اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-

drsajidkhakwani@gmail .com

Telephone:-            

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

 
 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت09-06-2010

خوف زدہ اسرائیل کی بین الاقوامی پانیوں میں عالمی دہشت گردی اورعالمی اداروں کا دہرامعیار

کالم۔۔۔ ڈاکٹرساجد خاکوانی

ہفتہ 5جولائی کی صبح اسرائیلی بحریہ کے کمانڈوزنے سمندری دہشت گردی کرتے ہوئے بین الاقوامی پانیوں میںایک اور بحری جہاز پر دھاوابول دیاہے جس پر غزہ کے محصور انسانوں کے لیے خوراک اور دوائیاں لے جائی جارہی تھیںاور 550من سیمنٹ بھی موجود تھاتاکہ غزہ کے اسرائیلی بمباری کے باعث خستہ تعلیمی اداروں اور ٹوٹے ہوئے مکانات کی تعمیر نو میں مدد کی جا سکے۔اطلاعات کے مطابق ہفتہ5جون 2010کی صبح آئر لینڈ کاایک بحری جہازجب غزہ کے ساحلوں سے کم و بیش 35کلومیٹر دور پہنچاتواسرائیلی بحریہ کے ”بدمعاشوں “نے جہاز پر حملہ کردیاحالانکہ جہاز میں کوئی دفاعی سامان نہ تھااور نہ ہی جہاز پر سے کسی طرح کی دفاعی کاروائی کی گئی تھی،جہازپرصرف گیارہ مسافراور عملے کے نوارکان سوار تھے۔اس سے صرف پانچ دن قبل بھی اسی طرح کے ایک بحری جہاز پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کرکے تو بیس انسانوں کی جان لے لی تھی جن میں زیادہ تر صحافی تھے اور وہ بھی اسی مقصد کے لیے یعنی غزہ کے محصورو مجبور انسانوں کے لیے انسانی امداد کا سامان لے کر جا رہے تھے۔
آئر لینڈ کے نوبل عالمی امن ایوارڈ یافتہ ”لیریٹ میریٹ مائگر“بھی اس جہازپر سوار تھے جنہوں نے ایک دن قبل جمعة المبار ک کوجہاز کے بارے میں ایک انٹر ویو کے دوران بتایاتھا کہ جہاز پر کئی ٹن کے حساب سے ناروے کے لوگوں کاعطیہ کیاگیالکھنے پڑھنے کاسامان لاداگیاہے تاکہ غزہ کے بچوں کی تعلیمی اعانت کی جا سکے ،بہت سی دوائیاں اور طبی آلات بھی اس جہاز میں موجود تھے تاکہ بیماروں کے علاج معالجے میں سہولت ہو سکے اور اسکاٹ لینڈ کے عوام کی طرف سے بہت سی پہیوں والی متحرک کرسیاں جو کہ معذور اور بوڑھے لوگوں کے لیے اور بہت سے کھلونے جو بچوں کی تفریح طبع کے لیے تھے اس جہاز میں لے جائے جا رہے تھے۔جبکہ اسرائیل نے گزشتہ تین سالوں سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے اور قوام متحدہ کے مطابق غزہ کے عوم کی اسی فیصدگزربسر اسی طرح کے امداد کے سامان پر منحصر ہے۔لیکن اسرائیل کی انتظامیہ نے اس سامان کوبھی آگے نہ جانے دیااورعالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بین الاقوامی سمندروں میں ہی اس جہاز کو روک کراپنی مسلمان دشمنی ہی نہیں بلکہ انسان دشنی کا بھی ثبوت دیاکیونکہ جن طبقات کے لیے یہ سامان لے جایاجارہاتھاجن میں بچے،بوڑھے اور مریض شامل ہیں وہ آخر اسرائیل کی ریاست کے لیے کیونکر خطرہ ہوسکتے ہیں؟؟؟
