اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-

drsajidkhakwani@gmail .com

Telephone:-            

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

 
 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت20-07-2010

اجتہاد

کالم۔۔۔ ڈاکٹرساجد خاکوانی


امت مسلمہ کاامتےاز ی وصف


نئے پیش آنے والے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں ھل کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔دین اسلام کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا اور پہلے نبی سے آخری نبیﷺ تک سب انبیا اسی دین اسلام کے داعی اورمبلغ تھے تاہم شریعتیںمختلف انبیاءو رسل کی مختلف رہیں۔جیسے جیسے حالات تبدیل ہوتے رہتے اﷲ تعالی کسی نئے رسول کے ذریعے نئی کتاب اور نئی شریعت نازل کر دیتا،جس میں متعدداحکامات میں کلی یا جزوی تبدیلی کر دی جاتی۔مثلاََ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں سگے بہن بھائیوں کا نکاح ہوتاتھا،حضرت ےوسف علیہ السلام کی شریعت میںچور کی سزا یہ تھی کہ جس کی چوری کرتا تھا پھر اسکی غلامی میں آجاتا تھا،بنی اسرائیل پر تےن نمازیں فرض تھیں،25%زکوة فرض تھی ،قربانی کا گوشت خود نہیں کھا سکتے تھے اورروزہ مغرب سے مغرب تک ہوا کرتاتھا۔آخری شریعت میں ان سب احکام سمیت متعدد دیگر احکام میں بھی کلی ےا جزوی تبدیلی کر دی گئی اگرچہ بعض احکامات جوں کے توں بھی موجود رہے جیسے رجم کا حکم تورات میں وارد ہوا اور آخری شریعت میں بھی باقی رکھا گےا۔ایک بات قابل ذکر ہے کہ عقائد واخلاقیات پہلی شریعت سے آخری شریعت تک یکساں ہی رہے۔
ختم نبوت کے ساتھ ہی منصب نبوت تو ختم ہو گےا لیکن کار نبوت ابھی باقی ہے۔انسانی معاشرہ ہمیشہ کی طرح قےامت تک تغےروتبدل کاشکاررہے گا اور اس میں انسانی نفسےات،حالات و زمانہ اوردےگر احوال و اقدار کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انسانی اجتماعی مزاج بھی تبدیل ہوتا رہے گا۔اﷲ تعالی نے آخری شرےعت میں انسان کی اس طبعی و فطری مجبوری کو پیش نظر رکھتے ہوئے شرعی احکام میں تشریح و تشریع اور نفاذواجراءکے لےے اجتہادکادروازہ کھلا رکھا ہے۔یہ دروازہ اتنا بھی کھلا نہیں ہے کہ امتی اپنی حدوں کو پھلانگتا ہوانبی کے مقام تک ےا اس سے بھی آگے بڑھ جائے اور نہ ہی اس قدر تنگ ہے کہ انسانیت دردوتکلیف سے کراہتی رہے اور دین کے احکامات پرعمل مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاجائے اور دین میں انسانیت کی آسودگی و راحت کے لےے کوئی راستہ ہی نہ نکل سکے۔
اجتہادکرنے والے چونکہ انسان ہی ہونگے اگر چہ وہ کتنے قابل لائق اور متقی و پرہیزگار ہوںاس لےے ان سے غلطی کا امکان بہرحال موجود رہے گالیکن شایدنیت کے اخلاص کی وجہ سے محسن انسانیت ﷺنے فرماےا کہ جس نے صحیح اجتہاد کیااس کے لےے دو نیکیاں ہیں اور جس نے غلط اجتہاد کیا اس کے لےے ایک نیکی ہے۔اجتہاد کرنے والاجب ضرورت محسوس کرے گا تو اپنی پوری توانائی اس مقدس کام پر صرف کرے گا لیکن چونکہ وہ حامل وحی الہی نہیں ہے اس لےے شیطان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتاتاہم اسکی اس مساعی جمیلہ کودرباررسالت ﷺ میں پزیرائی ضرورمل گئی اگرچہ اسکا نتیجہ درست ہو چاہے غلط۔
