|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
|
جڑوں کی تلاش
باب
سوم |
تحریر۔۔۔------------
ابن صفی |
آج صفدر تین دن بعد آفس میں داخل ہوا تھا۔ مگر اس حال میں کہ اس کے بال
گردآلود تھے۔ لباس میلا اور شیو بڑھا ہوا تھا۔ دوسروں نے اسے حیرت سے
دیکھا! اور اس نے ایک بہت بری خبر سنائی! "عمران مار ڈالا گیا!" اور یہ
خبر بم کی طرح ان پر گری! جولیا تو اس طرح اچھلی جیسے اس کی کرسی میں
اچانک برقی رو دوڑا دی گئی ہو! "کیا بک رہے ہو!۔۔ اس نے کانپتے ہوئے
سسکی سی لی۔ وہ سب صفدر کے گرد اکھٹے ہوگئے! اس وقت یہاں صرف سیکرٹ
سروس کے آدمی تھے۔ چونکہ چھٹی کا وقت ہوچکا تھا اس لئے دوڑ دھوپ کے کام
کرنے والے جاچکے تھے۔ "ہاں! یہ حادثہ مجھے زندگی بھر یاد رہے گا!" صفدر
بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ میں تین دن سےاس کے ساتھ ہی تھا! ہم دونوں
کیپٹن واجد والی تنظیم کے بقیہ افراد کی فکر میں تھے۔ تین دن سے ایک
آدمی پر نظر تھی! آج اس کا تعاقب کرتے ہوئے ندی کی طرف نکل گئے! مقبرے
کے پاس جو سرکنڈوں کی جھاڑیاں ہیں وہاں ہمیں گھیر لیا گیا! حملہ اچانک
ہوا تھا! پھر یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ ہمیں دھوکے میں رکھا گیا تھا!
ہم تو دراصل یہ سمجھتے رہے تھے کہ اس تنظیم کا ایک آدمی ہماری نظروں
میں آگیا ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ ہمیں نہایت اطمینان سے ختم کرنا
چاہتے تھے۔ کسی ایسی جگہ گھیرنا چاہتے تھے جہاں سے بچ کر ہم نکل ہی نہ
سکیں یعنی انہوں نے بھی وہ طریقہ اختیار کیا تھا جسے واجد کو پکڑنے کے
لئے عمران کام میں لایا تھا"۔ "پھر کیا ہوا۔۔ باتوں میں نہ الجھاؤ!"
جولیا مضطربانہ انداز میں چیخی۔ "ہم پر چاروں طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی
اور ہم کھلے میں تھے۔ اچانک میں نے عمران کی چیخ سنی۔ وہ ٹیکرے سے ندی
میں گر رہا تھا! میں نے اسے گرتے اور غرق ہوتے دیکھا۔ تم جانتے ہی ہو
کہ ندی کا وہ کنارہ کتنا گہرا ہے جس کنارے پر مقبرہ ہے۔۔!" "تم کیسے بچ
گئے؟" "بس موت نہیں آئی تھی!" صفدر نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "تب
تو پھر تم آفس ناحق آئے۔۔! تمہیں ادھر کا رخ ہی نہ کرنا چاہیئے تھا!
جاؤ جتنی جلدی ممکن ہو اپنی قیام گاہ پر پہچنے کی کوشش کرو"۔ جولیا میز
سے ٹکی کھڑی تھی۔ اس کا سر چکرارہا تھا! "نہیں میں یقین نہیں کرسکتی!۔۔
کبھی نہیں"۔ وہ کچھ دیر بعد ہذیانی انداز میں بولی۔ " عمران نہیں مر
سکتا! بکواس ہے۔ کبھی نہیں! تم جھوٹے ہو!" وہ خواہ مخواہ ہنس پڑی! اس
میں اس کے ارادے کو دخل نہیں تھا!۔۔ وہ سب اسے عجیب نظروں سے دیکھنے
لگے۔ ان میں تنویر بھی تھا۔ "مرنے کو تو ہم سب ہی اسی وقت مرسکتے ہیں!"
