|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010
|
خوفناک عمارت
باب
ششم |
تحریر۔۔۔------------
ابن صفی |
یہ سوچنا قطعی
غلط ہوگا کہ عمران کے قدم یونہی بلا مقصد ٹپ ٹاپ کلب کی طرف اٹھ گئے
تھے۔ اسے پہلے ہی سے اطلاع تھی کہ سر جہانگیر آج کل شہر میں مقیم نہیں
ہے اوروہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایسے مواقع پر لیڈی جہانگیر اپنی راتیں
کہاں گزارتی ہے۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ لیڈی جہانگیر کسی زمانے میں اس کی
منگیتر رہ چکی تھی اور خود عمران کی حماقتوں کے نتیجے میں یہ شادی نہ
ہوسکی۔
سر جہانگیر کی عمر تقریباً ساٹھ سال ضرور رہی ہوگی لیکن قوٰی کی مضبوطی
کی بناء پر بہت زیادہ بوڑھا نہیں معلوم ہوتا تھا۔۔۔
عمران دم سادھے لیٹا رہا۔۔۔ آدھا گھنٹہ گذر گیا۔۔۔ اس نے کلائی پر
بندھی ہوئی گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر خواب گاہ کی روشنی بند کردی۔
پنجوں کے بل چلتا ہوا سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آیا جو اندر
سے بند تھا اندر گہری نیلی روشنی تھی۔ عمران نے دروازے کے شیشے سے اندر
جھانکا لیڈی جہانگیر مسہری پر اوندھی پڑی بے خبر سو رہی تھی اور اس کے
ماتھے سے فاکس ٹیریئر کا سر اس کی کمر پر رکھا ہوا تھا اور وہ بھی سو
رہا تھا۔
عمران پہلے کی طرح احتیاط سے چلتا ہوا سر جہانگیر کی لائبریری میں داخل
ہوا۔
یہاں اندھیرا تھا۔ عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کی یہ ایک کافی
طویل و عریض کمرہ تھا۔ چاروں طرف بڑی بڑی الماریاں تھیں اور درمیان میں
تین لمبی لمبی میزیں۔ بہرحال یہ ایک ذاتی اور نجی لائبریری سے زیادہ
ایک پبلک ریڈنگ روم معلوم ہو رہا تھا۔
مشرقی سرے پر ایک لکھنے کی بھی میز تھی۔ عمران سیدھا اسی کی طرف گیا
جیب سے پرچہ نکالا جو اسے اس خوفناک عمارت میں پراسرار طور پر مرنے
والے کے پاس سے ملا تھا وہ اسے بغور دیکھتا رہا پھر میز پر رکھے ہوئے
کاغذات الٹنے پلٹنے لگا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ایک رائٹنگ پیڈ کے لیٹر ہیڈ کی
طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دبے ہوئے کاغذ کے سرنامے اور اس میں
کوئی فرق نہ تھا۔ دونوں پر یکساں قسم کے نشانات تھے اور یہ نشانات سر
جہانگیر کے آباؤ اجداد کے کارناموں کی یادگار تھے جو انہوں نے مغلیہ
دور حکومت میں سرانجام دیے تھے سرجہانگیر ان نشانات کو اب تک استعمال
کر رہا تھا۔ اس کے کاغذات پر اس کے نام کی بجائے عموما یہی نشانات چھپے
ہوئے تھے۔
عمران نے میز پر رکھے کاغذات کو پہلی سی ترتیب میں رکھ دیا اور چپ چاپ
لائبریری سے نکل آیا۔ لیڈی جہانگیر کے بیان کے مطابق سرجہانگیر ایک ماہ
سے غائب تھے۔۔۔ تو پھر! عمران کا ذہن چوکڑیاں بھرنے لگا۔۔۔ آخر ان
