اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010

خوفناک عمارت

باب پنجم

تحریر۔۔۔------------ ابن صفی

ایک بج گیا تھا۔۔۔ فیاض عمران کو اس کی کوٹھی کے قریب اتار کر چلا گیا پائیں باغ کا دروازہ بند ہو کچا تھا۔ عمران پھاٹک ہلانے لگا۔۔۔ اونگھتے ہوئے چوکیدار نے ہانک لگائی۔
“پیارے چوکیدار۔۔۔ میں ہوں تمہارا خادم علی عمران ایم۔ ایس۔ سی، پی۔ ایچ۔ ڈی لندن۔“
“کون چھوٹے سرکار۔“ چوکیدار پھاٹک کے قریب آکر بولا۔ “حضور مشکل ہے۔“
“دنیا کا ہر بڑا آدمی کہہ گیا ہے کہ وہ مشکل ہی نہیں جو آسان ہو جائے۔“
“بڑے سرکار کا حکم ہے کہ پھاٹک نہ کھولا جائے۔۔۔ اب بتائیے۔“
“بڑے سرکار تک کنفیوشس کا پیغام پہنچا دو۔“
“جی سرکار!“ چوکیدار بوکھلا کر بولا۔
“ان سے کہہ دو کنفیوشس نے کہا ہے کہ تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے لئے اپنے دروازے کھول دو۔“
“مگر بڑے سرکار نے کہا ہے۔۔۔“
“ہا۔۔۔ بڑے سرکار۔۔۔ انہیں چین میں پیدا ہونا تھا۔ خیر تم ان تک کنفیوشس کا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا۔“
“میں کیا بتاؤں۔“ چوکیدار کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔“ اب آپ کہاں جائیں گے۔“
“فقیر یہ سہانی رات کسی قبرستان میں بسر کرے گا۔“
“میں آپ کے لئے کیا کروں۔“
“دعائے مغفرت۔۔۔ اچھا ٹاٹا!“ عمران چل پڑا۔
اور پھر آدھے گھنٹے بعد وہ ٹپ ٹاپ کلب میں داخل ہو رہا تھا لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہی محکمہ سراغرسانی کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے مڈبھیڑ ہوگئی جو اس کے باپ کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا۔
“اوہو۔ صاحبزادے تو تم اب ادھر بھی دکھائی دینے لگے ہو؟“
“جی ہاں۔ اکثر فلیش کھیلنے کے لئے چلا آتا ہوں۔“ عمران نے سر جھکا کر بڑی سعادت مندی سے کہا۔
“فلیش! توکیا اب فلیش بھی۔۔۔؟“
“جی ہاں! کبھی کبھی نشے میں دل چاہتا ہے۔“
“اوہ۔۔۔ تو شراب بھی پینے لگے ہو۔“
“وہ کیا عرض کروں۔۔۔ قسم لے لیجئے جو کبھی تنہا پی ہو۔ اکثر شرابی طوائفیں بھی مل جاتی جو پلائے بغیر مانتی ہی نہیں۔۔۔!“
“لاحول ولا قوۃ۔۔۔ تو تم آج کل رحمٰن صاحب کا نام اچھال رہے ہو۔“
“اب آپ ہی فرمائیے!“ عمران مایوسی سے بولا۔ “جب کوئی شریف لڑکی نہ ملے تو کیا کیا جائے۔۔۔ ویسے قسم لے لیجئے۔ جب کوئی مل جاتی ہے تو میں طوائفوں پر لعنت بھیج کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔“
“شائد رحمٰن صاحب کو اس کی اطلاع نہیں۔۔۔ خیر۔۔۔“
“اگر ان سے ملاقات ہو تو کنفیوشس کا یہ قول دہرا دیجئے کہ جب کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتوں سے ساز باز کر لیتا ہے۔“
ڈپٹی ڈائریکٹر اسے گھورتا ہوا باہر چلا گیا۔
عمران نے سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر ہال کا جائزہ لیا۔۔۔ اس کی نظریں ایک میز پر رک گئیں۔ جہاں ایک خوبصورت عورت اپنے سامنے پورٹ کی بوتل رکھے بیٹھی سیگرٹ پی رہی تھی۔ گلاس آدھے سے زیادہ خالی تھا۔
عمران اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔
“کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں لیڈی جہانگیر!“ وہ قدرے جھک کر بولا۔
“اوہ تم۔“ لیڈی جہانگیر اپنی داہنی بھوں اٹھا کر بولی۔ “نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔“
“کوئی بات نہیں!“ عمران معصومیت سے مسکرا کر بولا۔“ کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔“