ایک بات ظاہر ہے کہ اجتہاد کرنے والا مسلمان ہی ہوگا ،غےر مسلم کتنا ہی ماہر فن کیوں نہ ہواسکی اجتہادی رائے کی دین اسلام میں کوئی اہمیت نہ ہوگی۔مثلاََ ایک غےرمسلم ماہر معیشیت بلاسودی بنکاری کابہت ہی کامیاب طریقہ درےافت کر لے تووہ طریقہ علم معیشےت میں تو مستند ہو سکتا ہے لیکن دین اسلام میں اسے اس وقت قبول نہیں کیا جائے گا جب تک مسلمان علماءمعیشیت اسے ردوقبول کے اسلامی معےارات پر جانچ پرکھ کر اس بلاسودی بنکاری نظام کوتعلیمات اسلام کے عین مطابق قرار نہ دے دیں۔پس جس طرح انسانی علاج ہر انسان کے بس میں نہیں اور صرف وہی لوگ علاج کر سکتے ہیں جن کے پاس اس میدان کا علم موجود ہو اور جس طرح ہر انسان عدالت میں قانون کی وکالت نہیں کر سکتا سوائے ان لوگوں کے جو ماہرین قانون ہوں اسی طرح اجتہادبھی ہر کس وناکس کا کام نہیں اور اس کے لےے کچھ لازمی شرائط ہیںاورجولوگ وہ شرائط پوری کریں گے وہی اجتہاد کے مجاز ہوں گے اور انہیں کا اجتہاد امت میں معتبر ٹہرے گا۔
اجتہاد کی سب سے پہلی اورسب سے اولین شرط تو یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے عین مطابق ہو،کوئی بھی ایسا اجتہادجو قرآن و سنت سے ٹکراتا ہو گا اسکی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی۔قرآن و سنت میں اےسے متعدد مقامات ہیں جن کے معانی ہمیشہ سے تشنہ تشریح رہے ہیں اورہر مفسرومحدث کے سامنے قرآن و سنت نے اپنے نئے رازوں سے پردے ہٹائے ہیں اور اجتہادی مساعی کایہ سلسلہ قےامت تک جاری رہے گا۔امت کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجودہیں جن میں لوگوں نے اور بہت قابل لوگوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی خاطر ےاچند بے حقیقت سکوں اور چندروزہ اقتدارکی خاطرقرآن و سنت کی واضع ہداےات کو توڑموڑ کراور ان میں تحرےف کر کے پیش کرنے کی کوشش کی اور احکامات کی پابندی اورخاص طورپر حدوداﷲ کو معاشرے سے غےر موثر کرنے کی کوشش کی،انکی یہ کوشش علمائے امت کے ہاں ناقابل قبول ٹہری اور امت نے باالاجماع انہیں رد کیاکیونکہ اجتہاد اسی وقت ہی اجتہاد شرعی ہو گا جب وہ قرآن سنے کے عین مطابق ہواور شرےعت اسلامیہ کی روح کے منافی نہ ہو۔
قرآن و سنت کے مطابق وہی شخص اجتہاد کر سکتا ہے جو قرآن و سنت کی زبان سے بہت گہری واقفےت رکھتاہو۔اگر کوئی آدمی انگریزی زبان کے معروف ڈرامہ نگار شیکسپئرکی زبان دانی،اسکے خوبصورت اسلوب،اسکی فقرہ بندی اور مکالمے کے حسن کی تعریف کرے اور پوچھنے والا پوچھے کہ کیا آپ نے اسکے ڈرامے پڑھے ہیں ؟تو جواب ملے کہ ہاں میں نے انکا اردو ترجمہ پڑھا ہے۔توجس طرح اس جواب کے نتےجے میں اسکے دعوے باطل ہو جائیں گے اور اس معاملے میں صرف اسی کی بات قبول کی جائے جس نے شیکسپئر کو اسکی اصل زبان میں پڑھا ہو اسی طرح قرآن و سنت کے تراجم اور چند دینی کتب پڑھ چکنے والے کا اجتہادبھی ناقابل قبول ہوگا۔اجتہاد کے لےے ضروری ہے کہ عربی زبان پر اور خاص طور پر قرآن و حدیث کی زبان پر گہری گرفت ہواورآیات و احادیث کو انکی اصل میںسمجھا جائے اور پھر انہیں نئے حالات پر منطبق کرنے کے لےے نئی راہیں نکالیں جائیں۔