معاملات سے جہانگیر کا کیا تعلق۔ خواب گاہ میں واپس آنے سے پہلے اس نے
ایک بار پھر اس کمرے میں جھانکا جہاں لیڈی جہانگیر سو رہی تھی۔۔۔ اور
مسکراتا ہوا اس کمرے میں چلا آیا جہاں اسے خود سونا تھا۔
صبح نو بجے لیڈی جہانگیر اسے بری طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہی تھی۔
“ول ڈن! ول ڈن۔“ عمران ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور مسہری پر اکڑوں بیٹھ کر
اس طرح تالی بجانے لگا جیسے کسی کھیل کے میدان میں بیٹھا ہوا کھلاڑیوں
کو داد دے رہا ہو۔
“یہ کیا بے ہودگی!“ لیڈی جہانگیر جھنجھلا کر بولی۔
“اوہ۔ ساری۔“ وہ چونک کر لیڈی جہانگیر کو متحیرانہ نظروں سے دیکھتا ہوا
بولا۔
“ہلو۔ لیڈی۔۔۔ جہانگیر۔ فرمائیے۔ صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی۔“
“تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟“ لیڈی جہانگیر نے تیز لہجے میں کہا۔
“ہو سکتا ہے۔“ عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔“ اور اپنے نوکروں کے
نام لے لے کر انہیں پکارنے لگا۔“
لیڈی جہانگیر اسے چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی۔
“براہ کرم اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ۔۔۔“
“ہائیں تم مجھے میرے گھر سے نکالنے والی کون ہو؟“ عمران اچھل کر کھڑا
ہوگیا۔
“یہ تمہارے باپ کا گھر ہے؟“ لیڈی جہانگیر کی آواز بلند ہوگئی۔
عمران چاروں طرف حیرانی سے دیکھنے لگا۔ اس طرح اچھلا جیسے اچانک سر پر
کوئی چیز گری ہو۔
“ارے میں کہاں ہوں۔ کمرہ تو میرا نہیں معلوم ہوتا۔“
“اب جاؤ۔ ورنہ مجھے نوکروں کو بلانا پڑے گا۔“
“نوکروں کو بلا کر کیا کرو گی؟ میرے لائق کوئی خدمت۔ ویسے تم غصے میں
بہت حسین لگتی ہو۔“
“شٹ اپ۔“
“اچھا کچھ نہیں کہوں گا۔“ عمران بسور کر بولا اور پھر مسہری پر بیٹھ
گیا۔
لیڈی جہانگیر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتی رہی۔ اس کی سانس پھول
رہی تھی اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ عمران نے جوتے پہنے۔ کھونٹی سے کوٹ
اتارا اور پھر بڑے اطمینان سے لیڈی جہانگیر کی سنگھار میز پر جم گیا
اور پھر اپنے بال درست کرتے وقت اس طرح گنگنا رہا تھا جیسے سچ مچ اپنے
کمرے میں ہی بیٹھا ہو۔ لیڈی جہانگیر دانت پیس رہی تھی لیکن ساتھ ہی بے
بسی کی ساری علامتیں بھی اس کے چہرے پر امنڈ آئی تھیں۔
“ٹاٹا۔“ عمران دروازے کے قریب پہنچ کر مڑا اور احمقوں کی طرح مسکراتا
ہوا باہر نکل گیا۔ اس کا ذہن اس وقت بالکل صاف ہو گیا تھا۔ پچھلی رات
کی معلومات ہی اس کی تشفی کے لئے کافی تھیں۔ سرجہانگیر کے لیٹر ہیڈ کا
پراسرار طور پر مرے ہوئے آدمی کے ہاتھ میں پایا جانا اس پر دلالت کرتا
تھا کہ اس معاملہ سے سر جہانگیر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ اور شائد