اس سے چندروز قبل بھی اسرائیل نے ایک جہاز کو شکار کیااور اس کے مسافروں پر گولیاں بھی چلا دیں،ایک اطلاع کے مطابق بیس مسافر جو سراسر انسانیت کی خدمت سے سرشارغزہ کے محصور عوام کے لیے سامان زیست لے کرجارہے تھے اسرائیلی بحریہ کے ”بدمعاشوں“نے اس بے ضررجہازپر ہیلی کاپٹر سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔یہ ترکی کا جہاز”ماوی مارمارا“تھااور ترکی ان ایک دو مسلمان ملکوں میں سے ہے جس نے امت کے جذبات کے برعکس اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کررکھے ہیں۔اسرائیل نے ان تعلقات کی بھی پروانہیں کی اور ترک انسان دوست مسافروں پر فوجی کاروائی کر ڈالی۔استمبول میں جب ا ن مقتولین کی جسمانی تفتیش کی گئی توان میں اکثریت کے سر میں گولیاں داغی گئی تھیں ،یعنی نیتاََ انہیں قتل کیاگیا۔اس سے قبل یہ احتمال تھاکہ شاید غلط فہمی میں یہ کاروائی ہو گئی ہو یا صرف ڈرانے دھمکانے کے لیے گولیاں چلائی گئیں اور لگ بھی گئیں لیکن مقتولین کی جسمانی تفتیش کے نتائج بتاتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ براہ راست سر کا نشانہ لے کر انہیں ارادتاََقتل کیا گیا۔اطباءاستمبول نے یہاں تک بتایاہے کہ بعض افراد کو لگی ہو ئی گولیاں تو2سے 14 سینٹی میٹرز کے فاصلے سے ہی ماری گئی ہیں،اس حقیقت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی ”بدمعاشوں“نے مسافروں کو اپنی تحویل میں لے کر انہیں قتل کیاہے اور یہ مدافعانہ قتل تو بالکل بھی نہیں تھے۔
ان مقتولین میں سے ایک 19سالہ نوجوان بھی تھا جس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ امریکہ کا شہری تھااور ایک عرصہ سے ترکی میں مقیم تھا۔”فرقان ڈوگن“نامی اس نوجوان کے بھی سر میں گولی داغی گئی اور کئی گولیاں اس کے جسم کے دیگر حصوں میں بھی لگیںاور وہ موقع پر ہی شہید ہو گیا۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ نوجوان ”ٹروئے“کے علاقے واقع نیویارک میں پیداہوا اور پھر ترکی میں بسنے لگا۔اہل ترکی نے ان شہدا کو اپنا قومی ہیرو قرار دیا ہے اور ان کے جنازے میں لاکھوں ترکی مسلمانوں نے شرکت کی ۔جمعرات کو جامع مسجدالفتح جو عثمانی ترکوں کی تعمیر کردہ شاندار مساجد میں سے ایک ہے اس میں ان شہدا کا جنازہ اداکیا گیا ۔ان کے مقدس اجسام کو ترکی اور فلسطین کے پرچموں میں لپیٹاگیاتھا۔ایک شہیدکے جسم پرلپٹے ہوئے حماس کے پرچم میں تحریرتھاکہ ”ہم یادرکھیں گے کہ اسرائیل نے یہ کیاظلم ڈھایاہے“۔اس جنازے میں شریک ایک ترک نوجوان”محمد شاہین“ نے میڈیاکو انٹرویو دیتے ہو کہا کہ ”سب کو جان لینا چاہیے کہ غزہ میں کیاظلم ہو رہا ہے اور اسرائیل اس کا ذمہ دار ہے“،بلامبالغہ لاکھوں کا مجمع ایک ہی نعرہ لگارہاتھا کہ اسرائیل دہشت گرد مردہ باد۔انسانی حقوق کی اس ترک تنظیم کے سربراہ ”یلدرم“نے اس موقع پر کہاکہ یہ اسلام پسندوں کی فتح ہے کہ ان شہادتوں کے باعت دنیاکی توجہ غزہ کے مظلوموں پر مرکوزہوئی اور اسرائیل کا وحشیانہ کردارعالمی میڈیاکا موضوع بنا۔