عربی زبان کے علاوہ بہت سے دیگرعلوم بھی ضروری ہیں کہ مجتہد ان سے واقف ہو۔وہ اچھی طرح جانتاہو کہ قرآنی آےات کی تفسیر کے کیاکیاطریقے ہیں،ان آیات ربانی سے قوانین کیسے اخذکےے جاسکتے ہیں،کس کس طریقے کو نبیﷺ نے پسند کیا ہے اور کس کس طریقے پر ناپسندےدگی کا اظہار کیا ہے۔مجتہد کے لےے ضروری ہے کہ وہ احادےث کی جانچ پرکھ پر گہرا عبور رکھتا ہو،اسے معمولات نبویﷺ سے وسےع آگاہی حاصل ہو تاکہ ایسا کوئی اجتہاد اسکے ہاتھوں صادر نہ ہو سکے جس کی حقیقت خلاف سنت ہو۔فقہ کے ضابطوںپر مجتہد کا گہرادرک ہونا چاہےے،اسے معلوم ہودو فقہوں کے درمیان کسی معاملے پر اختلاف حالات کی وجہ سے ہے،ماحول کی وجہ سے ہے،رواےات کی وجہ سے ہے،عربی لغت کی وجہ سے ہے ےا محض آرا کی وجہ سے ہے اور اسے فقہ پر اتنی دسترس حاصل ہو کہ نئے حالات میں وہ دو آراءمیں سے کسی ایک کو بوجوہ اولیت و فوقےت دے سکتا ہو۔سابقہ آسمانی کتب اور گزشتہ مجتہدین کے تفصیلی حالات بھی اسکے پیش نظر ہونے چاہییں اور سب سے بڑی بات یہ کہ جن حالات سے اسے مقابلہ درپیش ہے،جس دور میں وہ سانس لے رہاہے اور جس زمانے کی تاریخ اجتہاد اسکے قلمدان سے رقم ہواچاہ رہی ہے ان حالات کے بارے میں،اس دور اور اس زمانے کے تقاضوں سے وہ پوری طرح آگاہ ہو۔
قرآن و سنت نے دین کے مسلہ اصول دےے ہیں ،ان میں تغیروتبدل ممکن نہیں ہیں،یہ وحی کی تعلیمات ہیں ان میں نسخ ےعنی تبدیلی کا اختےار صرف اﷲ تعالی کو ہی ہے اور اب چونکہ وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے اس لےے دینی تعلیمات میں نسخ کا سلسلہ بھی منقطع ہو چکا ہے،پس شریعت کے مسلمہ اصولوں کے اندر رہ کر اجتہاد ہو سکتا ہے ،اپنی طرف سے کسی طرح کے اصول بنالیناےامسلمہ اصولوں میں کمی بیشی کرناےاکسی اصول کووقتی طور پر معطل کرکے کسی طرح کا اجتہاد کرناگوےا اﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے مقابلے پر آکر اجتہاد کرنا ہے جس کو کہ اجتہاد نہیں کہنا چاہےے بلکہ یہ بغاوت کی ایک قسم ہے جس میں یاتو خدا بننے کی کوشش کی جاتی ہے ےا پھر نبی کے اختےارات پر قبضہ کی کوشش کی جاتی ہے۔گزشتہ امتوں نے انہیں راستوں سے اﷲتعالی کی کتب میں تحریفات ےعنی اپنی مرضی کی تدیلیاں کیں اور اپنی شرےعت کا حلیہ بگاڑ دےا۔اوراسی لےے اﷲ تعالی نے گزشتہ کتب اور گزشتہ شرےعتوں کو منسوخ کر دےا۔
اجتہاد کے لےے ضروری ہے کہ وہ خیالی مسائل پر مبنی نہ ہو۔انسانی ذہن جب فکرکے گھوڑے دوڑاتا ہے تو بہت آگے کی سوچ لیتا ہے۔سلف صالحین ےعنی گزشتہ بزرگوں سے جب کوئی خیالی مسائل کا حل پوچھتاتھا تو وہ جواب دےتے تھے کہ جب اس طرح کے مسائل در پیش ہوں گے تو اﷲ تعالی ان مسائل کے حل کرنے والوںکو بھی پیدا فرمادے گا۔یہ ذہنی عےاشی کا ایک طریقہ ہے کہ اگریوں اور پھر ےوں اور پھر یوں اور ےوں ہو جائے تو شرےعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟یہ رویہ دین میں اختراعات کا دروازہ کھولتا ہے اور پھر تفسیر کی بجائے تاویلات کی طرف انسانی ذہن چل نکلتاہے اور دین مذاق و استہزا اور بے عملی کا مرقع بن جاتا ہے جس کے باعث حقیقی عملی مسائل سے توجہ ہٹتی چلی جاتی ہے اوردنیا آگے نکل جاتی ہے اور اہل دین و مذہب دنیا سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اجتہاد کے لےے ضروری ہے ہر طرح کے تعصب سے پاک ہواجائے،گروہی،مسلکی ےا علاقائی مفادات کی خاطر دینی احکامات میں ردوبدل کر دینا ےا حکمرانوں کی آشیرباد حاصل کرنے کے لےے چند بے حقیقت سکوں کے عوض ضعیف رواےات کا سہارا لے کر جھوٹے فتوے لکھ دینااور انہیں اقتدارکا حقیقی اہل قرار دے دینا کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں ہے۔بعض معاملا ت پر شروع دن سے امت کا اجماع چلا آرہا ہے،انکے خلاف اجتہادکرنا صحیح نہیں ہے۔بعض معمولات پرصدےوں پہ محیط امت کا عمل مسلسل چلتا آرہا ہے اس عمل کو علماءکی خاموش حمایت حاصل ہے اسکے خلاف بھی کسی طرح کا اجتہاد جائز نہیں ہے اور محض عقل کی بنیاد پربھی اجتہاد کرنا درست نہیں ہے۔