سر جہانگیر شہر ہی میں موجود تھا۔ ہو سکتا ہے کہ لیڈی جہانگیر اس سے
لاعلم رہی ہو۔
اب عمران کو اس خوش رو آدمی کی فکر تھی جسے ان دنوں جج صاحب کی لڑکی کے
ساتھ دیکھا جا رہا تھا۔
“دیکھ لیا جائے گا۔“ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
اس کا ارادہ تو نہیں تھا کہ گھر کی طرف جائے مگر جانا ہی پڑا۔ گھر گئے
بغیر موٹر سائیکل کس طرح ملتی اسے یہ بھی تو معلوم کرنا تھا کہ وہ
“خوفناک عمارت“ دراصل تھی کسی کی؟ اگر اس کا مالک گاؤں والوں کے لئے
اجنبی تھا تو ظاہر ہے کہ اس نے وہ عمارت خود ہی بنوائی ہوگی۔ کیونکہ
طرز تعمیر بہت پرانا تھا۔ لہٰذا ایسی صورت میں یہی سوچا جا سکتا تھا کہ
اس نے بھی اسے کسی سے خریدا ہی ہوگا۔
گھر پہنچ کر عمران کی شامت نے اسے پکارا۔ بڑی بی شائد پہلے ہی سے بھری
بیٹھی تھیں۔ عمران کی صورت دیکھتے ہیں آگ بگولہ ہو گئیں۔
“کہاں تھے رے۔۔۔ کمینے سور!“
“اوہو۔ اماں بی۔ گڈ مارننگ۔۔۔ ڈیئرسٹ۔“
“مارننگ کے بچے میں پوچھتی ہوں رات کہاں تھا۔“
“وہ اماں بی کیا بتاؤں۔ وہ حضرت مولانا۔۔۔ بلکہ مرشدی و مولائی سیدنا
جگر مراد آبادی ہیں نا۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ مولوی تفضل
حسین قبلہ کی خدمت میں رات حاضر تھا۔ اللہ اللہ۔۔۔ کیا بزرگ ہیں۔۔۔
اماں بی۔۔۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ میں آج سے نماز شروع کر دوں گا۔“
“ارے۔۔۔ کمینے۔۔۔ کتے۔۔۔ تو مجھے بیوقوف بنا رہا ہے۔“ بڑی بی جھنجھلائی
ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔
“ارے توبہ اماں بی۔“ عمران زور سے اپنا منہ پیٹنے لگا۔“ آپ کے قدموں کے
نیچے میری جنت ہے۔“
اور پھر ثریا کو آتے دیکھ کر عمران نے جلد سے جلد وہاں سے کھسک جانا
چاہا۔ بڑی بی برابر بڑبڑائے جا رہی تھیں۔
“اماں بی۔ آپ خوامخواہ اپنی طبیعت خراب کر رہی ہیں۔ دماغ میں خشکی بڑھ
جائے گی۔“ ثریا نے آتے ہی کہا۔“ اور یہ بھائی جان۔ ان کو خدا کے حوالے
کیجئے۔“
“عمران کچھ نہ بولا۔“ اماں بی کو بڑبڑاتا چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا تھا؟
“شرم نہیں آتی۔ باپ کی پگڑی اچھالتے پھر رہے ہیں۔“ ثریا نے اماں بی کے
کسی مصرعہ پر گرہ لگائی۔
“ہائیں تو کیا اباجان نے پگڑی باندھنا شروع کر دی؟“ عمران پر مسرت لہجے
میں چیخا۔
اماں بھی اختلاج کی مریض تھیں۔ اعصاب بھی کمزور تھے لہٰذا انہیں غصہ
آگیا۔ ایسی حالت میں ہمیشہ ان کا ہاتھ جوتی کی طرف جاتا تھا۔ عمران
اطمینان سے زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔ اور پھر تڑاتڑ کی آواز کے علاوہ اور
کچھ نہیں سن سکا۔ اماں بی جب اسے جی بھر کے پیٹ چکیں تو انہوں نے رونا
شروع کردیا۔۔۔ ثریا انہیں دوسرے کمرے میں گھسیٹ لے گئی۔۔۔ عمران کی چچا
زاد بہنوں نے اسے گھیر لیا۔ کوئی اس کے کوٹ سے گرد جھاڑ رہی تھی اور
کوئی ٹائی کی گرہ درست کر رہی تھی۔ ایک نے سر پر چمپی شروع کر دی۔
عمران نے جیب سے سیگرٹ نکال کر سلگائی اور اس طرح کھڑا رہا جیسے وہ
بالکل تنہا ہو۔ دوچار کش لے کر اس نے اپنے کمرے کی راہ لی اور اسکی چچا
زاد بہنیں زرینہ اور صوفیہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں۔عمران
نے کمرے میں آکر فلٹ ہیٹ ایک طرف اچھال دی۔ کوٹ مسہری پر پھینکا اور
ایک آرام کرسی پر گر کر اونگھنے لگا۔
رات والا کاغذ اب بھی اس کے ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔ اس پر کچھ ہندسے
لکھے ہوئے تے۔ کچھ پیمائشیں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑھئی
نے کوئی چیز گھڑنے سے پہلے اس کے مختلف حصوں کے تناسب کا حساب لگایا ہو۔
بظاہر اس کاغذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن اس کا تعلق ایک
نامعلوم لاش سے تھا۔ ایسے آدمی کی لاش سے جس کا قتل بڑے پراسرار حالات
میں ہوا تھا۔ ان حالات میں یہ دوسرا قتل تھا۔
عمران کو اس سلسلے میں پولیس یا محکمہ سراغ رسانی کی مشغولیات کا کوئی
علم نہیں تھا اس نے فیاض سے یہ بھی معلوم کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی
تھی کہ پولیس نے ان حادثات کے متعلق کیا رائے قائم کی ہے۔ عمران نے
کاغذ کا ٹکڑا اپنے سوٹ کیس میں ڈال دیا اور دوسرا سوٹ پہن کر دوبارہ
باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل اسی قصبہ کی طرف جا رہی تھی۔ جہاں
وہ“خوفناک عمارت“ واقع تھی قصبے میں پہنچ کر اس بات کا پتہ لگانے میں
کوئی دشواری نہ ہوئی کہ وہ عمارت پہلے کس کی ملکیت تھی۔ عمران اس
خاندان کے ایک ذمہ دار آدمی سے ملا جس نے عمارت جج صاحب کے ہاتھ فروخت
کی تھی۔
“اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔“ اس نے بتایا۔ “ایاز صاحب نے وہ عمارت
ہم سے خود خریدی تھی۔ اس کے بعد مرنے سے پہلے اسے شہر کے کسی جج صاحب
کے نام قانونی طور پر منتقل کرگئے۔“
“ایاز صاحب کون تھے۔ پہلے کہاں رہتے تھے۔“ عمران نے سوال کیا۔
“ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ عمارت خریدنے کے بعد وہ تین سال تک زندہ رہے
لیکن کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکتا کہ وہ کون تھے اور پہلے کہاں رہتے
تھے۔ ان کے ساتھ ایک نوکر تھا جو اب بھی عمارت کے سامنے ایک حصے میں
مقیم ہے۔ “
“یعنی قبر کا وہ مجاور۔“ عمران نے کہا اور بوڑھے آدمی نے اثبات میں سر
ہلایا وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
“وہ قبر بھی ایاز صاحب ہی نے دریافت کی تھی۔ ہمارے خاندان والوں کو تو
اس کا علم نہیں تھا۔ وہاں پہلے کوئی قبر نیہں تھی۔ ہم نے اپنے بزرگوں
سے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔“
“اوہ!“ عمران گھورتا ہوا بولا۔“ بھلا قبر کس طرح دریافت ہوئی تھی۔“
“انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اس جگہ کوئی شہید مرد دفن ہیں۔ دوسرے ہی
دن قبر بنانی شروع کر دی۔“
“خود ہی بنانی شروع کر دی؟“ عمران نے حیرت سے پوچھا۔
“جی ہاں وہ اپنا سارا کام خود ہی کرتے تھے۔ کافی دولت مند بھی تھے۔
لیکن انہیں کنجوس نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ دل کھول کر خیرات کرتے تھے۔
“
“جس کمرے میں لاش ملی تھی اس کی دیواروں پر پلاسٹر ہے۔ لیکن دوسرے
کمروں میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔“
“پلاسٹر بھی ایاز صاحب ہی نے کیا تھا۔“
“خود ہی؟“
“جی ہاں!“
“اس پر یہاں قصبے میں تو بڑی چہ میگوئیاں ہوئی ہوں گی۔“
“قطعی نہیں جناب!۔۔۔ اب بھی یہاں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ایاز صاحب
کوئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور میرا خیال ہے کہ ان کا نوکر بھی۔۔۔ بزرگی
سے خالی نہیں۔“
“کبھی ایسے لوگ بھی ایاز صاحب سے ملنے کے لئے آئے تھے جو یہاں والوں کے
لئے اجنبی رہے ہوں۔“
“جی نہیں۔۔۔ مجھے تو یاد نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان سے کبھی کوئی ملنے
نہیں آیا۔“
“اچھا بہت بہت شکریہ۔“ عمران بوڑھے سے مصافحہ کرکے اپنی موٹر سائیکل کی
طرف بڑھ گیا۔
اب وہ اسی عمارت کی طرف جا رہا تھا اور اس کے ذہن میں بیک وقت کئی خیال
تھے۔ ایاز نے وہ قبر خود ہی بنائی تھی اور کمرے میں پلاسٹر بھی خود ہی
کیا تھا۔ کیا وہ ایک اچھا معماربھی تھا؟ قبر بھی وہاں پہلے نہیں تھی۔
وہ ایاز ہی کی دریافت تھی۔ اس کا نوکر آج بھی قبر سے چمٹا ہوا ہے۔ آخر
کیوں؟ اسی ایک کمرے میں پلاسٹر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ عمران عمارت کے
قریب پہنچ گیا۔ بیرونی بیٹھک جس میں مجاوررہتا تھا کھلی ہوئی تھی اور
وہ خود بھی موجود تھا۔ عمران نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہ متوسط
عمر کا ایک قوی ہیکل آدمی تھا چہرے پر گھنی داڑھی اور آنکھیں سرخ تھیں۔
شائد وہ ہمیشہ ایسی ہی رہتی تھیں۔
عمران نے دو تین بار جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور پھر اس کے چہرے پر
اس پرانے احمق پن کے آثار ابھر آئے۔
“کیا بات ہے۔“ اسے دیکھتے ہی نوکر نے للکارا۔
“مجھے آپ کی دعا سے نوکری مل گئی ہے۔“ عمران سعادت مندانہ لہجے میں
بولا۔ “سوچا کچھ آپ کی خدمت کرتا چلوں۔“
“بھاگ جاؤ۔“ قبر کا مجاور سرخ سرخ آنکھیں نکالنے لگا۔
“اب اتنا نہ تڑپایئے!“ عمران ہاتھ جوڑ کر بولا۔“ بس آخری درخواست کروں
گا۔“
“کون ہو تم۔۔۔ کیا چاہتے ہو۔“ مجاور یک بیک نرم پڑ گیا۔
“لڑکا۔ بس ایک لڑکا بغیر بچے کے گھر سونا لگتا ہے یا حضرت تیس سال سے
بچے کی آرزو ہے۔ “
