اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت14-02-2010

 اورنگزیب تصور پاکستان کا پہلا خالق

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

قیام پاکستان کی بنیاد اس مرکزی فلسفے کے ستون پر استوار تھی کہ برصغیر پاک و ہند میں ہندو اور مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت کی رو سے دو علحیدہ قومیں ہیں ۔ دونوں ایک قوم کا روپ ڈھالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال سے لیکر چوہدری رحمت علی تک اور سرسید احمد خان سے لیکر بانی قوم قائد اعظم تک کے سیاسی وژن اور جدوجہدٍ حصول پاکستان کا مرکزی خیال اٍسی دو قومی نظرئیے کاbasic theme ہے مگر ایک سچ تو یہ ہے کہ دو قومی نظرئیے کا سب سے پہلا تصور مغلیہ سلطنت کے دیوقامت شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے طویل ترین دور شہنشاہیت میں اپنے گفتار و کردار اور عملی جہد مسلسل سے پیش کیا۔اورنگزیب کے افکار کا نچوڑ یہ تھا کہ مسلمان کبھی ہندووں کے زیرسایہ زندگی نہیں گزار سکتے۔مسلمانوں کی اصل جگہ تخت پر جلوہ نشینی اور علحیدہ ریاست میں مضمر ہے۔ اورنگزیب کی فکر و سوچ میں الگ ریاست کا خیال کیوں موجیں مارنے لگا؟ اورنگزیب کی سیاسی بصیرت و اگہی کا کمال تھا کہ اس نے تین صدیاں قبل یہ راز بھانپ لیا تھا کہ مسلمانان ہند کا مستقبل اسلامی مملکت کے قیام سے وابستہ ہے۔ اورنگزیب چاہتا تو شہنشاہ اکبر کے خود ساختہ دین اکبری کا نفاز کردیتا۔وہ سکھوں ہندووں عیسائیوں کو ساتھ ملا کر بادشا ہت کی لطافتوں سے مزے لیتا۔ وہ مراعات کے عوض غیر مسلموں کو اپنا ہم نوالہ و ہم پیا لہ بناسکتا تھا۔وہ ہندوازم اور یسوع مسیح کی تعلیمات کو فروغ دیکر محل میں چین کی بانسری بجاتا۔یوں اسکے خلاف نہ تو ہندووں و راجپوتوں کی بغاوت سراٹھاتی اور نہ ہی کوئی فتنہ برپا ہوتا۔تاہم اس درویش منش بادشاہ نے مسلمان قوم کو درپیش ہر چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔اسکی دانش مندی اوردوربینی نے ایک طرف اسے مسلمانوں کی عظمت و بکھری ہوئی قوت کو یکجا کرنے کا موقع فراہم کیا۔سازشی عناصر کا قلع قمع کرنے کا جوش عطا کیا تو دوسری طرف اورنگزیب نے مملکت میں خلافت راشدہ کا نظام نافذ کرنے کا جنون عطاکیا۔وہ لہد نشین بننے تک خلافت راشدہ کی اسر نو تجدید کے لئے برسرپیکار رہا۔یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برصغیر میں ازاد مسلم ریاست کی بنیاد کا کریڈٹ اورنگزیب عالمگیر کا خاصہ ہے۔اسکا زریں عہد بادشاہت اور اسکی زندگی اج بھی مسلم حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔تاریخ دان تیمور نیر لکھتا ہے کہ اورنگزیب دبلا پتلا، متقی و پرہیز گار انسان تھا۔وہ شراب و کباب داسیوں اور طوائفوں سے سخت نفرت کرتا تھا۔وہ رات کو مخملی بستروں کی بجائے فرش پر محو ہوجاتا۔وہ چیتے کی کھال اوڑھتا اور زاتی اخراجات کے لئے ٹوپیاں بنایا کرتا۔