریکی کولہو کا بیل بنے ہوئے ہیں۔امریکی الاو میں ہمارے فوجی ایندھن بن رہے ہیں۔ ہماری فوج لاحاصل کے دشت بے اماں میں بھٹک رہی ہے۔ہماری گلیاں شہر اور محلے ہسپتال سکول تھانے فوجی ہیڈکواٹرز خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ امریکیوں کی خاطر تاریخ ساز قربانیاں دینے کے باوجود ہماری بیٹی کو امریکی جیلوں میں رگیدا جارہا ہے۔کیا اس عوضیانے کے بدلے اوبامہ عافیہ کو رہا نہیں کرسکتے؟ اگر عافیہ کو رہا نہیں کیا جاتا تو پھر امریکی قوانین کی طرح ہماری حمیت و غیرت بھی ناقابل لچک ہے جو ہمیں امریکی جنگ سے لاتعلق بن جانے کا پیغام و درس دے رہی ہے۔
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team