“مجھے کنفیوشس سے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔“ وہ جھنجھلا کر بولی۔
“تو ڈی۔ ایچ۔ لارنس کا ہی ایک جملہ سن لیجئے۔“
“میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔۔۔ تم یہاں سے ہٹ جاؤ۔“ لیڈی جہانگیر گلاس اٹھاتی ہوئی بولی۔
“اوہ اس کا خیال کیجئے کہ آپ میری منگیتر بھی رہ چکی ہیں۔۔۔“
“شٹ اپ۔“
“آپ کی مرضی! میں تو صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ آج صبح ہی سے موسم بہت خوشگوار ہے۔“
وہ مسکرا پڑی۔
“بیٹھ جاؤ!“ اس نے کہا اور ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر گئی۔
وہ تھوڑی دیر اپنی نشیلی آنکھیں عمران کے چہرے پر جمائے رہی اور پھر سیگرٹ کا ایک طویل کش لے کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی۔
“میں اب بھی تمہاری ہوں۔“
“مگر۔۔۔ سر جہانگیر!“ عمران مایوسی سے بولا۔
“دفن کرو اسے۔ “
“ہائیں۔۔۔ تو کیا مر گئے!“ عمران گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
لیڈی جہانگیر ہنس پڑی۔
“تمہاری حماقتیں بڑی پیاری ہوتی ہیں۔“ وہ اپنی بائیں آنکھ دبا کر بولی اور عمران نے شرما کر سر جھکا لیا۔
“کیا پیو گے!“ لیڈی جہانگیر نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
“دہی کی لسی۔“
“دہی کی لسی۔۔۔ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ شائد تم نشے میں ہو۔“
“ٹھہریئے!“ عمران بوکھلا کر بولا۔“ میں ایک بجے کے بعد صرف کافی پیتا ہوں۔۔۔ چھ بجے شام سے بارہ بجے رات تک رم پیتا ہوں۔“
“رم!“ لیڈی جہانگیر منہ سکوڑ کر بولی۔“ تم اپنے ٹیسٹ کے آدمی نہیں معلوم ہوتے۔ رم صرف گنوار پیتے ہیں۔“
“نشے میں یہ بھول جاتا ہوں کہ گنوار نہیں ہوں۔“
“تم آج کل کیا کر رہے ہو۔“
“صبر!“۔ عمران نے طویل سانس لے کر کہا۔
“تم زندگی کے کسی حصے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔“ لیڈی جہانگیر مسکرا کر بولی۔
“اوہ آپ بھی یہی سمجھتی ہیں۔“ عمران کی آواز حد درجہ دردناک ہو گئی۔
“آخر مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ تم نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔“ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
“میں نے کب انکار کیا تھا۔ عمران رونی صورت بنا کر بولا۔ میں نے تو آپ کے والد صاحب کو صرف دو تین شعر سنائے تھے۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ انہیں شعر و شاعری سے دلچسپی نہیں۔ ورنہ میں نثر میں گفتگو کرتا۔“
“والد صاحب کی رائے ہے کہ تم پرلے سرے کے احمق اور بدتمیز ہو۔“ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
“اور چونکہ سر جہانگیر ان کے ہم عمر ہیں۔۔۔ لہٰذا۔۔۔“
“شٹ اپ۔“ لیڈی جہانگیر بھنا کر بولی۔
“بہرحال یونہی تڑپ تڑپ کر مر جاؤں گا۔“ عمران کی آواز پھر دردناک ہو گئی۔
لیڈی جہانگیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
“کیا واقعی تمہیں افسوس ہے۔“ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
“یہ تم پوچھ رہی ہو؟۔۔۔ اور وہ بھی اس طرح جیسے تمہیں میرے بیان پر شبہ ہو۔“ عمران کی آنکھوں سے نہ صرف آنسو چھلک آئے بلکہ بہنے بھی لگے۔
“ارر۔۔۔ نو مائی ڈیئر۔۔۔ عمران ڈارلنگ کیا کر رہے ہو تم!“ لیڈی جہانگیر نے اس کی طرف اپنا رومال بڑھایا۔
“میں اس غم میں مر جاؤں گا!“ وہ آنسو خشک کرتا ہوا بولا۔
