اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                            iqbal-janjua@gmail.com    

Telephone:-       

 

 

 

تاریخ اشاعت18-03-2010

اسلام اور انسانی حقوق

تحریر : ڈاکٹر طاہرالقادری

حضور نبی اکرم کی بعثت کے وقت انسانیت مختلف الانواع تضادات کا شکار اور کئی طبقات میں تقسیم تھی، سماجی اور معاشرتی شرف و منزلت کی بنیاد نسلی، لسانی اور طبقاتی معیارات پر مشتمل تھی۔ معاشرے کے طاقتور لوگ ہر لحاظ سے قابل عزت ہوتے تھے جبکہ غلام، کمزور اور زیردست طبقے طاقتور کے

رحم و کرم پر ہوتے تھے اور طاقتور کا قانون ہی ان کے مقدر کا فیصلہ کرتا، حضور نبی اکرم کی بعثت جاہلیت کے ان تمام بتوں کی شکستگی کا پیغام تھی۔ آپ نے مساوات انسانی کا پیغام دیتے ہوئے سماجی و معاشرتی شرف و منزلت کی بنیاد خاندان یا قبیلہ کو نہیں بلکہ تقویٰ اور کردار کو قرار دیا۔

(1) آپ نے بنی نوع انسان کو اس آفاقی تعلیم سے سرفراز فرمایا کہ کائنات ارض و سما میں انسان کو صاحب تکریم بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔

(2) لہٰذا کسی بھی شخص کو یہ حق ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان کی اس ترمیم کو پامال کرتا پھرے۔ جو اسے خالق کائنات کی طرف سے عطا کی گئی ہے اور پھر ہر شخص دوسرے شخص کی تکریم و شرف منزلت کا لحاظ رکھنے کا اس لئے بھی پابند ہے کہ تمام انسانیت کو نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا ہے۔

(3)۔ اس لیے کسی بھی فرد کو رنگ و نسل کی بنیاد پر عربی و عجمی ہونے یا سرخ اور کالا ہونے کے سبب سے کسی دوسرے پر فضیلت کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔

(4)۔ آپ نے سماجی و معاشرتی کبرو نخوت کے بتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے گروہ قریش اللہ نے تم سے جاہلیت کے غرور اور آباءپر فخر کرنے کو دور کر دیا ہے۔ (جان لو کہ) لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے (پیدا کئے گئے تھے)“ آپ کے قائم کردہ معاشرے میں بلال حبشی، سلمان فارسی اور صہیب رویؓ کو وہی عزت اور مقام حاصل تھا جو قریش کے کسی بھی معزز اور صاحب مرتبہ شخص کو۔

الغرض آپ نے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کیلئے سماجی و معاشرتی حقوق کی ایسی جامع اور ہمہ گیر تعلیم عطا فرمائی جہاں معاشرے کا کوئی بھی فرد اپنے حقوق سے محروم رہتے ہوئے سماجی یا معاشرتی عزت و احترام اور تحفظ سے محرومی کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اس باب میں آپ کے عطا کردہ سماجی و معاشرتی حقوق کا تذکرہ اس پس منظر میں کیا جائیگا۔
 

اجتماعی نظام

تحریر:مولانا عبدالغفار حسن عمرپوری  

ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب سفر میں تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک کو امیر بنا لیا جائے۔ تشریح: اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ جب سفر جیسی عارضی حالت میں بھی

جماعتی نظام قائم کرنے کی تاکید کی گئی ہے تو حضر کی صورت میں بدرجہ اولیٰ جماعتی نظام اور و امارات کی تشکیل واجب ہو جاتی ہے اسی کی تائید ایک دوسرے روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ اگر کسی جنگل فلاة میں تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک کو امیر بنا لیا جائے۔

التزام جماعت

373۔ ابوالدردائؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی جنگل یا بستی میں تین آدمی رہتے ہوں اور پھر وہ (اجتماعی طور پر) نماز کا اہتمام نہ کریں تو لازماً ان پر شیطان مسلط ہو کر رہے گا۔ (سنو!) جماعت سے وابستہ رہو ورنہ تمہارا حشر وہی ہو گا جو ریوڑ سے رہنے والی بھیڑ کا ہوتا ہے

بھیڑیا اسے ہڑپ کر جاتا ہے۔ تشریح: باطل اور فسق و فجور کی طاقتیں متحد اور ان کے باقاعدہ منظم جتھے قائم ہیں، ان کا زور توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ اہل حق اور اصحاب تقویٰ بھی منظم اور متحد ہوں۔ اس لیے کتاب و سنت میں جماعتی زندگی اختیار کرنے کی بار بار تاکید آئی ہے۔ بلکہ تقویٰ کی بنیادوں پر قائم ”الجماعہ“ سے خروج کو ارتداد کا ہم معنی قرار دیا ہے۔

