اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت11-02-2010

اوبامہ کا موازنہ کارٹر یا ہٹلر سے؟

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار


امریکہ کی تاریخ سینکڑوں ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جنہیں اتفاقات بھی کہا جاسکتا ہے اور تاریخ کا کرشمہ بھی یہ عجائبات کا درجہ بھی رکھتے ہیں اور قارئین کی دلچسپی کا سامان بھی۔درویش کا قول ہے کہ تاریخ ایک صدی بعد اپنے اپکو دہراتی ہے۔درج زیل پراسرار واقعات درویش کے اس قول کو درست ثابت کرتے ہیں۔ہوسکتا ہے ان تحیر انگیز واقعات کی عرق ریزی تاریخ دانوں کو سربستہ رازوں کا سچ منکشف کرنے کا موقع فراہم کردے۔ائیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ محض اتفاقات ہیں یا پھر کوئی منطق۔ابراہیم لنکن اور جان ایف کینڈی کا شمار امریکہ کے کامیاب ترین صدور میں ہوتا ہے۔دونوں پہلے سینیٹر اور بعد میں وائٹ ہاوس کے مہاراج منعقد ہوئے۔دونوں شہری حقوق کے پرچار ک تھے۔لنکن اور کینڈی اپنی بیویوں کے معاملے میں سیاہ بخت تھے۔دونوں کی بیویاں اس وقت جہان فانی سے رخصت ہوئیں جب وہ خاتون اول کی حثیت سے وائٹ ہاوس میں رہائش پزیر تھیں۔ دونوں جمعے کے روز سر میں گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے۔ابراہیم لنکن1846 میں کانگرس کے رکن اور1860 میں صدر منتخب ہوئے۔ کینڈی ایک صدی بعد1946 اور1960 میں ممبر کانگرس اور صدر بنے۔۔لنکن کے پرسنل سیکریٹری کا نام کینڈی جبکہ کینڈی کے پرسنل سیکریٹری کا نام لنکن تھا۔دونوں صدور کے قاتلوں جان وولکس بوتھ اور لی ہاروے او سوالڈ کا تعلق جنوبی امریکہ سے تھا۔۔قاتلوں کی تواریخ پیدائش میں صدی کا فرق ہے۔جان وولکس1839 جبکہ لی ہاروے1939 میں پیدا ہوئے۔دونوں کے تین تین نام تھے جنکے حروف کی تعداد پندرہ بنتی ہے۔ ابراہم لنکن اور کینڈی کے قتل کے بعد امریکہ کے جنوب سے تعلق رکھنے والے اینڈریو جانسن اور لنڈن جانسن صدارت کے تاج محل میں جلوہ گر ہوئے۔اینڈریو1839 اور لنڈن صدی بعد یعنی1939 میں پیدا ہوئے۔ جان وولکس نے لنکن کو تھیٹر میں گولی چلا کر پیوند خاک بنایا۔تھیٹر کا نام فورڈ تھا۔ جان ایف کینڈی جلوس کے ساتھ موٹر کار میں سوار تھے کہ قاتل کی گولیوں نے انکا بھیجہ اڑادیا۔کینڈی کی کار کا نام لنکن تھا اور اسے فورڈ کمپنی نے بنایا تھا۔ اتفاق ملاحظہ کیجیے کہ لنکن کو گولی مار کر قاتل وئیر ہاوس کی چھت پر چڑھ گیا جبکہ کینڈی کو وئیر ہاوس پر چھپے ہوئے قاتل نے نشانہ بنایا۔قاتل موقع واردات سے بھاگ کر ٹھیٹر میں جاچھپا۔ لنکن اور کینڈی کے قاتل مقدمہ سماعت سے پہلے ہی قتل ہوکر عدم راہی ہوئے۔ ابراہیم لنکن نے ہلاکت سے ایک ہفتہ پہلے امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر مونروے کا دورہ کیا تھا جبکہ کینڈی نے موت سے ایک ہفتہ قبل معروف امریکی اداکارہ ما رلن منرو کے ساتھ خوب ہلہ شیری فرمائی۔ انسان موجودہ صدر باراک حسین اوبامہ اور سابق صدر جمی کارٹر کے درمیان پائی جانیوالی پراسرار مشابہت پر چونک اٹھتا ہے۔کارٹر نے جوہری علوم میں اعلی تعلیم حاصل کی اور پھر شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ اوبامہ نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں وہ یونیورسٹیوں میں طلبا کو ائینی امور و قانون کے تعلیمی زیور سے ہم اہنگ کرتے رہے۔کارٹر نے پنسلوانیا ایونیو پر منعقد ہونے والی تقریب حلف برداری میں صدارت کا ہما پہنا تھا۔تقریب حلف برداری میں عوام کے جم غفیر نے شرکت کی۔ اوبامہ نے کارٹر کی تقلید میں لمبی چوڑی واک کے بعد پنسلوانیا کے مقام پر صدارت کا حلف لیا۔امریکہ کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع تھا جب اوبامہ نے انسانی انبوہ کے درمیان حلف کی اشیرباد حاصل کی۔امریکی صدور کی تاریخ مرتب کرنے والوں نے کارٹر اور اوبامہ کے طرز فکر کی مشابہت پر الیکشن سے پہلے ہی تحقیق کا بازار گرم کررکھا تھا۔پرسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سین ول کہتے ہیں کہ اوبامہ کا انداز خطابت جمی کارٹر ایسا ہے۔دونوں عقل و خرد کو محو کردینے والی تقاریر کے ہنر کا ملکہ رکھتے ہیں۔