اس نے کہا۔ "ہم سب مرسکتے ہیں! مگر عمران نہیں مرسکتا! اپنی بکواس بند
کرو"۔ پھر جولیا نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کئے
لیکن دوسری طرف سے جواب نہ ملا! " تمہیں سرسوکھے کے ہاں جانا تھا"۔
خاور نے کہا۔ "جہنم میں گیا سرسوکھے"۔ جولیا حلق پھاڑ کر چیخی۔ " کیا
تم سب پاگل ہوگئے ہوگیا عمران کا مرجانا کوئی بات ہی نہیں ہے!" "اس کی
موت پر یقین آجانے کے بعد ہی ہم سوگ مناسکیں گے!" خاور نے پھیکی سی
مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ دفعتاً لیفٹننٹ چوہان نے صفدر سے سوال کیا! "تمہیں
وہ آدمی ملا کہاں تھا!۔۔ اور تمہیں یقین کیسے آیا تھا کہ وہ اسی تنظیم
سے تعلق رکھتا ہے"۔ "عمران نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا"۔ "آخر وہ تمہیں
ہی کیوں ایسے مہمات کے لئے منتخب کرتا ہے؟" "وہ کیوں کرنے لگا! مجھے
ایکسٹو کی طرف سےہدایت ملی تھی۔۔!" وہ سب پھر خاموش ہوگئے۔ جولیا میز
پر سر ٹیکے بیٹھی تھی! اور تنویر غصیلی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا! پھر
وہ اٹھی اوراپنا بیگ سنبھال کر دروازے کی طرف بڑھی۔ "تم کہاں جارہی ہو؟"
تنویر نے اسے ٹوکا۔ "شٹ اپ۔۔" وہ مڑ کر تیز لہجے میں بولی۔ "میں ایکسٹو
کے علاوہ اور کسی کو جواب دہ نہیں ہوں"۔ وہ باہر نکل کر اپنی چھوٹی سی
ٹوسیٹر میں بیٹھ گئی! لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کہاں جانا ہے۔۔!
صفدر کو وہ ایک دیانت دار اور سنجیدہ آدمی سمجھتی تھی۔ اس قسم کی جھوٹ
کی توقع اس کی ذات سے نہیں کی جاسکتی! اس نے سوچا ممکن ہے عمران نے اسے
بھی ڈاج دیا ہو!۔۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ بچتا ہی رہے۔ کچھ دیر
بعد ٹوسیٹر ایک پبلک فون بوتھ کے قریب رکی اور بوتھ میں آکر عمران کے
نمبر ڈائیل کئے! اور دوسری طرف سے سلیمان نے جواب دیا! لیکن اس نے
عمران کے متعلق لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پچھلے تین دنوں سے
گھر نہیں آیا۔ جولیا نے سلسلہ منقطع کرتے ہوئے ٹھنڈی سانس لی۔ کیسے
معلوم ہو کہ صفدر کا بیان کہاں تک درست ہے! آخر یہ کمبخت کیوں بچ گیا!
پھر ذرا ہی سی دیر میں اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے صفدر ہی عمران کا
قاتل ہو!۔۔ پھر اس نے غیر ارادی طور پر اپنی گاڑی ندی کی طرف جانے والی
سڑک پر موڑ دی۔۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔ مگر وہ دن رہے وہاں پہنچنا
چاہتی تھی اس لئے کار کی رفتار خاصی تیز تھی۔ گھاٹ کی ڈھلان شروع ہوتے
ہی اس نے بائیں جانب والے ایک کچے راستے پر گاڑی موڑ دی۔ اسی طرف سے وہ
اس ٹیکرے تک پہنچ سکتی تھی جہاں ایک قدیم مقبرہ تھا۔ اور دور تک
سرکنڈوں کا جنگل پھیلا ہواتھا۔ کچے راستے کی دونوں جانب جھنڈ بیریوں سے
ڈھکے ہوئے اونچے اونچے ٹیلے تھے۔ مقبرے تک گاڑی نہیں جاسکتی تھی کیونکہ
وہاں تک پہچنے کا راستہ ناہموار تھا! اس نے گاڑی روکی، انجن بند کیا
اور نیچے اتر کر خالی خالی آنکھوں سے افق میں دیکھتی رہی جہاں سورج