اجتماعی نظام کی اہمیت

374۔ ”حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” مسلمانو! ہر نیک یا بد امیر کی رہنمائی میں خواہ وہ کبائر کا ارتکاب کرتا ہو، تم پر جہاد فرض ہے۔ ہر نیک یا بد مسلمان کے پیچھے خواہ وہ کبائر کا مرتکب ہو، نماز ادا کر لینا واجب ہے، ہر نیک یا بد کی نماز جنازہ ادا کرنا، خواہ وہ کبائر میں مبتلا ہو، ضروری ہے“۔ تشریح: اس روایت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔

(2)۔ امام نیک ہو یا فاسق وفاجر ہر ایک کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ امام یا امیر پہلے سے بنا ہوا ہے یا زور وقت سے مسلط ہو گیا ہے، ویسے عام حالات میں جب کہ مسلمانوں کو اپنا امیر یا امام منتخب کرنے کا موقع ملے، تو انہیں اپنے میں سے اخلاق و تقویٰ کے لحاظ سے بہتر آدمی چلنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے۔

(3) کوئی مسلمان کتنا ہی بدعمل ہو اس کی نماز جنازہ ادا کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی شخص بری طرح بدنام ہو یا اس نے ایسا کام کیا ہو جس سے حقوق العباد پر زد پڑتی ہوتو عوام کی تنبیہ اور سبق و عبرت کے لیے معاشرے کے ایسے افراد جو علم و تقویٰ کے لحاظ سے نمایاں ہیں اس کی نماز جنازہ سے الگ رہ سکتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ اسی طرح مقروض کا جنازہ آپ نے خود نہیں پڑھایا بلکہ لوگوں سے فرمایا، (اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو)۔ واضح رہے کہ بائیکاٹ اور قطع تعلق کی پالیسی وہیں چل سکتی ہے جہاں صحیح معنیٰ میں معاشرہ اسلامی بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے۔

نظام کی پابندی

375۔ ” بشیرؓ سے روایت ہے کہ ہم نے آنحضور سے سوال کیا کہ صدقہ وصول کرنے والے ہم پر زیادتی کرتے ہیں۔ کیا اپنے مالوں میں سے ان کی زیادتی کے مطابق چھپا سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔“ تشریح: اس حدیث سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سمع و طاعت اور نظام کی پابندی کا اسلام میں کیا مقام ہے۔ اسلامی حکومت کے کارندے اگر زکوٰة صدقات وصول کرتے ہوئے ظلم بھی کریں تب بھی ان کے جواب میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔

اطاعت کے حدود

376۔ ” حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر سمع و طاعت (سننا اور ماننا) واجب ہے۔ خواہ اسے (اپنے امیر کا حکم) پسند ہو یا ناپسند، یہ اسی وقت تک ہے جب تک کہ خدا کا نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، لیکن اگر خدا کی نافرمانی کا حکم دے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ ماننا۔“ حدود اللہ کے خلاف کوئی معاہدہ اور اقرار جائز نہیں ہے ”عمر بن عوف سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کے درمیان صلح کے عہد و پیمان جائز ہیں۔ وہاں ایسی صلح جائز نہیں جو حرام کو حلال، یا حلال کو حرام بنا دے۔ مسلمان اپنے طے کردہ شرائط کے پابند ہوں گے، الاپہ کہ کوئی ایسی شرط ہو جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال میں تبدیل کر دے۔“ تشریح: مسلمانوں کے تمام معاشی، سیاسی معاملات، معاشرتی تعلقات، بین الاقوامی معاہدات اور ملکی قانون سازی کی حدود اسی حدیث کی روشنی میں طے ہونی چاہئیں۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ اس قسم کے معاملات میں کتاب و سنت سے ہر جوئی مسئلہ کی تائید کیلئے سند تلاش کی جائے۔ بلکہ صرف اتنا دیکھ لینا کافی ہے کہ ہمارا کوئی قدم کسی واضح نص کے خلاف تو نہیں اٹھ رہا ہے۔ وہاں عبادات کے معاملہ میں ضرورت ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی جزئی کا ثبوت کتاب و سنت سے فراہم کیاجائے، ورنہ اندیشہ ہے کہ کہیں عبادت کی آڑ میں بدعات نہ رواج پا جائیں۔
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team