امریکی صدر نے اس جانکاہ واقعہ پر صر ف اتنا ارشاد فرمایاہے کہ اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فقطااس قول پراکتفاکیاہے کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیں جبکہ انسانی حقوق کی کونسل نے بھی معاملے کی چھان بین کا مطالبہ کر کے شہیدوںمیں نام لکھوانے کی ”مبارک سعی“کی ہے۔ جبکہ ان سب کے ”مقدس اقوال“کو اسرائیل نے جوتے کی نوک پررکھاہے اور دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہ اس معاملے میں وہ کسی عالمی ایجنسی یابین الاقوامی ادارے کو قطعاََ گھسنے نہیں دے گااور خود ہی سارے معاملات نپٹائے گا۔اسرائیل کے اس پالیسی بیان کے بعد تمام عالمی ادارے خاموش ہو گئے ہیں کیونکہ ممکن ہے انہوں نے اسرائیل کے اسی بیان کی خاطر ہی اپنے ”ارشادات“فرمائے ہوں یا پھر اسرائیل کی اس دھمکی کے بعد پھر ان میں بولنے کی سکت نہ رہی ہو۔اور یہ بیانات بھی عالمی میڈیا کا منہ بند کرنے لیے اور دنیاکو دکھانے والے دانتوں کی نمائش کے لیے دیے گئے تھے درون خانہ تاریخ شاہد ہے کہ اسرائیلی اقدامات کو اول روز سے امریکی و یورپی ”سیکولزازم“کے کارپردازوں کی آشیرباد حاصل رہی ہے اور آج دن تک حاصل ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایرانی بحریہ کے ہاتھوں کسی اسرائیلی جہاز کے ساتھ یہ سلوک ہو جاتا تو پھر بھی کیاعالمی اداروں کا یہی ردعمل ہوتا؟؟یقین سے کہاجاسکتاہے کہ تب تو اقوام متحدہ کی افواج اسی طرح ایران میں داخل ہو جاتیں جس طرح دوسرے مسلمان ممالک میں داخل ہو چکی ہیں اور نائن الیون کے کچھ مقتولین کے بدلے جس طرح خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں اسی طرح اسرائیلی جہاز کے انتقام کے طور پر ایران کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تیاریاں شروع کر دی جاتیں۔ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے اور معاہدے کے مطابق تو ترکی کی محافظت میں نیٹو کی افواج کواسرائیل کا گھیراو ¿کر لینا چاہیے تھا۔لیکن عالمی اداروں کے اس موقع پر زبانی جمع خرچ اور اس طرح کے بے شمار مزید مواقع پرخاموشی ان عالمی اداروں کے دہرے معیار کی نشاندہی کرتی ہے۔مسلمانوں کے معاملے میں یہ عالمی ادارے وہی کرداراداکرتے ہیں جس کو قرآن مجید نے ”صم بکم عمی فھم لا یرجعون“(یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ،یہ اب نہ پلٹیں گے)سے تشبیہ دی ہے۔یہ محض مفروضہ نہیں بلکہ ایک طشت ازبام حقیقت ہے کہ جب ایٹمی توانائی کا معاملہ تھا تو جب تک یہ توانائی سیکولر،ہندو،عیسائی یا یہودی ہاتھوں میں تھی تو اس طاقت کو کوئی مذہبی شناخت نہ مل سکی لیکن جب یہ طاقت پاکستان کے مسلمانوں کے ہاتھوں مین آنے لگی تو اسے ”اسلامی بم “سے موسوم کر دیاگیااور اب ایران کے پیچھے دنیا ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے کہ کہیں یہ طاقت اس کے پاس نہ آ جائے اور اس سے پہلے اسرائیل نے ہی عراق کے ایٹمی اثاثے ایک فوجی کاروائی کے ذریعے تباہ کر ڈالے تو اس وقت یہ عالمی ادارے کہاں تھے اور کس عالمی قانون کے تحت اسرائیلی طیاروں نے ایک دوسرے ملک کی حدود میں داخل ہوکر یہ کاروائی کی تھی؟؟؟