اجتہاد کا طریقہ یہ ہے کہ نئے پیش آنے والے مسائل کو سب سے پہلے قرآن مجید میں تلاش کیا جائے اور کتاب اﷲ کی کسی آیت سے اس مسئلہ کا حل درےافت کیا جائے،بصورت دےگرسےرة الرسول ﷺ کی وسےع ذخیرے میں اس مسئلے کا حل ےا اس سے ملتے جلتے کسی مسئلے کی روشنی میں اسکاحل نکالا جائے،یہ عمل قیاس سے قریب تر ہے۔اگر کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ دونوں میں متعلقہ مسئلہ کی کوئی نظےر نہ ملے تو بعد کے ادوار میں اجماع امت ےا سلف صالحین کے فتاوی میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی جائے،ناکامی کی صورت میں گزشتہ سطور میں درج کی گئی شرائط و ضوابط کی روشنی میںاپنی ذہنی رسائی کے مطابق اس مسئلے کا حل درےافت کرکے تو اسے امت کے سامنے پیش کردےا جائے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اجتہاد کر چکنے کے بعددوصورتےں ہوں گی،ےاتو اسے قبول کر لیا جائے گا اور اس پراجتماعی تعامل شروع ہو جائے گااس کا مطلب ہوگا کہ اجتہاد درست ہے کیونکہ امت مسلمہ کسی شر پر جمع نہیں ہو سکتی،اس صورت میں ایک زمانے کے بعد اس اجتہاد کو اجماع کا درجہ مل جائے گااور یہ سند کا مقام حاصل کر لے گا۔دوسری صورت میں امت کے اندر اس اجتہاد پر گفتگوکا سلسلہ شروع ہو جائے گاکچھ لوگ اسے قبول کریں گے اور کچھ نہیں کریں گے اور اگر قبول نہ کرنے والوں کی تعداد زےادہ ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ زےادہ ہوتی گئی تو اسکا مطلب ہوگا کہ اجتہاد درست نہیں ہے۔اس صورت میں آہستہ آہستہ اس پر تعامل متروک ہو جائے گاچنانچہ مجتہد کو چاہےے کہ ایسے اجتہاد سے رجوع کر لے ےعنی اپنی رائے واپس لے لے اور خوامخواہ اسرار نہ کرتا رہے کیونکہ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق وہ غلط اجتہاد کے نتیجے میں بھی ایک اجر کا مستحق ہو چکا ہے۔
ہر زمانے کی طرح فی زمانہ بھی بہت سے مسائل تشنہ اجتہاد ہیں اور امت کے اندر انکے بارے میں بہت مباحث پائی جاتی ہےں،ضرورت ہے کہ اہل علم و عمل اور مجتہدانہ بصےرت رکھنے والے حضرات آگے بڑھ کر امت کی راہنمائی فرمائیں۔بہت سے مسائل تو طب کے میدان سے تعلق رکھتے ہیں کہ کیا مرنے والا اپنے جسم کے مختلف اجزاءزندہ انسانوں کے نام ہدیہ کرسکتاہے؟ےا وہ ہدیہ نہ بھی کرے تو کیامر چکنے کے بعد جو اعضاءکسی دوسرے کے کام آسکتے ہیں اسے مردے میں سے نکال کر زندوں میں لگا دےنا جائز ہے؟خلاءمیں منہ کدھر کر کے نماز پڑھی جائے ؟اور روزہ کی کے کیا اوقات ہوں گے؟غےرمسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی حدود کار کا تعین اورایک خطہ سے برق رفتاری کے ساتھ زمین کے دوسرے خطے میں پہنچ جانے سے نمازوں اورروزے کی کیفےات اور روئت ہلال کے بارے میں بہت سے مسائل پر اجتہاد کی ضرورت ہے ۔اﷲ کرے کہ امت کی قےادت ایک بار پھر جرات مند،صالح اورمخلص و متقی لوگوں کے ہاتھ میں آجائے جو امت کو ذہنی غلامی کے اندھےرے غار سے نکال کر تو آفاقی حقانیت کی طرف گامزن کرےں،آمین۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team