اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 پریم چند کے افسانے

پريم چند جن کا نام افسانہ نگاری کي دنيا ميں ايک اہم مقام رکھتا ہے۔ ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-jawwab@gmail.com
 

مصنف کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 
کفن

تحریر---------  پریم چند

مکھيا بننے ہوئے تھے، اس پر سارا گائوں انگشت نمائي کرتا تھا، پھر بھي اسے تسکين تو تھي ہي کہ اگر وہ خستہ حال ہے، تو کم از کم اسے کسانوں کي ہي جگر توڑ محنت تو نہيں کرني پڑتي اور اس کي سادگي اور بے زباني سے دوسرے بے جا فائدہ تو نہيں اٹھاتے، دونوں آلو نکال کر جلدي جلدي کھانے لگے کل سے کچھ نہيں کھايا تھا اتنا صبر نہ تھا کہ انہيں کچھ ٹھنڈا ہوجانے ديں۔
کئي بار دونوں کي زبانيں جل گئيں، چھيل جانے پر آلو کا بيروني حصہ تو زيادہ گرم معلوم نہ ہوتا تھا، ليکن دانتوں کے تلے پڑتے ہي اندر کا حصہ زبان اور تالو اور حلق کو جلا ديتا تھا، اور اس انگارے ک ومنہ ميں رکھنے سے زيادہ خريت اس ميں تھي کہ وہ اندر پہنچ جائے، وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کيلئے کافي سامان تھا اس لئے دنوں جلدي جلدي نگل جاتے، حالانہ کہ اس کوشش ميں انکي آنکھوں سے آنسو نکل جاتے۔
گھيسو کو اس وقت ٹھا کر کي برات ياد آئي جس ميں بيس سال پہلے وہ گيا تھا، اس دعوت ميں اس اسے جو سيري نصيب ہوئي تھي وہ اس کي زندگي ميں ايک يادگار واقعہ تھا، اور آج بھي اس کي ياد تازہ تھي بولا وہ بھوج نہيں بھولتا تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر پيٹ نہيں ملا، لڑکي والوں نے سب کو پوڑيا کھلائي تھيں، سب کو چھوٹے بڑے سب نے پوڑيا کھائيں، اور اصلي گھي کي سٹپني رائتہ تين طرح کے سوکھے ساگ ايک رسہ دار ترکاري دہي چٹني مٹھائي ، اب کيا بتائوں اس کے بھوج ميں کتنا سواد ملا تھا، کوئي روک ٹوک نہيں تھي، جو چيز ہو مانگو اور جتنا چاہو کھائو لوگوں نے تو ايسا کھايا ايسا کھايا کہ کسي سے پاني نہ پيا گيا مہر پروسنے والے ہيں کہ سامنے گرم گرم گول گول مہکتي کچوريا ڈالے ديتے ہيں منع کرتے ہيں کہ انہيں چاہے تيل کو ہاتھ سے روکے ہوئے تھے، مگر وہ ہيں کہ دئے جاتے ہيں، اور جب سب نے منہ دھو ليا تو ايک ايک بيرا پان بھي ملا مگر مجھے لينے کي کہا سدھ تھي کھڑا نہ ہوا جاتا تھا چت پٹ جا کر اپنے کمبل پر ليٹ ايسا دريا دل تھا وہ ٹھا کر مادھو نے ان تکلفات کا مزہ ليتے ہوئے کہا، کہ اب ہميں کوئي ايسا بھوج کھلاتا سادي بياہ ميں مت کھرچ کرو، کريا کرم ميں مت کھرچ کرو، پوچھو گرميوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھو گے، مگر بٹورے ميں تو کمي نے بھي نہ کھائي ہوگي چھاپٹھا تھا تو اس کا آدھا بھي نہيں ہے آلو کھا کر دونوں نے پاني پيا اور دہي الائو کے سامنے دھوتيا اوڑھ کر پائوں پيٹ ميں ڈالے سو رہے تھے، دوازے کنڈلياں مارنے پڑے ہوں اور بدھيا ابھي تک کراہ رہي تھي۔
