اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت22-01-2009

 زرداری ملزم مگر مشرف ازاد کیوں؟

روف عامر پپا بریار


سپریم کورٹ اف پاکستان نے کالعدم قرار پانے والے این آر او پر تفصیلی فیصلہ ریلیز کردیا۔سپریم کورٹ کے فل بنچ نے16 دسمبر2009 کو این آر او پر اپنا مختصر حکم نامہ جاری کیا تھا جبکہ تفصیلی فیصلہ21 جنوری2010 کی رات کو جاری کیا گیا۔یہ فیصلہ چیف جسٹس چوہدری افتخار حسین کی سربراہی میں قائم17 رکنی بنچ نے اتفاق رائے سے کیا۔ کسی جج نے فیصلے کے متن سے انکار نہیں کیا۔فیصلے کو تحریر کرنے کا اعزاز چیف جسٹس کے حصے میں ایا۔تین جج صاحبان جسٹس چوہدری اعجاز احمد جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس سردار رضا نے اضافی نوٹ بھی تحریر کئے این آر او دور مشرف میں منظر عام پر ایا ۔ جنرل مشرف اور پی پی پی کی شہید ملکہ عالم کے مابین ہونے والے مفاہمتی ارڈی نینس این آر او کی رو سے آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف مختلف النوع مقدمات کو ختم کردیا گیا مگر سپریم کورٹ نے مقدمات کے خاتمے کو ائین کی مختلف شقوں سے متصادم قرار دیکر ارڈینینس کو مسترد کردیا۔سپریم کورٹ نے ملزمان کی بریت کو کالعدم قرار دیکر تمام مقدمات بحال کردئیے ۔ یہ مقدمات5 اکتوبر2007 سے پہلے والی پوزیشن پر بحال ہوگئے۔ فل بنچ نے احتساب عدالتوں اوماتحت کورٹس کو حکم دیا کہ وہ مقدمات کے جلد فیصلوں کو یقینی بنائیں۔ملزمان کو طلب کرکے کیسز کی شنوائی کا اغاز وہیں سے کیا جائے جہاں انہیں ڈیڈ کیا گیا تھا۔ اصولی طور پر تو مقدمات کا احیا مختصر فیصلے کے بعد ہی ہوگیا تھا جب عدلیہ نے صدر مملکت آصف علی زرداری اور دیگر سرکاری مناصب پر فروکش اعلی شخصیات اوربیوروکریٹس سمیت این آر او  زدہ افراد کے خلاف اندرون اور بیرون ملک تمام مقدمات بحال کردئیے تھے۔ پاکستان کے معروف قانون دانوں نے اپنی ارا ،تبصروں اور تجزیوں میں یہ تسلیم کیا تھا کہ صدر مملکت کو ائین کی رو سے استثنا حاصل ہے اور کوئی عدالت صدر مملکت کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ چلانے کا اختیار نہیں رکھتی۔شعبہ قانون کے افلاطون سمجھے جانیوالے شہہ سوار اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد بیانگ دہل کہا کہ صدر کو ائین مقدمات کے بکھیڑوں سے بری الزمہ قرار دیتا ہے تاہم عدلیہ نے مختصر حکم نامے اور تفصیلی متن میں صدر کو ملزمان کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جنہوں نے موجودہ عدالتی سیٹ اپ کی بحالی کے لئے ظلم و تشدد اور مصائب و الام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یہ وہی اعزاز ہیں جنہوں نے چوہدری افتخار کی بحالی کے لئے دور مشرف میں جان جوکھوں والی قانونی لڑائی لڑی۔اعتزاز کی قانونی دانش نے چیف کو وقار کے ساتھ عدالتی جیت سے سرفراز کیا؟ گو کہ عدالتی احکامات پر تنقید کرنا درست نہیں تاہم تنقیدی جائزوں سے کئی قابل اصلاح پہلو بھی برامد ہوتے ہیں۔ اعتزاز ایسا قانونی موشگافیوں کا بادشاہ صدر کو مقدمات سے مستثنا قرار دیتا ہے تو پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ عدلیہ کے جانبازوں نے کیوںزرداری کو میسر تمام قانونی مراعات سے بیک جئنبش قلم محروم کردیا؟ پی پی پی کے رہنما شکوہ کرتے ہیں کہ عدلیہ صدر کے ساتھ مساویانہ سلوک نہیں کررہی۔تفصیلی فیصلے میں فلپائن اور نائجیریا کے امروں کی لوٹی ہوئی دولت کا تزکرہ شامل ہے۔حکومتی لابی اور پی پی پی کا استدلال ہے کہ یہ حوالہ دیکر زرداری کو نشانہ بنایا گیا ہے؟ ہم ایسے سوالات کے جوابات دینے کے قابل تو نہیں مگر پی پی پی کے جیالوں کا یہ موقف تاریخی طور پر درست ہے کہ پی پی کو عدلیہ سے کبھی انصاف ہی نہیں مل سکا۔یہ تاریخی سچ ہے کہ زوالفقار بھٹو جیسے شہرہ افاق رہنما کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے امریت کی خوشنودی کے لئے قتل کے من گھڑت مقدمے میں عدالتی قتل کی استبدادیت کی نذر کردیا۔