حضور
نبی اکرم کی بعثت کے وقت انسانیت مختلف
الانواع تضادات کا شکار اور کئی طبقات میں
تقسیم تھی، سماجی اور معاشرتی شرف و منزلت کی
بنیاد نسلی، لسانی اور طبقاتی معیارات پر
مشتمل تھی۔ معاشرے کے طاقتور لوگ ہر لحاظ سے
قابل عزت ہوتے تھے جبکہ غلام، کمزور اور
زیردست طبقے طاقتور کے
رحم و کرم پر ہوتے تھے اور طاقتور کا قانون ہی
ان کے مقدر کا فیصلہ کرتا، حضور نبی اکرم کی
بعثت جاہلیت کے ان تمام بتوں کی شکستگی کا
پیغام تھی۔ آپ نے مساوات انسانی کا پیغام دیتے
ہوئے سماجی و معاشرتی شرف و منزلت کی بنیاد
خاندان یا قبیلہ کو نہیں بلکہ تقویٰ اور کردار
کو قرار دیا۔
(1) آپ نے بنی نوع انسان کو اس آفاقی تعلیم سے
سرفراز فرمایا کہ کائنات ارض و سما میں انسان
کو صاحب تکریم بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔
(2) لہٰذا کسی بھی شخص کو یہ حق ہرگز نہیں دیا
جا سکتا کہ وہ اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان
کی اس ترمیم کو پامال کرتا پھرے۔ جو اسے خالق
کائنات کی طرف سے عطا کی گئی ہے اور پھر ہر
شخص دوسرے شخص کی تکریم و شرف منزلت کا لحاظ
رکھنے کا اس لئے بھی پابند ہے کہ تمام انسانیت
کو نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا ہے۔
(3)۔ اس لیے کسی بھی فرد کو رنگ و نسل کی
بنیاد پر عربی و عجمی ہونے یا سرخ اور کالا
ہونے کے سبب سے کسی دوسرے پر فضیلت کا حق حاصل
نہیں ہو سکتا۔
(4)۔ آپ نے سماجی و معاشرتی کبرو نخوت کے بتوں
کوپاش پاش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے گروہ
قریش اللہ نے تم سے جاہلیت کے غرور اور آباءپر
فخر کرنے کو دور کر دیا ہے۔ (جان لو کہ) لوگ
آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے (پیدا کئے گئے تھے)“
آپ کے قائم کردہ معاشرے میں بلال حبشی، سلمان
فارسی اور صہیب رویؓ کو وہی عزت اور مقام حاصل
تھا جو قریش کے کسی بھی معزز اور صاحب مرتبہ
شخص کو۔
الغرض آپ نے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کیلئے
سماجی و معاشرتی حقوق کی ایسی جامع اور ہمہ
گیر تعلیم عطا فرمائی جہاں معاشرے کا کوئی بھی
فرد اپنے حقوق سے محروم رہتے ہوئے سماجی یا
معاشرتی عزت و احترام اور تحفظ سے محرومی کا
شکار نہیں ہو سکتا۔ اس باب میں آپ کے عطا کردہ
سماجی و معاشرتی حقوق کا تذکرہ اس پس منظر میں
کیا جائیگا۔
|