اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010

خوفناک عمارت

باب ہفتم

تحریر۔۔۔------------ ابن صفی

کیپٹن فیاض کام میں‌مشغول تھا کہ اس کے پاس عمران کا پیغام پہنچا اس نے اسے اس کے آفس کے قریب ہی ریستوران میں بلا بھیجا تھا۔ فیاض نے وہاں تک پہنچنے میں دیر نہیں‌لگائی عمران ایک خالی میز پر طبلہ بجا رہا تھا۔ فیاض‌کو دیکھ کر احمقوں کی طرح‌مسکرایا۔
“کوئی نئی بات؟“ فیاض‌ نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“میرتقی میر غالب تخلص کرتے تھے!“
“یہ اطلاع تم بذریہ ڈاک بھی دے سکتے تھے۔“ فیاض چڑ کر بولا۔
“چودہ تاریخ کی رات کو وہ محبوبہ یک چشم کہاں‌تھی؟“
“تم آخر اس کے پیچھے کیوں‌ پڑ گئے ہو۔“
“پتہ لگا کر بتاؤ!۔۔۔ اگر وہ کہے کہ اس نے اپنی وہ رات اپنی کسی خالہ کے ساتھ بسر کی تو تمہارا فرض ہے کہ اس خالہ سے اس بات کی تحقیق کرکے ہمدرد دواخانہ کو فوراً مطلع کردو، ورنہ خط و کتابت صیغہ راز میں نہ رکھی جائے گی۔“
“عمران میں بہت مشغول ہوں۔“
“میں بھی دیکھ رہا ہوں! کیا آج کل تمہارے آفس میں مکھیوں کی کثرت ہو گئی ہے! کثرت سے یہ مراد نہیں‌کہ مکھیاں‌ڈنڈ پیلتی ہیں۔“
“میں‌جا رہا ہوں۔“ فیاض جھنجھلا کر اٹھتا ہوا بولا۔
“ ارے کیا تمھاری ناک پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں"۔ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھاتے ہوئے کہا۔
فیاض اسے گھورتا ہوا بیٹھ گیا! وہ سچ مچ جھنجھلا گیا۔
" اوہ! یہ تو مجھے بھی یاد نہیں رہا ! ۔۔۔ میرے خیال سے شاید میں تم سے چاول کا بھاؤ پوچھنے آیا تھا۔۔۔ مگر تم کہو گے کہ میں کوئی ناچنے والی تو ہوں نہیں کہ بھاؤ بتاؤں۔۔۔ ویسے تمھیں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ ان لاشوں کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں محبوب یک چشم کا قدم ضرور ہے۔ میں نے کوئی غلط لفظ تو نہیں بولا۔۔۔ ہاں!"۔
" اس کا قدم کس طرح؟"۔ فیاض یک بیک چونک پڑا۔
" انسائیکلوپیڈیا میں یہی لکھا ہے"۔ عمران سے ہلا کر بولا۔ " بس یہ معلوم کرو کہ اس نے وہ رات کہاں بسر کی!"۔
" کیا تم سنجیدہ ہو؟"۔
" اُف فوہ! بیوقوف آدمی ہمیشہ سنجیدہ رہتے ہیں!"۔
" اچھا میں معلوم کروں گا"۔
"خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے جج صاحب کے دوست ایاز کے مکمل حالات درکار ہیں، وہ کون تھا کہاں پیدا ہوا، کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے عزیز کہاں رہتے ہیں! سب مر گئے یا ابھی کچھ زندہ ہیں"۔
