اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-sikanderdgk@hotmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔25-06-2010

کچھ تو خیال کریں۔۔۔۔۔
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ محمد سکندر حیدر

ہاتھوں میں بینر،پلے کارڈز اور نعروں کی گونج میں احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ڈیرہ غازی خان میں کام کرنے والے محکمہ بلڈنگز کے ورک چارج ملازمین کو ہسپتال سے الفلاح بنک چوک تک ریلی نکالتے ہوئے دیکھا تو حیرت کے ساتھ پریشانی ہوئی کہ آخر انہیں کیا ہوگیا ہے جو یہ طبقہ چہار م کے غریب ترین ملازم الیکٹریشن، پلمبرز، سور مین، ٹیوب ویل آپریٹرز،چوکیدارز، سڑک پر نکل آئے ہیںاور یوں ماتم کررہے ہیں جیسے کوئی بہت بڑا سانحہ ِمرگ ہوگیا ہو۔ قریب جاکر اُن سے اِس سنگینی حالات کا استفسار کیا تو پتہ چلا یہ غریب ملازم جوکہ ریگولر سرکاری ملازم بھی نہیں اور ورک چارج کی حیثیت سے انتہائی محدود تنخواہ پانچ ساڑھے پانچ ہزار روپے پر گزر بسر کررہے ہیں۔انہیں گذشتہ چھ ماہ یعنی آدھے سال سے تنخوائیں نہیں مل رہیں ۔ تنخوائیں نہ ملنے کے اسباب کے بارے میں پوچھا تو غربت زدہ ملازمین نے ٹھنڈی آہیں اور متعلقہ حکام کےلیے قہرخدواندی کی طلب اور بددعائیں دیتے ہوئے انتہائی بے بسی کے عالم میں بتایا کہ E.D.O.فنانس ڈیرہ غازی خان نے تنخواﺅں کے فنڈز جاری نہیں کیے۔ ہم نے ہر فورم اور ہر افسر کے آگے دست بستہ التجاءکی ہے لیکن ہماری کوئی نہیں سنتا۔ جس کی بناپر مجبوراًہمیں سٹرکوں پر آکر اپنا احتجاج کرنا پڑرہا ہے۔ دیگر اہلیان ڈیرہ غازیخان کی طرح راقم بھی گرمی کی شدت میں اِن غریب ملازمین کی حالتِ زار کو دیکھ کر اور اِن کی کہانی سُن کر بے بسی میں کھڑا خاموش تماشائی بنا رہا۔بات ہی کچھ ایسی تھی کہ راقم سمیت کسی کے پاس بھی اِن کے دُکھوں کے دردکی فوری دوا کی فراہمی ناممکن تھی۔ دوسرے روز اِن ورک چارج ملازمین کے زونل چیرمین آل پاکستان پی ڈبلیو ڈی ورکرز یونین سی بی اے ڈیرہ غازی خان ظفر اقبال چانڈیہ سے اِس موضوع پر بات ہوئی تو پتہ چلاکہ طبقہ چہار م کے یہ غریب ترین ملازمین جوکہ محکمہ بلڈنگز کی وساطت سے ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ غازیخان اور دیگر ڈسٹرکٹ محکمہ جات میں بطور پلمبرز، الیکٹریشن اور سیوریج مین وغیرہ گذشتہ تقریباً پندرہ سالوں سے سرکاری دفاتر ، افسران اور سرکاری ملازمین کے گھروں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں انہیں گذشتہ چھ ماہ سے تنخوائیں نہیں مل رہی ہیں۔ زونل چیرمین کے بقول اِس ضمن میں یونین کی گذارش پر صوبائی وزیر بلدیات سردار دوست محمد کھوسہ نے بھی ڈی سی او ڈیرہ غازیخان کو مسئلہ کے حل کی ہدایت کی ہے اور ڈی سی او ڈیرہ غازی خان نے بھی متعلقہ افسران کو اِس سلسلہ میں ضروری ہدایات جاری کی ہیں لیکن ای ڈی او فنانس قواعد و ضوابط کی آڑ میں ہماری تنخواﺅںکے فنڈز جاری نہیں کرتا۔ حالانکہ یہ ورک چارج ملازم گذشتہ پندرہ سالوں سے اِسی حیثیت © ©”ورک چارج“ سے اب تک تنخوائیں وصول کرتے آرہے ہیں اور موجودہ ای ڈی او فنانس سے قبل کے تمام افسران اِن کی تنخواﺅں کے فنڈز جاری کرتے رہے ہیںلیکن اب قواعد و ضوابط کے گرداب میں اِن غریب ملازمین کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور اہل خانہ کو غربت کی عبرت ناک تصویر بنا دیا گیاہے۔ ای ڈی او فنانس کی اِس قدر سختی کی وجہ پوچھی تو زونل چیرمین نے بتایا کہ یونین کے عہداروں سے صاحب موصوف کی دوران مذاکرات تلخ کلامی ہوئی ہے جس کی سزا میں ہمارے بچے بھوکے مررہے ہیں حتی ٰکہ 30اپریل کو ڈسٹرکٹ آفیسر بلڈنگز (ایکسین بلڈنگ) نے تمام ورک چارج ملازمین کو ایک سرکاری حکم شاہی سے نوکروںسے مستقل طور پر ختم بھی کردیا تھا لیکن لیبر کورٹ کی مہربانی وانصاف کی بنا پر اِن ملازمین کو بحال تو کردیا گیا ہے لیکن تنخوائیں روک لی گئی ہیں۔اِس ساری صورت حال میں اِن غریب ملازمین کی قانونی حیثیت جو بھی ہو ۔ ای ڈی او فنانس ڈیرہ غازی خان نے اگر اِن کی تنخواﺅں کے فنڈز اب تک جاری نہیں کیے تو عین ممکن ہے کہ اُن کے پاس فنانس امور کا کوئی نہ کوئی قانونی جواز موجود ہوگا لیکن باعث دُکھ اور تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ طبقہ چہارم کے یہ غریب ترین ملازم جن کے ایک ماہ کا گزر بسر فقط پانچ ساڑھے پانچ ہزار روپے میں ہے ۔ جن کے گھروں میں مہنگائی کے اِس طوفان بدتمیزی میں دووقت کی روٹی، بیماری کی صورت میں ادویات اور بچوں کی تعلیم کے لیے سکول فیس میسر نہیں ۔ جن کے پاس تن کو ڈھانپنے کے لیے کپڑ ے اور ڈیوٹی پر آنے جانے کے لیے سواری کے لیے سائیکل بھی نہیں ہے۔ جو سارا دن متعلقہ افسران کی ڈانٹ ، گرمی کی شدت میں نالیا ں صاف کرتے، پانی کے پائپ بناتے اور بجلی کے تاروں کی مرمت وغیرہ میںگزار دیتے ہیں۔ اُن کی تنخوائیں گذشتہ چھ ماہ یعنی آدھا سال سے قواعد وضوابط کی آڑ میں روک لی گئی ہیں۔ حکم ِرحمت العالمینﷺ تو یہ ہے کہ مزدور کی مزدوری اُس کے پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کردی جائے ۔ لیکن اِس کیس میں تو غریب مزدورں کا پسینہ تو کجا غربت کی بنا پر مزدورں کا خون خشک ہوچکا ہے۔ وہ سڑکوں پر آکر داستانِ ظلم سُنا رہے ہیںلیکن کسی کے پاس اِن کے لیے کوئی حل نہیں۔ موجود حالات پاکستان میں جہاں ہر طرف عالم نفسانفسی اور افراتفری برپا ہے وہاں ایسے ظلم انتہائی معمولی نوعیت کے حامل بن چکے ہیں جن پر کان دھرنے کے لیے شاید کسی بھی صاحب اختیار کے پاس فرصت نہیں۔ راقم سمیت تمام صاحبان دردِدل کی اِس کیس کے متعلقہ افسران سے فقط اتنی سے گذارش ہے کہ وہ قواعد وضوابط پر بے شک سو فیصد عمل پیرا ہوں اور اُن کی تنخواﺅں کے فنڈز بھی جاری نہ کریں لیکن اپنے بال بچوں سمیت اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ ذرا فقط پانچ ساڑھے پانچ ہزارروپے میںاِن غریب ملازمین کی طرح ایک ماہ کے لیے نہ سہی پندرہ دن کے لیے ہی سہی زندگی گزار کر تو دیکھیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved