اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

جڑوں کی تلاش

باب دوم  

تحریر۔۔۔------------- ابن صفی

جوزف رانا پیلس ہی کا ہو کر رہ گیا تھا! آتشدان کا بت والے کیس کے بعد اس نے فلیٹ کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ عمران کی تاکید تھی کہ وہ ادھر کا رخ بھی نہ کرے۔۔! اس طرح سلیمان یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکا تھا کہ وہ بدستور عمران ہی کی خدمت کرتا رہے گا۔ رانا پیلس میں سب ہی تھے۔ نوکر چاکر، ڈرائیور، جوزف۔ حتیٰ کہ بلیک زیروبھی (بوڑھے آدمی کے میک اپ میں)۔ لیکن رانا تہور علی صندوقی کا کہیں پتہ نہ تھا۔۔! بلیک زیرو بوڑھے طاہر صاحب کے روپ میں رانا تہور علی صندوقی کا منیجر تھا، سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس کی جائیداد کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ جوزف ہر وقت فوجی وردی میں رہتا تھا اور اس کے دونوں پہلوؤں سے ریوالور لٹکے رہتے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ فوجی وردی میں اس کی مارشل اسپرٹ ہر وقت بیدار رہتی ہے اور شراب نہ ہونے پر اسپرٹ ہی میں پانی ملا کر پینے سے بھی نہیں مرتی۔۔! جوزف بلانوش تھا! لیکن اسے معینہ مقدار سے زیادہ شراب نہیں ملتی تھی اس لئے وہ اکثر اسپرٹ میں پانی ملا کر پیا کرتا تھا۔۔! اس وقت وہ اسپرٹ کے نشے کی جھونک میں پورچ میں "اٹینشن" تھا!۔بالکل کسی بت کی طرح بےحس وحرکت۔ پلکیں ضرور جھپکتی رہتی تھیں۔ مگر بالکل ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسے کسی الّو کو پکڑ کر دھوپ میں بٹھا دیا گیا ہو۔۔! اور وہ خاموشی سے مجسم احتجاج بن کر تن بہ تقدیر ہوگیا ہو۔۔! دفعتاً ایک آدمی پشت پر ایک بہت بڑا تھیلا لادے ہوئے پھاٹک میں داخل ہوا لیکن جوزف کی پوزیشن میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ وہ تو اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا!۔۔ مگر جیسے ہی وہ پورچ کے قریب آیا۔ اچانک جوزف دہاڑا۔ "ہالٹ۔۔!" اور وہ آدمی بھڑک کر دوچار قدم کے فاصلے پر تھیلے سمیت ڈھیر ہوگیا! "گٹ اپ۔۔!" جوزف اپنی جگہ سے ہلے بغیر پھر دہاڑا۔۔ "ارے مار ڈالا۔۔!" وہ مفلوک الحال آدمی دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر کراہا! "کی در جاتا!"۔۔ جوزف غرایا۔ "بھیر جاتا۔۔ رانا صاحب کے پاس۔۔ ایسی ایسی جڑی بوٹیاں ہیں میرے پاس!۔۔" "کیا باکتا۔۔!" جوزف پھر غرایا! "آؤں۔۔ آجاؤں۔۔ پاس آجاؤں!" وہ آدمی خوف زدہ انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر پوچھتا رہا۔ اب جوزف خود ہی اپنی جگہ سے ہلا اور وہ آدمی تھیلا سمیٹتا ہوا پیچھے پھدک گیا! یہ دبلا تپلا اور چیچڑ چسم والا ایک بوڑھا آدمی تھا۔ آنکپیں اندر کو دھنسی ہوئی اور دھندلی تھیں!۔۔ لیکن ہاتھ پاؤں میں خاصی تیزی معلوم ہوتی تھی۔ "کیا باکتا۔۔!" جوزف اس کے سر پر پہنچ کر دہاڑا۔ "شش شش۔۔ شقاقل۔۔ مصری!" وہ تھیلےسے کوئی چیز نکال کر اسے دکھاتا ہوا پیچھے کھسکا! "یو کیا ہائے۔۔!" جوزف غرایا۔ "اجی بس۔۔ کیا بتاؤں۔۔" وہ بہت تیزی سے بول رہا تھا! رر ۔۔ رانا صاحب قدر کریں گے"۔ "رانا صاحب نائیں ہائے۔۔ بھاگ جیاؤ۔۔! "تو آپ ہی لڑائی کیجیئے صاحب۔۔ مزہ آجائے گا۔۔ جڑی بوٹیاں۔۔ ہا ہا۔۔ رانا صاحب کہاں ہیں!" "ام نائیں۔۔ جیان تا۔۔ جیاؤ۔۔!" اتنے میں بلیک زیرو شور سن کر باہر آگیا۔ "کیا بات ہے۔۔" اس نے جوزف سے انگریزی میں پوچھا! "باس کو پوچھتا ہے! میں کہتا ہوں باس نہیں ہیں! وہ مجھے کوئی چیز دکھاتا ہے"۔ بلیک زیرو نے بوڑھے کی طرف دیکھا! وہ جھک جھک کر اسے سلام کر رہا تھا۔ "حضور۔۔ حضور۔۔ حضور عالی۔۔ سرکار۔ جڑی بوٹیاں ہیں میرےپاس۔ بڑی دور سے رانا صاحب کا سن کر آیا ہوں"۔ بلیک زیرو نے جلدی میں کچھ سوچا اور آہستہ سے بولا۔ "ہاں کہو ہم سن رہے ہیں"۔ "جو کچھ کہیئے۔ حاضر کروں سرکار۔۔!" "ہم کیا کہیں! ہم نے تمہیں کب بلایا تھا؟" "سرکار حضور۔۔ رانا صاحب بڑے معرکے کی بوٹیاں ہیں۔ بس طبعیت خوش ہوجائے گی!" "کیا ہمارے کسی دوست نے تمہیں بھیجا ہے؟" "جی حضور۔۔ ہم نے اس سرکار کی بڑی تعریف سنی ہے!" "خیر اندر چل کر۔۔ ہمیں کچھ بوٹیاں دکھاؤ! اور ان کے خواص بتاؤ"۔ بوڑھا خوش نظر آنے لگا تھا اس نے تھیلا سمیٹ کر کاندھے پر رکھا اور بلیک زیرو کے پیچھے چلنے لگا۔ جوزف کھڑا احمقانہ انداز میں پلکیں جھپکاتا رہا!۔۔ پھر یک بیک وہ چونک کر اس بوڑھے آدمی کے پیچھے جھپٹا! بلیک زیرو اور بوڑھا آدمی اندرداخل ہوچکے تھے! بلیک زیرو اسے ایک کمرے میں بٹھانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اس نے جوزف کو اس پر جھپٹے دیکھا!۔۔ "ارے۔۔ ارے حضور"۔ بوڑھا بوکھلا گیا۔ بلیک زیرو بھی بھونچکا رہ گیا!۔۔ لیکن بوڑھا دوسرے ہی لمحے میں زمین پر تھا! اور جوزف نے اس کی میلی اور سال خوردہ پتلون کی جیب سے ایک چھوٹا سال پستول نکال لیا تھا۔۔! بوڑھا اس اچانک حملے سے بری طرح بوکھلا گیا تھا۔ اس لئے جوزف کی گرفت سے آزاد ہونے کے بعد بھی اسی طرح بےحس وحرکت پڑا رہا البتہ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ پلکیں بھی چھپکا رہا تھا۔ "کیوں! تم کون ہو!۔۔" بلیک زیرو نے آنکھیں نکال کر بولا۔ "مم۔۔ میں نہیں جانتا صاحب!۔۔ کہ یہ خطرناک ۔۔ چیز میری جیب میں کس نے ڈالی تھی"۔ وہ ہانپتا ہوا بولا۔ "بکواس مت کرو"۔ بلیک زیرو غرایا! تم کون ہو؟" "جی میں جڑی بوٹیاں تلاش کرکے بیچتا ہوں۔۔ شوقین رئیس میری قدر کرتے ہیں"۔ "مگر تم پہلے تو کبھی یہاں نہیں آئے۔۔!" بلیک زیرو اسے گھورتا ہوا بولا۔ "جی بےشک میں پہلے کبھی نہیں آیا"۔ "کیوں نہیں آئے تھے؟" بلیک زیرو نے غصیلے لہجے میں کہا! اس کے ذہن میں اس وقت عمران رینگنے لگا تھا اور اس نے یہ سوال بالکل اسی کے سے انداز میں کیا تھا۔ "جج۔۔ جی۔۔ ای۔۔ کیا بتاؤں مجھے اس سرکار کا پتہ نہیں معلوم تھا! وہ تو ابھی ابھی ایک صاحب نے سڑک ہی پر بتایا تھا کہ اس محل میں جاؤ۔ یہاں رانا صاحب رہتے ہیں! بہت بڑی سرکار ہے!۔۔" "اس پستول کی بات کرو۔۔!" "صص۔۔ صاحب! میں نہیں جانتا! بھلا میرے پاس پستول کا کیا کام! پتہ نہیں کس نے کیوں یہ حرکت کی ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا!۔۔ خدا کے لئے ان کالے صاحب کو یہاں سے ہٹا دیجیئے ورنہ میرا دم نکل جائے گا"۔ جوزف اسے خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بڑبڑا رہا تھا۔ "مسٹرٹائر۔ یہ کیا کہہ رہا ہے! مجھے بھی بتائیے"۔ "اس کو گردن سے پکڑ کر ٹانگ لو"۔ بلیک زیرو نے کہا۔ جوزف پستول کو بائیں ہاتھ میں سنبھال کر اس کی طرف بڑھا! لیکن اچانک ایسا معلوم ہواجیسے آنکھوں کے سامنے بجلی سی چمک گئی ہو! بوڑھا چکنے فرش پر پھسلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ "خبردار فائر نہ کرنا جوزف۔۔" بلیک زیرو چیخا۔ جوزف نے بوڑھے پر چھلانگ لگائی تھی اور اب فرش سے اٹھ رھا تھا کیونکہ بوڑھا تو چھلاوہ تھا چھلاوہ۔ جب تک جوزف اٹھتاوہ بیرونی برآمدے میں تھا۔ "فائر مت کرنا۔ بلیک زیرو پھر چیخا! ساتھ ہی اب وہ بھی تیزی دکھانے پر آمادہ ہوگیا تھا جوزف کو پھلانگتا ہوا وہ بھی بیرونی برآمدے میں آیا۔ یہاں دو ملازم کھڑے چیخ رہے تھے۔ "۔۔ صاحب وہ چھت پر ہے"۔ دونوں نے بیک وقت کہا۔ بلیک زیرو چکرا گیا! بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اتنی جلدی چھت پر بھی پہنچ جاتا!۔۔ نوکروں نے قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ انہوں نے اسے بندروں کی سی پھرتی سے اوپر جاتے دیکھا ہے۔ انہوں نے گندے پانی کے ایک موٹے پائپ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جس سے ملی ہوئی پورچ کی کارنس تھی اور پورچ کی چھت بہت زیادہ اونچی نہیں تھی کوئی بھی پھرتیلا آدمی کم از کم پورچ کی چھت تک تو اتنے وقت میں پہنچ ہی سکتا تھا۔ پھر ذرا ہی سی دیر میں پوری عمارت چھان ماری گئی لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں تھا!۔۔ اندر پہنچ کر بلیک زیرو نے محسوس کیا کہ اس چھلاوے نے اپنا تھیلا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ "ٹائر صاب"۔ جوزف نے غصیلی آواز میں کہا۔ "مجھے فائر کرنے سے کیوں منع کیا تھا؟" "باس کا حکم ہے کہ اس محل میں کبھی گولی نہ چلائی جائے"۔ "چاہے کوئی یہاں آکر جوزف دی فائٹر کے منہ پر تھوک دے"۔ "خاموش رہو! باس کے حکم میں بحث کی گنجائش نہیں ہوا کرتی"۔ جوزف فوجیوں کے سے انداز میں اسے سلیوٹ کرکے اپنے کمرے کی طرف مڑ گیا۔ اس کا موڈ خراب ہوگیا تھا اس لئے وہ شراب کی بوتل پر ٹوٹ پڑا۔۔

جاری ہے

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team