" تو ایسا کرو! آج شام کی چائے میرے گھر پر پیئو"۔ فیاض بولا۔
" اور اس وقت کی چائے"۔ عمران نے بڑے بھولے پن سے پوچھا۔
فیاض نے ہنس کر ویٹر کو چائے کا آرڈر دیا۔۔۔ عمران الوؤں کی طرح دیدے پھرا رہا تھا اور کچھ دیر بعد بولا۔
" کیا تم مجھے جج سے ملاؤ گے؟"۔
"ہاں میں تمھاری موجودگی میں ہی ان سے اس کے متعلق گفتگو کروں گا"۔
" ہی۔۔۔۔ ہی۔۔۔۔ مجھے تو بڑی شرم آئے گی"۔ عمران دانتوں تلے انگلی دبا کر دہرا ہوگیا۔
" کیوں۔۔۔ کیوں بور کر رہے ہو۔۔۔ شرم کی کیا بات"۔
" نہیں میں والد صاحب کو بھیج دونگا"۔
" کیا بک رہا ہے"۔
" میں براہِ راست خود شادی نہیں طے کرنا چاہتا"۔
" خدا سمجھے! میں ایاز والی بات کر رہا تھا"۔
" لا حول ولا قوۃ"۔ عمران نے جھینپ جانے کی ایکٹنگ کی۔
" عمران آدمی بنو"۔
" اچھا!"۔ عمران نے بڑی سعادت مندی سے سر ہلایا۔
چائے آگئی تھی۔۔۔ فیاض کچھ سوچ رہا تھا! کبھی کبھی وہ عمران کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا جو اپنے سامنے والی دیوار پر لگے ہوئے آئنیے میں دیکھ دیکھ کر منہ بنا رہا تھا۔ فیاض نے چائے بنا کر پیالی اس کے آگے کھسکا دی۔
"یار فیاض! ۔۔۔ وہ شہید مرد کی قبر والا مجاور بڑا گریٹ آدمی معلوم ہوتا ہے"۔ عمران بولا۔
" کیوں؟"۔
" اس نے ایک بڑی گریٹ بات کہی تھی"۔
"کیا ۔۔۔ ؟؟"۔
" یہی کہ پولیس والے گدھے ہیں۔"
" کیوں کہا تھا اس نے"۔ فیاض چونک کر بولا۔
" پتہ نہیں۔ پر اس نے بات بڑی پتے کی کہی تھی۔"
" تم خواہ مخواہ گالیاں دینے پر تلے ہوئے ہو۔"
" نہیں پیارے ! اچھا تم یہ بتاؤ! وہاں قبر کس نے بنائی تھی اور اس ایک کمرے کے پلاسٹر کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے۔"
" میں فضولیات میں سر نہیں کھپاتا"۔ فیاض چڑ کر بولا۔ " اس معاملے سے ان کا کیا تعلق۔"
" تب تو کسی اجنبی کی لاش کا وہاں پایا جانا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔" عمران نے کہا۔
" آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔" فیاض جھنجھلا کر بولا۔
" یہ کہ نیک بچے صبح اٹھ کر اپنے بڑوں کو سلام کرتے ہیں۔ پھر ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرتے ہیں۔ پھر سکول چلے جاتے ہیں۔ کتاب کھول کر الف سے الّو! ب سے بندر ۔۔۔۔ پ سے پتنگ۔۔۔!"
" عمران خدا کے لیے۔" فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔
" اور خدا کو پر وقت یاد رکھتے ہیں۔"
" بکے جاؤ"۔
" چلو خاموش ہوگیا۔ ایک خاموشی پزار ٹلائیں بالتی ہیں۔۔۔۔ ہاہیں کیا ٹالیں۔۔۔ لا حول ولا قوّۃ۔۔۔ میں نے ابھی کیا کہا تھا؟"۔
" اپنا سر"۔‌‌
" ہاں۔۔۔ شکریہ! میرا سر بڑا مضبوط ہے۔۔۔ ایک بار اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ میں اسے بینگن کا بھرتہ کہا کرتا تھا"۔
" چائے ختم کرکے دفع ہو جائیے"۔ فیاض بولا۔ " مجھے ابھی بہت کام ہے شام کو گھر ضرور آنا۔“
اسی شام کو عمران اور فیاض جج صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے، جج صاحب کی لڑکی بھی موجود تھی اور اس نے اُس وقت بھی سیاہ رنگ کی عینک لگا رکھی تھی۔ عمران بار بار اس کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھر رہا تھا! فیاض کبھی کبھی رابعہ سے نظر بچا کر اسے گھورنے لگتا۔
تھوڑی دیر بعد جج صاحب آگئے اور رابعہ اُٹھ کر چلی گئی۔
" بڑی تکلیف ہوئی آپ کو!"۔ فیاض بولا۔
" کوئی بات نہیں فرمائیے"۔
" بات یہ ہے کہ میں ایاز کے متعلق مزید معلومات چاہتا ہوں"۔
" میرا خیال ہے کہ میں آپ کو سب کچھ بتا چکا ہوں"۔
" میں اس کے خاندانی حالات معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے اعزہ سے مل سکوں"۔
" افسوس کہ میں اس کی بابت کچھ نہ بتا سکوں گا"۔ جج صاحب نے کہا۔ " بات آپ کو عجیب معلوم ہوگی لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اسکے متعلق کچھ نہیں جانتا حالانکہ ہم گہرے دوست تھے"۔
" کیا آپ یہ بھی نہ بتا سکیں گے وہ باشندہ کہاں کا تھا؟"۔
" افسوس میں یہ بھی نہیں جانتا"۔
" بڑی عجیب بات ہے۔ اچھا پہلی ملاقات کہاں پہ ہوئی تھی؟"۔
" انگلینڈ میں"۔
فیاض بےاختیار چونک پڑا۔۔۔ لیکن عمران بالکل ٹھس بیٹھا رہا۔ اس کی حالت میں ذّرہ بھر بھی کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
" کب کی بات ہے؟"۔ فیاض نے پوچھا۔
" تیس سال پہلے کی! اور یہ ملاقات بڑے عجیب حالات میں ہوئی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آکسفورڈ میں قانون پڑھ رہا تھا۔ ایک بار ایک ہنگامے میں پھنس گیا۔ جس کی وجہ سو فیصد غلط فہمی تھی۔ اب سے تیس سال پہلے کا لندن نفرت انگیز تھا، انتہائی نفرت انگیز۔۔۔ اسی سے اندازہ لگائیے کہ وہاں کے ایک ہوٹل پر ایک ایسا سائن بورڈ تھا جس پر تحریر تھا۔' ہندوستانیوں اور کّتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔۔۔!'۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔
بہرحال ایسے ماحول میں اگر کسی ہندوستانی اور انگریز کے درمیان میں کوئی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو انجام ظاہر ہے۔ وہ ایک ریستوران تھا جہاں میرا ایک انگریز سے جھگڑا ہوگیا۔ علاقہ ایسٹ اینڈ کا تھا جہاں زیادہ تو جنگلی ہی رہا کرتے تھے! آج بھی جنگلی ہی رہتے ہیں! انتہائی غیر مہذب لوگ جو جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں! اوہ۔۔۔ میں خواہ مخواہ بات کو طوالت دے رہا ہوں! مطلب یہ کہ جھگڑا بڑھ گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں خود ہی جان بچا کر نکل جانا چاہتا تھا!۔۔۔ اچانک ایک آدمی بھیڑ کو چیرتا ہوا میرے پاس پہنچ گیا۔ وہ ایاز تھا۔ اسی دن میں نے اسے پہلے پہل دیکھا۔۔۔ اور اس روپ میں دیکھ کر آج تک متحیر ہوں۔۔۔ وہ مجمع جو مجھے مار ڈالنے پر تُل گیا تھا ایاز کی شکل دیکھتے ہی تتر بتر ہوگیا!۔ ایسا معلوم ہوا جیسے بھیڑوں کے گلے میں کوئی بھیڑیا گھس آیا ہو۔۔۔ بعد کو معلوم ہوا کہ ایاز اس جگہ کے بااثر لوگوں میں سے تھا۔۔۔ ایسا کیوں تھا مجھے آج تک معلوم نہ ہوسکا۔ وہ ہندوستانی ہی تھا لیکن مجھے یہاں تک بھی نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ کس شہر یا صوبے کا باشندہ تھا"۔