وہ مرد قلندر تھا۔شہنشاہانہ روایات، اکڑفوں اور جبریت و سطوت نے کبھی اسے چھوا تک نہ تھا۔سادگی کے امین بادشاہ کی مملکت ڈھاکہ سے دہلی تک اور میسور سے کابل تک دراز تھیں۔ وہ اپنی سلطنت سے ہر سال ساٹھ کروڑ کا مالیہ وصول کیا کرتا۔یہ رقم اج کھربوں کی لائن کراس کرچکی ہے۔وہ داد شجاعت دینے اور مخالفین کے دلوں پر ہیبت طاری کردینے والا فوجی جرنیل تھا۔ شجاعت ،بلند ہمتی،مستقل مزاجی اور عزم پیہم اسکے خون میں زندگی بن کر دوڑتا تھا ۔اورنگزیب نے کم عمری میں بلخ کی جنگ میں بطور ارمی چیف شرکت کی۔اللہ اکبر کی صدا گونجی تو چیف نے میدان جنگ میں لشکر جرار کی امامت کی۔وہ سربسجود ہوا تو مخالفین نے بوکھلاہٹ میں کہا اگر امام اورنگزیب ہے تو اسکے ساتھ لڑنا حماقت ہوگئی یوں وہ میدان سے بے نیل و مرام بھاگ اٹھے۔اورنگزیب نے اپنی راجدھانی1657 تا1707 کے پچاس سالوں میں شکست نہیں کھائی۔ وہ جن اندھیوں کے سامنے وہ کھڑا وہ رک گئیں وہ جن طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہوا وہ تھم گئیں۔نصف صدی میں دنیا کی کوئی سامراجی قوت اسے پچھاڑنے میں ناکام رہی۔اسکی ٹڈی دل فوج کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ دکن کی لڑائی میں 50ہزار اونٹ گھڑ سوار و پیادے شامل تھے۔فوجیوں کو لاجسٹک سپورٹ اور اشیائے خوردنی کے لئے 50 ہزار اونٹ اور 3 ہزار ہاتھی استعمال ہوئے۔افواج کے اعداد و شمار کا ہندسہ50 لاکھ کو کراس کرگیا۔عالمگیری فوج کے خیمے 30مربع میل زمین پر پھیلے ہوتے۔یہ لشکر کم اور ایک شہر کا منظر دکھائی دیتا۔فوجی شہر میں250 بازار تھے جہاں فوجیوں کی ضروری اشیا موجود ہوتیں۔وہ دوسرے شہزادوں سے قطعی طور پر مختلف تھا۔وہ بیک وقت راسخ العقیدہ مسلمان و کٹر متشرع مومن سادگی و سنجیدگی کی جیتی تصویر ،صبر و استقلال کا ائینہ دار،نصاف پرور منتظم اور ملت اسلامیہ کا عاشق تھا۔وہ درس دیتا تھا کہ مسلمان اپنی حاکمانہ برتری قائم رکھیں اور ہندووں کے ساتھ گھل مل اپنی جداگانہ حثیت کے تاج محل کو کرچی کرچی نہ کریں۔ شہنشاہ اکبر اگر ہندوستان کا پہلا کانگرسی تھا تو اورنگزیب پہلا مسلم لیگی ۔ وہ اپنے مقاصد کو صد فیصد حاصل نہ کرسکا تاہم اسکی دکھائی گئی راہ پر چل کر مسلمانان ہند منزل پاکستان پر پہنچے۔dr solrey سولہویں صدی کا زرخیز تاریخ دان تھا وہ اپنی بائیوگرافی میں لکھتا ہے کہ اورنگزیب اصول پرست منتظم تھا جسکے عہد میں بڑی بغاوت نے سر نہ اٹھایا۔اس نے جوا کھیلنے، شاہی بازاروں، شراب و کباب اور رنڈی بازی ایسے ننگ انسانیت افعال پر پابندی عائد کردی۔اس نے ستی و کاروکاری کو مٹادیا۔اس نے عوامی بھلائی کے لئے 80 قسم کے ٹیکسز نعاف کردئیے۔بادشاہوں کو ہیرے جواہرات میں تولنے کی رسم ختم ہوگئی۔راجوں مہاراجوں کے تحائف بھی پابندی کا شکار ہوئے۔وہ قران و سنت کی حکمرانی قائم کرنے لئے کوشاں رہا۔مہنگائی کا نام تک نہ تھا۔ایک روپے کے عوض اٹھ من چاول ملتے تھے۔ کوئی مورخ اج تک یہ بات ثابت نہیں کرسکا کہ اس نے کبھی عوام پر ظالمانہ طاقت استعمال کی۔ہزاروں سکولوں میں زبردستی ہندووں کی گیتا پڑھائی جاتی تاکہ مسلمان بچوں کو اسلام سے متنفر کردیا جائے مگر بادشاہ نے مسلمان بچوں کے لئے علحیدہ سکولز بنوائے۔ اورنگزیب نے ایک کونے سے دوسرے قرئیے تک سکول مساجد طبی سکولز سراوں کا جال بچھادیا۔عمر کے اخری حصے میں بیٹے اعظم کو خط لکھا میں عمررسیدہ ہوچکا۔محلوں میں ہزاروں لوگ میرے اگے پیچھے دوڑتے تھے نگر جب وقت اخر ایا تو اکیلا ہوں۔میں گناہوں پر پشیمان ہوں۔ لاڈلے بیٹے کام بخش کو لکھا مسلمانوں کی ہمت افزائی کرنا مسلمانوں کو قتل سے بچانا انصاف کا دامن تھامنا۔بادشاہی مسجد اج بھی مغلوں کی عظنت کی گواہی اور جاہ و جلال کی تصویر ہے۔یہ مسجد او رنگ زیب نے بنوائی جو انکی دیوانگی اسلام کی غمازہے۔اورنگزیب کا قول ہے کہ رب نے مجھے شہزادگی اور تخت دیکر دنیا میں اہم ترین کام کے لئے بھیجا کہ میں رعایا کی خدمت اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے مساعی جلیہ انجام دوں۔عوام کی خوشی میری خوشی ہے ۔میں عوام کی خوشی کے لئے اپنی خوشی قربان کرسکتا ہوں۔عوام کو سکون و مسرت دینے کے لئے بلا امتیاز انصاف لازمی ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ جونہی اورنگزیب نے انکھ بند کی تو سلطنت روبہ زوال ہونے لگی۔ جانشینوں نے دنیاوی الائشوں کو اپنا شعار بنالیا تھا۔انصاف کے محلوں میں ناانصافی کے رقص ہونے لگے۔عوام کی خوشیوں کو مسل کر رکھ دیا گیا۔ غربت بے روزگاری اور امریت کے جلووں نے سیاسی استحکام کو پارہ پارہ کردیا۔ انصاف معدوم ہوگیا۔اللہ تعالی کی یاد دلوں سے محو ہوگئی اور وہاں شیطانیت کے سمندر پھوٹ پڑے۔سرکاری کارندے اور محافظ حیلہ ساز بن گئے۔یوں اورنگزیب کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کی بنیادیں لرزنے لگیں۔ہندوںو انگریزوں نے سقوط در سقوط کے کارنامے دکھائے۔سلطنت سکڑنے لگی اور پھر1857 میں مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور پھر مغلوں کا نام تاریخ کے صفحات تک محدود ہوگیا۔ اگر ہم پاکستان کو درپیش خطرات کا موازنہ عالمگیر کی وفات کے بعد والی صورتحال سے کریں تو دونوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ارباب اختیار اورنگزیب کے قول کی روشنی میں عہد اورنگزیب اور شخصیت عالمگیر کا طائرانہ جائزہ لے کر تقلید کریں تو سنگین خارجی معاشی معاشرتی مسائل سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ ورنہ مغلیہ سلطنت کی طرح ہمارا زوال بھی یقینی ہوسکتا ہے۔دوسری جانب ہر سال یوم ازادی پر اورنگزیب عالمگیر کی کاوشوں کو بھی داد تحسین سے نوازا جائے کیونکہ پاکستان نام کی عمارت کی تعمیر کی بنیادوں میں چند اینٹیں اورنگزیب نے بھی فکس کی تھیں۔ویسے بھی ہمیں ایک عالمگیر اورنگزیب کی اشد ضروت ہے۔

 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team