“نہیں۔ تمہیں شادی کر لینی چاہئے۔“ لیڈی جہانگیر نے کہا۔“ اور میں۔۔۔ میں تو ہمیشہ تمہاری ہی رہوں گی۔“ وہ دوسرا گلاس لبریز کر رہی تھی۔
“سب یہی کہتے ہیں۔۔۔ کئی جگہ سے رشتے بھی آچکے ہیں۔۔۔ کئی دن ہوئے جسٹس فاروق کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا۔۔۔ گھر والوں نے انکار کر دیا۔ لیکن مجھے وہ رشتہ کچھ کچھ پسند ہے!“
“پسند ہے؟“ لیڈی جہانگیر حیرت سے بولی۔“ تم نے ان کی لڑکی کو دیکھا ہے۔“
“ہاں۔۔۔ وہی نا۔ جو ریٹا ہیورتھ اسٹائل کے بال بناتی ہے اور عموما تاریک چشمہ لگائے رہتی ہے۔“
“جانتے ہو وہ تاریک چشمہ کیوں لگاتی ہے!“ لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
“نہیں۔ ۔۔۔ لیکن اچھی لگتی ہے۔“
لیڈی جہانگیر نے قہقہہ لگایا۔
“وہ اس لئے تاریک چشمہ لگاتی ہے کہ اس کی ایک آنکھ غائب ہے۔“
“ہائیں۔۔۔“ عمران اچھل پڑا۔
“اور غالباً اسی بناء پر تمھارے گھر والوں نے یہ رشتہ منظور نہیں کیا۔“
“تم اسے جانتی ہو!“عمران نے پوچھا۔
“اچھی طرح سے۔ اور آج کل میں اسے بہت خوبصورت آدمی کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ غالبا وہ بھی تمہاری ہی طرح احمق ہی ہوگا۔“
“کون ہے وہ میں اس کی گردن توڑ دوں گا۔“ عمران بپھر کر بولا۔ پھر اچانک چونک کر خود ہی بڑبڑانے لگا۔ “لاحول ولا قوۃ۔۔۔ بھلا مجھ سے کیا مطلب۔“
“بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ انتہائی خوبصورت نوجوان ایک کانی لڑکی سے کورٹ کر لے۔“
“واقعی وہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہوگا۔“ عمران نے کہا۔“ کیا میں اسے جانتا ہوں؟“
“پتہ نہیں۔ کم از کم میں تو نہیں جانتی۔ اور جسے میں نہ جانتی ہوں وہ اس شہر کے کسی اعلٰی خاندان کا فرد نہیں ہو سکتا۔“
“کب سے دیکھ رہی ہو اسے۔“
“یہی کوئی پندرہ بیس دن سے۔“
“کیا وہ یہاں بھی آتے ہیں؟“
“نہیں۔۔۔ میں نے انہیں کیفے کامینو میں اکثر دیکھا ہے۔“
“مرزا غالب نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
نالہ سرمایہ یک عالم و عالم کف خاک
آسمان بیضہ قمری نظر آتا ہے مجھے“
“مطلب کیاہوا۔“ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
“پتہ نہیں!“ عمران نے بڑی معصومیت سے کہا اور پر خیال انداز میں میز پر طبلہ بجانے لگا۔
“صبح تک بارش ضرور ہوگی۔“ لیڈی جہانگیر انگڑائی لے کر بولی۔
“سر جہانگیر آج کل نظر نہیں آتے۔“ عمران نے کہا۔
“ایک ماہ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں۔ “
“گڈ۔“ عمران مسکرا کر بولا۔
“کیوں۔“ لیڈی جہانگیر اسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگی۔
“کچھ نہیں۔ کنفیوشس نے کہا ہے۔۔۔“
“مت بور کرو۔“ لیڈی جہانگیر چڑ کر بولی۔
“ویسے ہی۔۔۔ بائی دی وے۔۔۔ کیا تمہارا رات بھر کا پروگرام ہے۔“
“نہیں ایسا تو نہیں۔۔۔ کیوں؟“
“میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر رونا چاہتا ہوں۔“
“تم بالکل گدھے ہو بلکہ گدھے سے بھی بدتر۔“
“میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کیا تم مجھے اپنی چھت کے نیچے رونے کا موقع دوگی۔ کفیوشس نے کہا ہے۔۔۔“
“عمران۔۔۔ پلیز۔۔۔ شٹ اپ۔“
“لیڈی جہانگیر میں ایک لنڈورے مرغ کی طرح اداس ہوں۔“
“چلو اٹھو۔ لیکن اپنے کنفیوشس کو یہیں چھوڑ چلو۔ بوریت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔“
تقریبا آدھ گھنٹے بعد عمران لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں کھڑا اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ لیڈی جہانگیر کے جسم پر صرف شب خوابی کا لبادہ تھا۔ وہ انگڑائی لے کر مسکرانے لگی۔
“کیا سوچ رہے ہو۔“ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
“میں سوچ رہا تھا کہ آخر کسی مثلث کے تینوں زاویوں کا مجمودہ دو زاویہ قائمہ کے برابر ہی کیوں ہوتا ہے۔“
“پھر بکواس شروع کر دی تم نے۔“ لیڈی جہانگیر کی نشیلی آنکھوں میں جھلاہٹ جھانکنے لگی۔
“مائی ڈیئر لیڈی جہانگیر! اگر میں یہ ثابت کردوں کہ زاویہ قائمہ کوئی چیز ہی نہیں ہے تو دنیا کا بہت بڑا آدمی ہوسکتا ہوں۔“
“جہنم میں جا سکتے ہو۔“ لیڈی جہانگیر برا سا منہ بنا کر بڑبڑائی۔
“جہنم! تو کیا تمہیں جہنم پر یقین ہے۔“
“عمران میں تمہیں دھکے دے کر نکال دوں گی۔“
“لیڈی جہانگیر! مجھے نیند آرہی ہے۔“
“سر جہانگیر کی خواب گاہ میں ان کا سلیپنگ سوٹ ہوگا۔۔۔ پہن لو۔“
“شکریہ۔۔۔ خواب گاہ کدھر ہے؟“
“سامنے والا کمرہ۔“ لیڈی جہانگیر نے کہا اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔
عمران نے سر جہانگیر کی خواب گاہ میں گھس کر دروازہ اندر سے بند کر لیا لیڈی جہانگیر ٹہلتی رہی! دس منٹ گزر گئے! آخر وہ جھنجھلا کر سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آئی۔ دھکا دیا لیکن اندر سے چٹخنی چڑھا دی گئی تھی۔
“کیا کرنے لگے عمران؟“ اس نے دروازہ تھپتھپانا شروع کر دیا لیکن جواب ندارد۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے عمران خراٹے بھر رہا ہو اس نے دروازے سے کان لگا دیئے۔ حقیقتا وہ خراٹوں ہی کی آواز تھی۔
پھر دوسرے لمحے وہ ایک کرسی پر کھڑی ہو کر دروازے کے اوپری شیشہ سے کمرے کے اندر جھانک رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ عمران کپڑوں سمیت سر جہانگیر کے پلنگ پر پڑا خراٹے لے رہا ہے اور اس نے بجلی بھی نہیں بجھائی تھی۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دائرہ کی شکل میں سکوڑےعمران کو کسی بھوکی بلی کی طرح گھور رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ مار کر دروازے کا ایک شیشہ توڑ دیا۔۔۔ نوکر شائد شاگرد پیشے میں سوئے ہوئے تھے۔ ورنہ شیشے کے چھناکے ان میں سے ایک آدھ کو ضرور جگا دیتے ویسے یہ اور بات ہے کہ عمران کی نیند پر ان کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پڑا ہو۔
لیڈی جہانگیر نے اندر ہاتھ ڈال کر چٹخنی گرا دی۔ نشے میں تو تھی ہی۔ جسم کا پورا زور دروازے پر دے رکھا تھا۔ چٹخنی گرتے ہی دونوں پٹ کھل گئے اور وہ کرسی سمیت خواب گاہ میں جا گری۔
عمران نے غنودہ آواز میں کراہ کر کروٹ بدلی اور بڑبڑانے لگا۔۔۔ “ہاں ہاں سنتھیلک گیس کی بو کچھ میٹھی میٹھی سی ہوتی ہے۔۔۔؟“
پتہ نہیں وہ جاگ رہا تھا یا خواب میں بڑبڑایا تھا۔
لیڈی جہانگیر فرش پر بیٹھی اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر بسور رہی تھی۔ دو تین منٹ بعد وہ اٹھی اور عمران پر ٹوٹ پڑی۔
“سور کمینے۔۔۔ یہ تمہاری باپ کا گھر ہے؟۔۔۔ اٹھو۔۔۔ نکلو یہاں سے۔“ وہ اسے بری طرح جھنجھوڑ رہی تھی۔ عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔
“ہائیں! کیا سب بھاگ گئے۔۔۔“
“دور ہو جاؤ یہاں سے۔“ لیڈی جہانگیر نے اس کا کالر پکڑ کر جھٹکا مارا۔
“ہاں۔ ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔“ عمران اپنا گریبان چھڑا کر پھر لیٹ گیا۔