“تیس سال۔ تمہاری عمر کیا ہے؟“ مجاور اسے گھورنے لگا۔
“پچیس سال۔“
“بھاگو۔ مجھے لونڈا بناتے ہو۔ ابھی بھسم کر دوں گا۔“
“آپ غلط سمجھے یا حضرت۔ میں اپنے باپ کے لئے کہہ رہا تھا۔۔۔ دوسری شادی
کرنے والے ہیں۔“
“جاتے ہو یا۔۔۔“ مجاور اٹھتے ہوئے بولا۔
“سرکار۔۔۔“ عمران ہاتھ جوڑ کر سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔“ پولیس آپ
کوبہت پریشان کرنے والی ہے۔“
“بھاگ جاؤ۔ پولیس والے گدھے ہیں۔ وہ فقیر کا کیا بگاڑ لیں گے۔“
“فقیر کے زیر سایہ دو خون ہوئے ہیں۔“
“ہوئے ہوں گے۔ پولیس جج صاحب کی لڑکی سے کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ ایک
مسٹنڈے کو لے کر یہاں کیوں آئی تھی۔“
“یا حضرت پولیس واقعی گدھی ہے! آپ ہی کچھ رہنمائی فرمائیے۔“
“تم خفیہ پولیس میں ہو۔“
“نہیں سرکار! میں ایک اخبار کا نامہ نگار ہوں۔ کوئی نئی خبر مل جائے گی
تو پیٹ بھرے گا۔“
“ہاں اچھا بیٹھ جاؤ۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ مکان جہاں ایک
بزرگ کا مزار ہو وہ بدکاری کا اڈہ بنے۔ پولیس کو چاہیئے کہ اسکی روک
تھام کرے۔“
“یاحضرت میں بالکل نہیں سمجھا۔“ عمران مایوسی سے بولا۔
“میں سمجھتا ہوں۔“ مجاور اپنی سرخ سرخ آنکھیں پھاڑ کر بولا۔“ چودہ
تاریخ کو جج صاحب کی لونڈیا اپنے ایک یار کو لے کر یہاں آئی تھی۔۔۔ اور
گھنٹوں اندر رہی۔“
“آپ نے اعتراض نہیں کیا۔۔۔ میں ہوتا تو دونوں کے سر پھاڑ دیتا۔ توبہ
توبہ اتنے بڑے بزرگ کے مزار پر۔۔۔“ عمران اپنا منہ پیٹنے لگا!
“بس خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا۔۔۔ کیا کروں! میرے مرشد یہ مکان ان
لوگوں کو دے گئےہیں ورنہ بتادیتا۔“
“آپ کے مرشد؟“
“ہاں۔۔۔ حضرت ایاز رحمتہ اللہ علیہ! وہ میرے پیر تھے! اس مکان کا یہ
کمرہ مجھے دے گئے ہیں تاکہ مزار شریف کی دیکھ بھال کرتا رہوں!“
“ایاز صاحب کا مزار شریف کہاں ہے۔“ عمران نےپوچھا۔
“قبرستان میں۔۔۔ ان کی تو وصیت تھی کہ میری قبر برابر کر دی جائے۔ کوئی
نشان نہ رکھا جائے۔“
“تو جج صاحب کی لڑکی کو پہچانتے ہیں آپ!“
“ہاں پہچانتا ہوں! وہ کانی ہے۔“
“ہائے! عمران نے سینے پر ہاتھ مارا۔۔۔“ اور مجاور اسے گھورنے لگا۔
“اچھا حضرت! چورہ کی رات کو وہ یہاں آئی تھی اور سولہ کی صبح کو لاش
پائی گئی۔“
“ایک نہیں ابھی ہزاروں لاشیں ملیں گی۔ مجاور کو جلال آگیا۔ مزار شریف
کی بے حرمتی ہے!“
“مگر سرکار! ممکن ہے کہ وہ اس کا بھائی رہا ہو۔“
“ہرگز نہیں۔ جج صاحب کے کوئی لڑکا نہیں ہے۔“
“تب تو پھر معاملہ۔۔۔ ہپ۔“ عمران اپنا داہنا کان کھجانے لگا!
عمران وہاں سے بھی چل پڑا وہ پھر قصبے کے اندر جا رہا تھا۔ دو تین
گھنٹہ تک وہ مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کرتا رہا اور پھر شہر کی طرف
روانہ ہوگیا۔
|
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|