اسرائیل کی یہ کاروائی نہ صرف یہ کہ بجائے خود مستحق مذمت ہے بلکہ اسرائیل کا وجود ہی کل انسانیت کے لیے باعث ندامت ہے ۔اسرائیل سے نپٹنے کے لیے مسلمانوں کو کسی عالمی ادارے کی طرف دیکھنے سے سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملے گا قرآن مجید نے واضع طور پر کہ دیاہے کہ یہودونصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور ترکی نے دوستی لگاکر دیکھ بھی لی تب اس نے کیاپایا،نیٹو کی رکنیت اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے عوض اسے سوائے لاشوں کے اور کیا ملا؟؟
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ترکی اوراسرائیل کے تعلقات
ڈاکٹرساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail .com
ترکی کے یہودیوں پر بہت احسانات ہیںلیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہودیوں نے جس برتن میں کھایااسی میں چھید کیا۔بخت نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تاراج کے بعد سے یہودیوں کے کم و بیش ڈھائی ہزار سالہ جلاوطنی کے زمانے میں انہوں نے سب سے زیادہ آسائش و آرام اور راحت و آسوددگی جہاں سے پایاوہ مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دوراقتدار تھا۔مسلمان حکمرانوں نے یہودیوں کی بہت قدرافزائی کی انہیں رہنے کے لیے اپنے علاقے فراہم کیے ،ان کے تعلیمی اداروں کے لیے زمینیں مہیا کیں اور ان میں سے پڑھے لکھے اور قابل یہودی علما ءکو اپنے درباروں میں عالی مقامات تک بھی عطا کیے۔امویوں اور عباسیوں کے زمانے میں یہودیوں نے محبتوں اور عقیدتوں کے بے پناہ خراج وصول کیے اور جب دنیاکی ساری اقوام نے انہیں اپنے ہاں سے نکال باہر کیااور ان پر ظلم و تعدی کے پہاڑ توڑے اس وقت مسلمان اقوام ہی تھیں جنہوں نے اہل کتاب کے مشترک تعلق ہونے کے ناطے یہودیوں کو پناہ فراہم کی لین تف ہے اس قوم پر جو اپنے رب کی بھی بہت ناشکری تھی اور اس نے مسلمانوں کے احسانات کو بھی پاو ¿ں کی ٹھوکر پر رکھااور غزوہ احزاب سے لے کر صلیبی جنگوں تک اورسقوط بغدادسے لے کر سلطنت عثمانیہ کی تحلیل تک موقع ملتے ہی سب سے پہلے آستین کے سانپ کی مانند اپنے محسنین مسلمانوں کی کمر میں چھرا گھونپا۔اور آج امریکہ اور یورپ کے جو بے پناہ احسانات اس قوم کی گردن پر چڑھتے چلے جارہے ہیں طلوع ہونے والا سورج دیکھے گا کہ یہی قوم امریکہ اوریورپ کے زوال کاباعث بنے گی جبکہ دانشمندان مغرب اس حقیقت کوبہت قریب سے مشاہدہ بھی کررہے ہیں۔