آسمان کو چھوتی ہوئی درختوں کی قطار کے پیچھے جھک چکا تھا! پھر وہ
چونکی اور مقبرے کی طرف چل پڑی۔ ابھی دھندلکا نہیں پھیلا تھا!۔۔ دریا
کی سطح پر ڈھلتی ہوئی روشنی کے رنگین لہرئے مچل رہے تھے۔۔ وہ ٹیکرے کے
سرے کی جانب بڑھتی چلی گئی! مگر کیا یہ حماقت ہی نہیں تھی!۔۔ اس نے
سوچا! آخر وہ یہاں کیوں آئی ہے؟ ٹیکرے کے نیچے پانی پر ایک موٹر بوٹ
نظر آئی جس میں کوئی نظر نہیں آرہا تھا! ہوسکتا ہے کچھ لوگ اس کے چھوٹے
سے کیبن میں رہے ہوں۔ اچانک موٹر بوٹ سے ایک فائر ہوا۔ پانی پر ایک جگہ
بلبلے اٹھے تھے اور گولی بھی ٹھیک اسی جگہ پڑی تھی۔ کیبن کی کھڑکی سے
رائفل کی نال پھر اندر چلی گئی اور اس کے بعد ایک آدمی سر نکال کر پانی
کی سطح پر دیکھنے لگاجہاں ایک بڑی سی مردہ مچھلی ابھر آئی تھی! پھر
کیبن کی دوسری کھڑکی سے ایک سیاہ رنگ کا بڑا سا کتا پانی میں کودا اور
تیرتا ہوا مچھلی تک جاپہنچا! اس کی دم منہ میں دبا کر وہ پھر موٹر بوٹ
کی طرف مڑا تھا۔ دوسری بار جب موٹر بوٹ میں بیٹھے ہوئے آدمی نے اپنے
دونوں ہاتھ کھڑکی سے نکال کر مچھلی کو سنبھالا۔ اس وقت جولیا نے اسے
صاف پہچان لیا! وہ سرسوکھے تھا! اس نے مچھلی اندر کھینچ لی اور کتا بھی
کھڑکی سے کیبن میں چلاگیا۔ تو وہ مچھلیوں کا شکار کھیل رہا تھا۔۔ جولیا
ٹیکرے سے پرے کھسک آئی۔ اس نے سوچا اچھا ہی ہوا سرسوکھے کی نظر اس پر
نہیں پڑی! ورنہ خواہ مخواہ تھوڑی دیر تک رسمی قسم کی گفتگو کرنی پڑتی!
مگر اب وہ یہاں کیوں ٹھہرے! آئی ہی کیوں تھی؟ یہاں کیا ملتا!۔۔ اگر
عمران مارا بھی گیا تو۔۔! وہ۔۔ وہ یک بیک چونک پڑی!اگر وہ یہاں مارا
گیا ہوگا تو ایک آدھ بار لاش سطح پر ضرور ابھری ہوگی! مگر اسے کیا؟
ضروری نہیں ہے کہ کسی نے اسے دیکھا بھی ہو!۔۔ پھر وہ کیا کرے۔۔ کیا کرے۔۔!
غیر ارادی طور پر وہ سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں گھس پڑی! یہ ایک پتلی سی
پگڈنڈی تھی جو سرکنڈوں کی جھاڑیوں سے گذر کر کسی نامعلوم مقام تک جاتی
تھی۔ کچھ دور پر اسے ریوالور کے چند خالی کارتوس پڑے ملے اور صفدر کے
بیان کی تصدیق ہوگئی! ویسے وہ تو اس پر یوں بھی اعتماد کرتی تھی۔ مگر
سوال یہ تھا کہ اب جولیا کیا کرے۔۔ یہ بات تو خود صفدر کو بھی نہیں
معلوم تھی کہ عمران نے اس آدمی کو کہاں سے کھود نکالا تھا جس کے تعاقب
میں وہ دونوں یہاں تک آئے تھے اور یہ حادثہ پیش آیا تھا! اچانک کوئی
چیز اس کی پشت سے ٹکرائی اور وہ اچھل پڑی۔ بس غنیمت یہی تھااس کے حلق
سے کسی قسم کی آواز نہیں نکلی تھی ورنہ وہ چیخ ہی ہوتی۔ اس نے جھک کر
اس کاغذ کو اٹھایا جو شاید کسی وزنی چیز پر لپیٹ کر پھیکا گیا تھا۔
کاغذ کی تہوں کے درمیان ایک چھوٹی سی کنکری تھی۔ کاغذ پر تحریر تھا: "جولیا۔
دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔ کھیل مت بگاڑو!" ایک بےساختہ قسم کی مسکراہٹ اس کے
ہونٹوں پر پھیل گئی! دل پر سے بوجھ سا ہٹ گیا!۔۔ اور وہ تیزی سے واپسی
کے لئے مڑ گئی! طرز تحریر عمران ہی کا سا تھا! |
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|