سین ول کی تحقیق کے مطابق کارٹر اور اوبامہ نے امریکی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی لاکر امریکہ کو ناقابل تسخیر قوت بنانے کا منشور پیش کیا اور امریکیوں نے تبدیلی کے منشور کو خوب سراہا۔پرانی سیاست کو مسترد کرنے سابق حکومتوں کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنانے اور مسیحی اقدار اپناتے ہوئے اوبامہ نے وہی الفاظ استعمال کئے جو قبل ازیں کارٹر نے استعمال کئے تھے۔واشنگٹن پوسٹ نامی کمپنی کی مرتب کردہ مشابہاتی رپورٹ حال میں امریکی جریدے فارن پالیسی میں شائع ہوئی ہے۔اس رپورٹ میں مغرب کے شہرہ افاق محقق، ادیب و تاریخ دان والٹر رسل میڈ لکھتے ہیں کہ اوبامہ اور کارٹر نے ایسے پراشوب و سنگین ماحول میں اقتدار سنبھالا جب امریکہ کو خارجی و بیرونی طور پر ہوشربا مشکلات کا سامنا تھا۔کارٹر کو ویت نام جنگ اور واٹر گیٹ سیکنڈل سے پیدا ہونے والے خطرات کا سامنا کرنا تھا۔اوبامہ نے نائن الیون کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی سے لگا کھانے والی متنازعہ امریکی جنگوں کے دوران صدارت کا تاج پہنا۔دونوں صدور نے امریکہ کے مخالفین کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے اقدامات اٹھائے۔دونوں کو اپنے اقدامات کے باوجود مختلف تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔دونوں کو غربت بے روزگاری مالیاتی بحران اور دنیا میں ہونے والے مظالم پر رنج تھا۔دونوں جیو اور جیو دو کے اصول کو اپنے ایجنڈے کا اولین مقصد تصور کرتے ہیں۔کارٹر نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جیو اور جینے دو کی پالیسی تشکیل دی۔اوبامہ کے ایک سالہ دور کی پالیسیاں اسی اصول کی بنیاد پر ہویدا ہیں۔امریکی دانشوروں کی غالب اکثریت جمی کارٹر اور اوبامہ کے درمیان مماثلت پر یقین رکھتی ہے تاہم اس رائے سے اختلاف کرنے والے ناقدین بھی موجود ہیں۔cbs نیوز چینل کے نمائندے مارک نولر نے کئی امریکی صدور کے عرصہ اقتدار میں وائٹ ہاوس میں منعقد ہونے والی تقریبات کی کوریج کا اعزاز رکھتے ہیں۔ مارک نولر نے مماثلت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں نے عالمی سیاست و عالمی مسائل کو حل کرنے کے لئے مشابہہ طرز عمل اپنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں صدور کی پالیسیوں، انداز جہانبانی اور معاملات کی گھمبیرتا کی سلجھن کے لئے ےکسانیت تو موجود ہے تاہم دونوں میں کئی فرق بھی نمایاں ہیں۔اوبامہ کو عوام کی جتنی اکثریت نے ا پنی حمایت سے نوازا وہ کارٹر کے مقدر کا سکندر نہ بن سکی۔انکی ایک دلیل تو یہ ہے کہ اوبامہ کو ابھی ایک سال ہوا ہے ۔وہ جب کارٹر جتنا عہد پورا کریں گے تب پتہ چلے گا کہ انہوں نے کیا تیر مارا ہے۔اگر محولہ بالا مشابہتیں محض واقعات ہیں تو بلاشبہ یہ حیران کن بھی۔امریکہ کے مابعد طبعیات کے ماہر پروفیسر چارلس کی رائے ہے کہ دونوں صدور لنکن اور کینڈی کی روحیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوگئیں تھیں مگر اس نظرئیے کو اس لئے پزیرائی نہ مل سکی کیونکہ یہ مشابہتیں صرف صدور تک محدود نہ تھیں بلکہ انکے اہل خانہ سٹاف حتی کہ کاروں کے درمیان بھی حیران کن تھیں۔ خیر وجوہات کچھ بھی ہوں ایک بات طے ہے جس پر روے ارض کے تمام تاریخ دان متفق ہیں کہ تاریخ اپنے اپکو دہراتی ہے اور تاریخ سبق حاصل نہ کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنادیتی ہے۔اوبامہ کو کارٹر سے تشبیہ دی جارہی ہے تاہم اوبامہ نے کارٹر کے برعکس سامراجیت و بربریت پر مبنی بش دور کی جن خارجہ پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا دعوی کیا تھا وہ خاک ہوگیا ۔ اوبامہ bushi پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔اوبامہ کے لئے لازم ہے کہ وہ تاریخ کے چشم کشا رموز کی روشنی میں کابل و بغداد سے اپنی افوج قاہرہ کو جلد ازجلد واپس بلائیں اور امت مسلمہ کے خلاف جنونی وجارحانہ پالیسیوں کو ختم کریں ورنہ خود امریکی تاریخ دان انہیں عبرت کے قبرستان میں ایسی گمنام قبر میں دفن کریں گے جہاں انکا موازنہ کارٹر کی بجائے ہٹلر کے ساتھ کیا جائیگا۔
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team