ترکی کے یہودیوں کے ساتھ باقائدہ تعلقات کے ڈانڈے سقوط غرناطہ سے ملتے ہیں جب 1492ءمیں عیسائیوں نے اندلس میں سے جہاں مسلمانوں کو مار مار کے نکالا وہاں انہوں نے یہودیوں کے ساتھ بھی کوئی خیرخواہانہ سلوک نہیں کیااور انہیں بھی مذہب کی تبدیلی یا پھر غریب الدیاری پر مجبور کیا۔جبکہ اس سے پہلے اندلس میں یہودیوں نے مسلمان حکمرانوں کی عنایات سے اپنی بڑی بڑی جاگیریں اور بہت سے تعلیمی ادارے بھی بنارکھے تھے۔اس وقت یورپ کی ہی سرزمین پر سلطنت عثمانیہ نام کی بہت بڑی مسلمان ریاست موجود تھی اور جس طرح مسلمانوں نے اپنی اس ریاست کی طرف رخ کیااسی طرح یہودیوں نے بھی فرڈیننڈ کی عیسائی افواج کے ظلم و ستم اور جبرواستبدادسے تنگ آکر مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں پناہ تلاش کی اور جس طرح مسلمانوں کو اس سلطنت کے باسیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیااسی طرح یہودیوں کو بھی خوش آمدید کہاگیااور اسپین سے بچھڑنے والے آہستہ آہستہ یہاں آباد ہو نے لگے جن میں ایک مقتدر تعداد یہودیوں کی بھی تھی۔ مورخین نے ایک محدود اندازے کے مطابق کوئی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کی تعداد بتائی ہے جو اسپین سے سلطنت عثمانیہ کے مختلف شہروںمیں آن کر آباد ہوئے جبکہ صرف قسطنطنہ شہر کی کل آبادی اس وقت ستر ہزارنفوس پر مشتمل تھی۔
یہودیوں کا ترکی میں وارد ہونا سلطنت عثمانیہ کے لیے کوئی بہت اچھاشگون ثابت نہ ہوااور یہودی مسلسل اس طرح کی سازشوں میں لگے رہے کہ اس محسن سلطنت کو اکھاڑ پھینکاجائے اورانہوں نے سلطنت عثمانیہ کے آخری دنوں میں جب کہ سلطان بہت مقروض ہو چکاتھا،اس کا قرض چکانے اور مزید بھی بہت خطیر رقم مہیاکرنے کی پیشکش کی اس شرط پر انہیں فلسطین کاعلاقہ مستقل طور پر دے دیاجائے۔سلطان نے واضع طور پر دوٹوک الفاظ میں انکار کر دیاکہ وہ اپنی تاریخ و عقائد سے غداری نہیں کرسکتاچنانچہ دس سال کی طویل سازشی دورانیہ کے بعد وہی یہودی نمائندہ جس کو سلطان نے انکار کیا تھااسی کے ہاتھوں سلطنت عثمانیہ کے اختتام کا پروانہ ارسال کیا گیا۔اور اس کے بعد ترکی کو یہودی سازشوں نے بلآخر سیکولرازم کی اندھی غار میں دھکیل دیااور مورخین لکھتے ہیں کہ ترکی کا کمال اتاترک ایک یہودن کا ہی بیٹا تھاجس نے اسلامی شعائر کو ترکی سے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور آذان و نماز تک کو ترکی زبان میں اداکرنے کا حکم صادر کیااور عربی رسم الخط کی بجائے رومن رسم الخط میں ترکی زبان کا لکھنالازم کردیااور کوشش کی کہ خلافت سمیت ہر وہ رسم و نشان مٹا دیاجائے جس سے اسلامی دور اور اسلامی شعائر کی تازگی اجاگر ہوتی ہو۔
خلافت کے بعدترک حکمرانوں نے یہودیوں کو اس وقت بھی بہت سہولیات فراہم کیں جب وہ دنیاکے مختلف خطوں سے فلسطین میں منتقل ہوناچاہ رہے تھے،یہودیوں کے ہاں تاریخ کے اس عمل ”علیاہ باٹ“یا”ہاپلا“بھی کہتے ہیں۔اس مقصد کے لیے یہودیوں کی بہت سی تنظیمیں بھی بنائی گئیں ،”موساد“اسی زمانے کی ایک تنظیم ہے جسے بعد میں اسرائیل کی خفیہ اور بدنام زمانہ ایجنسی کانام دے دیاگیا۔ان تنظیموں نے یورپ کے ہالوکاسٹ سے بچ جانے والے یہودیوں کو ترکی کے راستے فلسطین میں منتقل کیا۔یہ ہجرت دو دورانیوں میں مکمل ہوئی ایک دورانیہ1934سے1942کے درمیان کا ہے جس دوران یورپ کے بے پناہ قتل عام سے بچانے کے لیے یہودیوں کو ترک حکمرانوں کی مددسے فلسطین میں منتقل کیاگیاجبکہ دوسرادورانیہ 1945سے1948کا ہے جب اسرائیل کی تاسیس کی خاطر جرمنی کے مہاجر کیمپوں سے یہودیوں کو ترکی کے راستے فلسطین لے جایاگیا۔یہودیوں کے مشکل ترین وقت میں بھی اس وقت کے ترک سیکولر حکمرانوں نے یہودیوں کی بہت مددکی اور ان پر احسانات کے بے پناہ بار چڑھائے۔
اسرائیل کے قیام کے بعد 1949میں ترکی پہلامسلمان ملک تھاجس کے حکمرانوں نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرلیاتھا،تب کے بعد سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان بہت گہری دوستی رہی شاید اس کی وجہ ترکی کے سیکولرحکمران تھے یہاں تک کہ 2006میں اسرائیلی وزیرخارجہ نے ان تعلقات کو مکمل اور مثالی تعلقات کہاتھاکیونکہ اسلامی دنیا میں سے انہیں اس سے زیادہ پزیرائی کسی اور ملک کے حکمرانوں نے نہیں دی تھی۔تعلقات کے آغاز سے ہی اسرائیل نے ترکی کو بہت بڑے پیمانے پر جنگی ہتھیاروں کی فروخت شروع کر دی تھی ۔ترکی کی فضائیہ کے پاس اسرائیل ساختہ طیارے ہیں اور اسرائیلی کمپنیاں ان طیاروں کی سروس اور دیکھ بھال کی ذمہ داریاں بھی پوری کرتی رہتی ہیں ماضی قریب میں اسرائیل نے ترکی کو ”اسرائیلی اوفیک خلائی سیارے“اور”فضائی دفائی نظام“کی فروخت کے معاہدے بھی کر لیے تھے لیکن امریکہ کی طرف سے ”این او سی“فراہم نہ ہونے پر ان معاہدوں پر عمل تادم تحریر معطل ہے۔1999کے بدترین زلزلے کے بعد ترکی کے فوجی نقصان کو بہت حد تک اسرائیل نے ہی پوراکیا۔
یکم جنوری 2000کوترکی اور اسرائیل نے باہنی آزاد تجارت کے معاہدے پر بھی دستخط کیے اور یہ معاہدہ اسلامی دنیامیں اسرائیل کے ساتھ اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا۔اسرائیل کے دوبڑے بڑے سفارتی ادارے ترکی میں اپناکام کررہے ہیں ایک تو اسرائیلی ایمبیسی جو ترک دارالخلافہ انقرہ میں قائم ہے اور دوسرااسرائیلی کونصلیٹ جنرل ہے جو استنبول میں قائم ہے۔نومبر2007میں اسرائیلی وزیراعظم نے ترکی کا تین روزہ سرکاری دورہ کیااور اس دوران ترکی کی پارلیمان سے خطاب بھی کیااور یہ پہلاموقع تھاکہ کسی اسرائیلی راہنمانے مسلمان پارلیمان سے خطاب کیا۔اسرائیلی وزیراعظم کے دورے کا مقصدترکی سے ایران کے ایٹمی معاملے میں حمایت حاصل کرنا تھا،لیکن اب حالات 1949سے بہت مختلف ہو چکے تھے اور ترکی کی عوام نے اسلام پسندوں کو بھاری مینڈیٹ دے کر سیکولرازم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر دیاتھاچنانچہ اسرائیلی وزیراعظم ایران کے مقابلے میں ایٹمی پروگرام پر ترکی کی حمایت حاصل نہ کرسکا۔