اس بار لیڈی جہانگیر نے اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا۔
“ہائیں۔۔۔ کیا ابھی نہیں گیا؟“ عمران جھلا کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے ہی قد آدم آئینہ رکھا ہوا تھا۔
“اوہ تو آپ ہیں۔“ وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بولا۔۔۔ پھر اس طرح مکا بنا کر اٹھا جیسے اس پر حملے کرے گا۔۔۔ اس طرح آہستہ آہستہ آئینے کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہو۔ پھر اچانک سامنے سے ہٹ کر ایک کنارے پر چلنے لگا۔ آئینے کے سامنے پہنچ کر دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ لیڈی جہانگیر کی طرف دیکھ اس طرح ہونٹوں پر انگلی رکھی جیسے وہ آئینے کے قریب نہیں بلکہ کسی دروازہ سے لگا کھڑا ہو اور اس بات کا منتظر ہو کہ جیسے ہی دشمن دروازے میں قدم رکھے گا وہ اس پر حملہ کربیٹھے گا۔ لیڈی جہانگیر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حرکت دیکھ رہی تھی۔۔۔ لیکن قبل اس کے وہ کچھ کہتی، عمران نے پینترہ بدل کر آئینہ پر ایک گھونسہ رسید ہی کر دیا۔۔۔ ہاتھ میں جو چوٹ لگی تو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ یک بیک ہوش میں آگیا ہو۔
“لاحول ولا قوۃ۔“ وہ آنکھیں مل کر بولا اور کھیسانی ہنسی ہنسنے لگا۔
اور پھر لیڈی جہانگیر کو بھی ہنسی آگئی۔۔۔ لیکن وہ جلد ہی سنجیدہ ہوگئی۔
“تم یہاں کیوں آئے تھے؟“
“اوہ۔ میں شائد بھول گیا۔۔۔ شائد اداس تھا۔۔۔ لیڈی جہانگیر تم بہت اچھی ہو۔ میں رونا چاہتا ہوں۔“
“اپنے باپ کی قبر پر رونا۔۔۔ نکل جاؤ یہاں سے۔“
“لیڈی جہانگیر۔۔۔ کنفیوشس۔۔۔!“
“شٹ اپ۔“ لیڈی جہانگیر اتنے زور سے چیخی کہ اس کی آواز بھرا گئی۔
“بہت بہتر۔“ عمران سعادت مندانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔ گویا لیڈی جہانگیر نے بہت سنجیدگی اور نرمی سے اسے کوئی نصیحت کی ہو۔
“یہاں سے چلے جاؤ۔“
“بہت اچھا۔“ عمران نے کہا اور اس کمرے سے لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں چلا آیا۔
وہ اس کی مسہری پر بیٹھنے ہی جا رہا تھا کہ لیڈی جہانگیر طوفان کی طرح اس کے سر پر پہنچ گئی۔
“اب مجبوراً مجھے نوکروں کو جگانا پڑے گا؟“ اس نے کہا۔
“اوہو تم کہاں تکلیف کروگی۔ میں جگائے دیتا ہوں۔ کوئی خاص کام ہے کیا؟“
“عمران میں تمہیں مار ڈالوں گی؟“ لیڈی جہانگیر دانت پیس کر بولی۔
“مگر کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا۔۔۔ ورنہ پولیس۔۔۔ خیر میں مرنے کے لئے تیار ہوں؟ اگر چھری تیز نہ ہو تو تیز کردوں۔ ریوالور سے مارنے کا ارادہ ہے تو میں اس کی رائے نہ دوں گا! سناٹے میں آواز دور تک پھیلتی ہے۔ البتہ زہر ٹھیک رہے گا۔“
“عمران خدا کے لئے!“ لیڈی جہانگیر بے بسی سے بولی۔
“خدا کیا میں اس کے ادنٰے غلاموں کے لئےبھی اپنی جان قربان کر سکتا ہوں۔۔۔ جو مزاج یار میں آئے۔“
“تم چاہتے کیا ہو!“ لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
“دو چیزوں میں سے ایک۔۔۔“
“کیا؟“
“موت یا صرف دو گھنٹے کی نیند۔“
“کیا تم گدھے ہو؟“
“مجھے سے پوچھتیں تو پہلے ہی بتا دیتا کہ بالکل گدھا ہوں۔“
“جہنم میں جاؤ۔“ لیڈی جہانگیر اور نہ جانے کیا بکتی ہوئی سر جہانگیر کی خواب گاہ میں چلی گئی۔ عمران نے اٹھ کر اندر سے دروازہ بند کیا جوتے اتارے اور کپڑوں سمیت بستر میں گھس گیا۔
 

جاری ہے

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team