نوے کی دہائی میں سپریم کورٹ نے صدر اسحاق کی طرف سے ختم کی جانیوالی نواز حکومت کو باعزت بحال کردیا مگر اسی عدالت نے بینظیر بھٹو کی برطرفی کو قانونی سند بخشی حالانکہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی حکومتوں پر ایک جیسے صدارتی الزامات عائد تھے۔ حکومت سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست بھی دائر کرچکی ہے جسکے قابل سماعت بنانے کا فیصلہ تاحال نہیں ہوسکا۔ امید کی جاتی ہے کہ جمہوری سسٹم کی زندگی کے لئے عدلیہ کے منصف حکومتی اپیلوں سے خیر کا پہلو نکالیں گے۔ میڈیا نے دونوں مرتبہ فیصلے کو زرداری کی گوشمالی سے تعبیر کیا ہے۔صدر مملکت کے خلاف میڈیا نے دشنام طرازیوں کا لنڈا بازار سجایا ہوا ہے۔صدر مملکت ریاست کے منتخب صدر ہیں جو وفاق پاکستان سے یکجہتی کی علامت ہے۔کسی باوقار معاشرے میں صدر مملکت کی اتنی تکذیب نہیں کی جاتی جتنی زرداری کے ساتھ ہورہی ہے۔ریاست کے سب سے معتبر ترین عہدے پر فائز رہنما کی تذلیل ہماری زہنی خجالت کی ائینہ دار ہے۔پاکستان میں تصادم کی افواہیں سرگرم ہیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور سینیر ججز اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی پر اختلاف کی کڑیوں کو ملایا جائے تو تصادم خارج اقز امکان نہیں۔کیا کوئی جواب دے سکتا ہے کہ تصادم کی صورت میں جمہوریت کی گاڑی اپنی پٹری پر خراماں خراماں اور کشاں کشاں رواں دواںرہ سکتی ہے؟ کیا تصادم کی صورت میں جرنیل مافیا جمہوریت کا دھڑن تختہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوگا؟ پاکستان میں ائین کی حکمرانی و جمہوریت کی کارفرمائی میں ایوان صدر اور سپریم کورٹ کو دانشمندانہ کردار ادا کرکے جمہوریت کی نگہبانی کا فریضہ ادا کرنا ہوگا۔تصادم سے گریز کرنے کے لئے چیف جسٹس اور صدر مملکت کو ملاقات کرنی چاہیے۔مشکلات کے بھےنور میں پھنسے ہوئے ملک کی سلامتی کے لئے ریاست کے دوبڑوں کی میٹنگ لازم و ملزوم ہے۔این ار او سے مستفید ہونے والے ملزمان کی اکثریت اپنی بے گناہی کا ماتم کررہی ہے یوں وہ عدلیہ میں اپنی بے گتناہی ثابت کرسکتے ہیں۔عدلیہ نے ان عدالتی احکامات کو بھی رد کردیا جو5 اکتوبر 2007 کے بعد خارج ہوئے۔عدلیہ نے وابستگان این ار او کو ائین کی دفعہ62 اور63 کے تحت ملنے والے تحفظ سے تہی داماںکردیا جس سے کئی سرکاری عہدیداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ انکی اہلیت کو اب چیلنج کیا جاسکتا ہے جو انکی نااہلی پر مہر ثبت کرنے کا کلیہ بن سکتا ہے۔صدر زرداری نے19 جنوری کو وکلا کے وفود سے بات کرتے ہوئے اپنے بیان کو دہرایا کہ وہ عدالتی فیصلوں کا احترام کریں گے۔زرداری نے کہا کہ جمہوری نظام کے استحکام کے لئے حکومت عدلیہ کی ازادی پر یقین رکھتی ہے۔سپریم کورٹ کے سابق چیف سعید الزماں صدیقی نے تفصیلی فیصلے پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا کہ عدالت صدر کو طلب نہیں کرسکتی البتہ مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ اگر عدالت طلب کرے تو وہاں بڑے پن کا مظاہرہ کرکے پیش ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔عدلیہ کے فیصلے کے بعد فریقین کو تصادم سے راہ فرار حاصل کرنی ہوگی۔ عدلیہ کو غور کرنا ہوگا کہ انہوں نے این آر او سے فوائد حاصل کرنے والے افراد اور صدر مملکت تک کے خلاف مقدمات انصاف و عدل کی پاسداری کے نام پر بحال کردئیے مگر مشرف دور میں قائم احتساب عدالتوں کے کیسز کی قانونی صحت کیا ہوگی؟ عدالت مشرف کے امرانہ اقدامات کو غیر ائینی قرار دے چکی ہے بھلا ایک ڈکٹیٹر کے دور میں قائم کئے جانے والے مقدمات تو غلط ہوسکتے ہیں۔زرداری کو ملزم بنایا جاچکا ہے مگر ایک امر جس نے اپنی انا کی تسکین کے لئے سپریم کورٹ کی عظمت کو چکنا چور کردیا تھا ایسے امر کی گردن میں قانون کا شکنجہ کیوں نہیں کسا جاتا ہے؟ کیا یہ فرق تو نہیں کہ زرداری منتخب صدر ہے جبکہ مشرف امر تھا۔امر کو عدالت میں طلب کرنے کی راہ میں کیا قباحتیں و رکاوٹیں حائل ہیں؟ عدلیہ کا فل بنچ اتفاق و یگانت کی راہ کا مجاور بننے پر مبارکباد کا مستحق ہے تو دوسری طرف حکومت اور ایوان صدر بھی داد تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team