ترکی میں اسلام پسند حکمرانوں کے آنے کے بعد سے ترکی اسرائیل تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے ہیں ۔خاص طور پر چند سال پہلے جب اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کی اور انسانی آبادی پربے پناہ مظالم ڈھائے تو حماس کے راہنماخالد مشعل نے ترکی کا دورہ کیااور ترکی کے حکمرانوں کو اسرائیل کا اصل مکروہ چہرہ دکھایا جس کے بعد سے ترکی نے کھل کر اسرائیل کی مخالفت شروع کر دی ہے۔اب تک ترکی فلسطینیوں کے معاملے میں خاموش تھا لیکن خالد مشعل کے دورے کے بعد یہ سکوت ٹوٹ چکا ہے۔اکتوبر 2009کی ترکی اسرائیل مشترکہ جنگی مشقوں کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے عرب اسرائیل تعلقات میں ترکی کی جانبداری کی شکایت بھی کی اور کہاکہ اب ترکی کارویہ پہلے جیسادوستانہ نہیں رہا۔2009کے عالمی معاشی فورم کے دوران ترکی کے وزیراعظم نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایااور عالمی راہنماو ¿ں کے اس اجلاس میں اسرائیل پر کھل کر تنقید کی۔اس کے بعد 11اکتوبر2009کو ترکی میں ہونے والی مشترکہ جنگی مشقوں میں بھی ترکی نے اسرائیل کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی۔اکتوبر2009میں ہی ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اسرائیلی فوجیوں کی وہ فلم دکھائی جس میں وہ فلسطینی عورتوں اور بچوں کو گولیاں مار کر قتل کررہے ہیں ،اسرائیلی وزیراعظم نے اس فلم کے نشر کرنے پر ترکی سے شدید احتجاج کیا،بعض نامہ نگاروں نے تو سفارتی تعلقات کے توڑنے کی دھمکی تک بھی خبریں نشر کیں۔ان ٹوٹتے ہوئے تعلقات پر آخری زد اس وقت پڑ رہی ہے جب 31مئی کی صبح ترکی کے بحری جہاز پر اسرائیلی فوجی درندوں نے حملہ کر کے تو بیس افراد کو قتل اور سینکڑوں کو زخمی کر دیاہے اور ترکی کی قوم نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ترکی کے صدرنے تبصرہ کرتے ہوئے
کہاہے کہ یہ واقعہ ترکی اسرائیل تعلقات پر ناقابل تعمیر اثرات چھوڑے گا۔ترکی نے اسرائیل کی حکومت سے تین مطالبات کیے ہیں ،پہلا مطالبہ معذرت کا ہے ،دوسراغیرجانبدارانہ تحقیقات کا اور تیسرے مطالبے میں ترکی کی وزارت خارجہ کے نمائندے نے کہاہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیاجائے۔
صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو اسے بھٹکا نہیں کہتے،کم و بیش ایک صدی کے بعد ترکی کی قیادت سیکولرازم سے ملت اسلامیہ کی طرف لوٹ آئے توامت مسلمہ کے لیے یہ بات نہایت خوش آئندہوگی۔اسرائیل جہاں کل انسانیت کے لیے باعث ندامت ہے وہاں مسلمانوں کے کے لیے تو نہایت ہی باعث اذیت و تکلیف ثابت ہواہے۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات امت مسلمہ کی تاریخ و عقیدے سے غداری سے عبارت ہےں ،اس خوفزدہ ریاست نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر ناجائز قبضہ جماکر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچائی ہے اورپھر فلسطینیوں کی خون کی اباحت بھلا امت کو کہاں قبول ہے؟؟سو یہ امت کے حکمرانوں کا فرض منصبی ہے کہ وہ امت کے نمائندہ بن کردشمنوں سے معاملہ کریں نہ کہ دشمنوں کے نمائبدہ بن کر امت پر حکومت کرنے لگیں۔

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team