صبح کو مادھو نے کوٹھري ميں ديکھا تو اس کي بيوي ٹھنڈي ہوگئي تھي، اس کے منہ پر مکھياں بھنک رہي تھيں، پتھرائي ہوئي آنکھيں اور پر ننگي ہوتھيں، سارا جسم خاک ميں لت پت ہورہا تھا، اس کے پيٹ ميں بچہ مرگيا تھا، مادھو بھاگا ہوا گھيسو کے پاس گيا پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتي پيٹنے لگے، پڑوس والوں نے يہ آواز سني تو دوڑے ہوئے آئے اور رسم قديم کے مطابق غم زدوں کي شفي کرنے لگے، مگر زيادہ رونے دھونے کا موقعہ نہ ملا کفن اور لکڑي کي فکر کرني تھي، گھر ميں تو پيسہ اس طرح غائب تھا جيسے چيل کے گھونسلے ميں مانس، باپ بيٹے روتے ہوئے گائوں کے زميندار کے پاس گئے وہ ان دونوں کي صورت سے نفرت کرتے تھے کئي بار نہيں اپنے ہاتھوں سے پيٹ چکا تھا، چوري کي علت ميں وعدہ پر کام پر نہ آنے کي علت ميں پوچھا کيا ہے، بے گھسوا روتا کيوں ہے، اب تو تيري صورت ہي نظر نہيں آتي ہے، اب معلوم ہوتا ہے کہ تم اس گائوں ميں رہنا نہيں چاہتے۔
گھيسو زمين پر سر رکھ کر آنکھوں ميں آنسو بھرتے ہوئےکہنے لگا سرکار بڑي بپت ميں ہو، مادھو کي گھر والي رات گجر گئي، دن بھر تڑپتي رہي سرکار رات تک ہم دنوں اس کے سرہانے بيٹھے رہے ہے دوا دارو جو کچھ ہوسکا کيا مگر وہ ہميں دگا دے گئي، اب کوئيايک روٹی دينے والا نہيں رہا مالک تباہ ہوگئے، گھر اجڑ گيا آپ کا گلام ہوں، آپ کے سوا اس کي مٹي کون پار لگائے، ہمارے ہاتھوں ميں تو جو کچھ تھا، وہ سب دوا دارو ميں اٹھ گيا۔
سرکار کي دبا ہوگي تو اس کي مٹي اٹھے گي آپ کے سوا اور کس کے دوار پرجائے، زميندار صاحب رحم دل آدمي تھے، مگر گھيسو پر رحم کرنا کالے کمبل کر رنگ جڑتا تھا جي میں آيا تو کہ دہ چل دور ہو يہاں سے لاش گھر ميں رکھ کر سڑا، يوتو بلانے سے بھي نہيں آتا، آج جب ضرورت پڑي ہے تو خود چل کر آيا ہے، خوشامد کرنے حرام خور کہيں کا، بدمعاش مگر يہ غصہ يا انتقام کا موقعہ نہيں ملا تھا، طوعا کرہادور دينے نکال کرپھيک دئيے مگر تشني کا ايک کلمہ بھي منہ سے نہ نکلا اس کي طرف تاکاتک نہيں گويا سرکا بوجھ اتارا ہو۔
جب زميندار نے دو روپے دئيے تو گائوں کے بننے مہاجنوں کو انکار کي جرات کوں کرہوتي، گھيسو زميندار کے نام سے ڈھنڈورا پيٹتا جاتا کسي نے دو آنے دئيے کسي نے چار آنے ايک گھنٹے ميں گھيسو کے پاس پانچ روپے کي معقول رقم جمع ہوگئي، کسي نے غلہ ديا، کسي نے لکڑي اور دوپہر کو گھيسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے گئے، ادھر لوگ بانس دانس کاٹنے لگے، گائوں کي رقيق القلاب عورتيں لاش آرک ديکھتي تھيں، اور اس کي بے بسي پر دو بوند آنسو گر اکر چلي جاتي تھيں، بازار ميں پہنچ کر گھيسو بولا لکڑي تو اسے جلانے بھر کو مل گئي ہے کيوں، مادھو؟ مادھو بولاہاں لکڑھي تو بہت ہے اب کفن چاہئيے۔

اگلا صفحہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچھلا صفحہ

 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved