اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت08-02-2010

پاکستان کلیدی کردار سے فائدہ اٹھائے

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار


امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کہتی ہیں افغانستان میں مشن کی تکمیل کے بعد ہی فوجیں واپس بلائیں گے۔ پتہ نہیں ہیلری کی سوچ کس باغ کی مولی ہے جو انہیں ایسی خوش فہمیوں کے سبز باغ دکھاتی ہے ۔مشن کی تکمیل تو بہت دور کی بات ہے اتحادی سورماوں کو تو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے دشمنوں یعنی جنگجووں سے زندگی کے تحفظ کی بھیگ مانگ رہے ہیں۔امریکہ نے بے پناہ عسکری طاقت کے بل بوتے پر اٹھ سال پہلے ایک فرنٹ مین کو اگے کرکے طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا لیکن اج وہی امریکہ اپنے ڈیکلیرکردہ انتہاپسندوں دہشت گردوں>طالبان< کو نیا اتحادی بنا کر کابل میں مخلوط حکومت تشکیل دینے کی فکر میں الجھا ہوا ہے۔ امریکی ایجنٹ اور کرزئی سرکار کے ہرکارے طالبان کے نرم خو و صلح جو رہنماوں کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔اب سوال تو یہ ہے کیا امریکیوں کا یہ خواب پورا ہوسکتا ہے؟ ا یورپ کے مقبول کالم نویسPURSHE THE HOUNT اپنے تازہ کالم بعنوان> مزاکرات مگر کس کے ساتھ< میں اس سوال کا جواب دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے چند طالبان کو ڈالروں کے چمتکار سے رجھایا اور راضی کیا جانا ممکن ہو مگر منصوبے کی کامیابی کا اندازہ اس وقت ہوگا جب انگریزی محاورے کی طرح ہاتھی کو کمرے میں بند کرلیا جائے۔پرش لکھتے ہیں کہ افغانستان کے پڑوس میں پاکستان ہے جسکی روز اول سے بھارت کے ساتھ ان بن ہے۔پاکستان اور بھارت کی دشمنی ہی دونوں ملکوں کو افغانستان میں مشتر کہ لائحہ عمل اختیار کرنے سے روک دیتی ہے۔یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ امریکہ القاعدہ کے تعاقب میں یا مخصوص سرمایہ دارانہ سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے یہاں انے پر مجبور ہوا ہو مگر ایک سچ تو یہ بھی ہے کہ یہاں دہشت گردی کی جڑیں بہت قدیمی گہری اور وسیع ہیں جو صرف افغانستان تک محدود نہیں۔پرش دی ہانٹ کا یہ تجزیہ ہوسکتا ہے انکی فکر و بصیرت کی روشنی میں درست ہو مگر ہم یہاں تاریخ کی درستگی کے لئے کہنا چاہیں گے کہ خطے میں دہشت گردی کی بنیاد خود امریکی عیاروں کا کارنامہ ہے۔امریکہ نے ہی حال کے دہشت گردوں کو سوویت یونین کے ساتھ لڑنے کے لئے تیار کیا تھا۔امریکی میڈیا اور مغرب افغان سوویت جنگ میں انہی مجاہدین کو اسلام کے ہیروز کے القابات ودیعت کرتے تھے۔دہشت گردی کی جو فصل امریکہ نے پاکستانی جرنیل مافیاز کی معاونت سے خطے میں کاشت کی تھی وہی اج پک کر تیار ہوچکی ہے اور اتحادیوں کے چکھے چھڑائے ہوئے ہے۔بش اور بش پوڈل کا ایوارڈ لینے والے ٹونی بلیر نے نو دوگیارہ کے بعد افغانستان پر قبضے کے لئے یورپی اتحادیوں کو سبز باغ دکھائے تھے مگر جب نوخیز یورپی فوجیوں کے لاشے فوجی وردیوں میں واپس گھروں میں پہنچے تو مغرب میں افغان جنگ کی حمایت میں کمی واقع ہوئی۔اب لندن کانفرنس میں یہ بات منکشف ہوچکی ہے کہ کوئی یورپی ملک افغان سرکش جنگجووں کے مقابلے میں اپنے جوان بھیجنے پر تیار نہیں۔امریکہ نے ناٹو فورس کے حجم میں اضافے کے لئے دوست ملکوں سے درد مندانہ اپیلیں کیں مگر ساری رائیگاں گئیں کیونکہ مغربی حکمرانوں نے کان بند کررکھے ہیں۔ افغان جنگ کا نتیجہ اور ناٹو کو درپیش مشکلات کا اندازہ کابل میں امریکی فوج کے سربراہ کی اس اپیل سے لگایا جاسکتا ہے جس میں مطالبہ تنبیہہ اور پیشین گوئی شامل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جنگجووں کو کابل حکومت میں شامل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔اتحادی اٹھ سالوں میں مزاحمت کاروں کی لنکا ڈھانے میں نامراد ٹھرے بھلا اب وہ کونسا تیر چلا لیں گے؟ کابل میں جتنے جنگجو ہلاک ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ طالبان لشکر کے پیروکار بن جاتے ہیں۔اتحادی فوجیوں کو چاہے جتنے جدید و ہولناک ہتھیاروں و جنگی الات سے لیس کردیا جائے انہیں بے شک میدان جنگ کے نقشے ازبر سکھا دئیے جائیں سچ تو یہ ہے کہ اتحادی فوجی طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔حامد کرزئی نے کانفرنس میں اعتراف کیا کہ طالبان کی شمولیت کے بغیر افغان مسئلے کا حل ممکن نہیں مگر دوسری طرف ملاعمر اور جانثاروں نے مذاکرات کی دعوت کو جوتی کی نوک پر رکھ کر رد کردیا۔امریکہ اب کوشش کررہا ہے کہ پاکستان کے توسط سے طالبان کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ بھارت کابل میں دوبارہ طالبان کی شاہی دیکھنے کا روادار نہیں۔بھارتی خواہش ہے کہ پاکستان کو کابل کے نئے حکومتی بندوبست میں کوئی کلیدی کردار نہ مل سکے مگر پورے عالم کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کی امداد و معاونت کے بغیر کابل میں کوئی امریکہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا جسکا احساس ناٹو کو ہے۔شائد پاکستان کی اٍسی اہمیت کے کارن برسلز میں منعقد ہونے والے ناٹو کمانڈرز کے اجلاس میں ارمی چیف پرویز کیانی کو شرکت کی دعوت دی گئی تاکہ کابل حکومت کے مستقبل کی خاطر کیانی کے صائب مشورے زیر بحث لائے جائیں۔ناٹو کی تاریخ میں شائد ایک دو مرتبہ ایسی لچک کا مظاہرہ کیا گیا ہو کہ کسی پسماندہ ملک کی فوجی قیادت کو ناٹو کے عسکری اجلاسوں میں شرکت کی دعوت دی گئی ہو مگر جب کبھی جان پر بن ائے تو مغرب کے تمام قوانین ناٹو کے منشور کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔ اتحادی فوجی افغان دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔یوں پاکستان ایسی پوزیشن پر اچکا ہے کہ وہ خطے میں کلیدی کردار انجام دے سکے۔پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کو اس گولڈن چانس سے زیادہ سے زیادہ ثمرات حاصل کرنے چاہیں۔ارباب اختیار کا فرض ہے کہ وہ ایک طرف ملک میں جاری خون ریزی دہشت گردی اور تخریب کاری کے خاتمے کے لئے امریکی جنگ سے وابستگی کا ناطہ توڑ دیں تو دوسری طرف پالیسی ساز دانشمندانہ انداز اپنا کر خطے میں موجود اتحادی افواج کی گوشمالی کا بندوبست کریں۔ہمیں امریکہ سے بھارتی طرز کے جوہری معاہدے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ورلڈ بنک اور ائی ایم ایف کے قرضوں کی بیڑی میں جکڑی ہوئی قوم کی رہائی کے لئے امریکہ و اتحادیوں سے غیر ملکی قرضوں کی معافی کا مطالبہ ناگزیر ہے۔ ہمیں اپنی جوہری قوت کے گرد یہود و ہنود کے سازشی خطرات کے منڈلاتے ہوئے طوفان سے بچنے کے لئے مغرب سے حمایت کا مطالبہ کرنا چاہیے۔اگر امریکہ سمیت یورپ ہماری محولہ بالا اپیلوں پر کان نہیں دھرتا تو پھر ہمیں فوری طور پر امریکی افواج سے قطع تعلق کرلینا چاہیے۔یاد رہے کہ اتحادی ایسی زلت انگیز و شرمناک شکست کے دہانے پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کی علحیدگی انکی موت کا سامان لئے ہوئے ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ اب اتحادیوں کی تھکی مانندی فوج پاکستان کی جانب انکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں رکھتی۔امریکی جنگ میں بے پناہ قربانیاں دینے اور اپنے ملک کو جنگی میدان بنانے کی وفاوں کے بدلے میں حکومتی مہاراج امریکہ سے ڈرون طیارے حاصل کریں وگرنہ سب کچھ بیکار ہے۔
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team