جج صاحب نے خاموش ہوکر سگار کیس اس کی طرف بڑھا دیا۔عمران خاموش بیٹھا چھت کی طرف گھور رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے فیاض زبردستی کسی بیوقوف کو پکڑ لایا ہو! بیوقوف ہی نہیں بلکہ ایسے آدمی کو جو ان کی گفتگو ہی سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو! فیاض نے اسے کئی بار کنکھیوں سے دیکھا بھی لیکن خاموش رہا۔
" شکریہ"۔ فیاض نے سگار لیتے ہوئے کہا اور پھر عمران کی طرف دیکھ کر بولا۔ " جی یہ نہیں پیتے"۔
اس پر بھی عمران نے چھت پر سے اپنی نظریں نہ ہٹائیں، ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا ہو! جج صاحب نے بھی عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن کچھ نہ بولے۔
اچانک عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر " اللہ " کہا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ منہ چلاتا ہوا اُن دونوں کو احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
اس پر بھی فیاض کو خوشی ہوئی کہ جج صاحب نے عمران کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ فیاض کوئی دوسرا سوال سوچ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ دُعا بھی کر رہا تھا کہ عمران کی زبان بند ہی رہے تو بہتر ہے مگر شاید عمران چہرہ شناسی کا بھی ماہر تھا کیونکہ دوسرے ہی لمحے میں اس نے بھی بکنا شروع کر دیا۔
" ہاں صاحب! اچھے لوگ بہت کم زندگی لے کر آتے ہیں! ایاز صاحب تو ولی اللہ تھے۔ چرخ کج رفتار ردناہنجار کب کسی کو۔۔۔ غالب کا شعر ہے!"۔
لیکن قبل اس کے کہ عمران شعر سناتا فیاض بول پڑا۔ " جی ہاں قصبے والوں میں کچھ اس قسم کی افواہ ہے!"۔
" بھئی یہ بات تو کسی طرح میرے حلق سے نہیں اُترتی! سُنا میں نے بھی ہے۔" جج صاحب بولے۔" اس کی موت کے بعد قصبے کے کچھ معزز لوگوں سے ملا بھی تھا انہوں نے بھی یہی ظاہر کیا تھا کہ وہ کوئی پہنچا ہوا آدمی تھا لیکن میں نہیں سمجھتا۔ اس کی شخصیت پُراسرار تھی۔۔۔ مگر ان معنوں میں نہیں!"
" اس کے نوکر کے بارے کیا خیال ہے جو قبر کی مجاوری کرتا تھا۔" فیاض نے پوچھا۔
" وہ بھی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔" عمران تڑ سے بولا۔ جج صاحب اسے گھورنے لگے لیکن اس بار بھی انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔
" کیا وصیت نامے میں یہ بات ظاہر کر دی گئی ہے کہ قبر کا مجاور عمارت کے بیرونی کمرے پر قابض رہے گا۔“ فیاض نے جج صاحب سے پوچھا۔
" جی ہاں! قطعی!“ جج صاحب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ " بہتر ہوگا اگر ہم دوسری باتیں کریں! اس عمارت سے میرا بس اتنا ہی تعلق ہے کہ میں قانونی طور پر اس کا مالک ہوں۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میرے گھر کے کسی بھی فرد نے آج تک اس میں قیام نہیں کیا“
" کوئی کبھی ادھر گیا بھی نہ ہوگا؟" فیاض نے کہا۔
" بھئی کیوں نہیں! شروع میں تو سب ہی کو اس کو دیکھنے کا اشتیاق تھا! ظاہر ہے وہ حیرت انگیز طریقے سے ہماری ملکیت میں آئی تھی۔"
" ایاز صاحب کے جنازے پر نور کی بارش ہوئی تھی۔" عمران نے پھر ٹکڑا لگایا۔
" مجھے پتا نہیں۔" جج صاحب بیزاری سے بولے۔" میں اس وقت وہاں پہنچا تھا جب وہ جا چکا تھا۔"
" میرا خیال ہے کہ وہ عمارت آسیب زدہ ہے۔" فیاض نے کہا۔
" ہوسکتا ہے! کاش وہ میری ملکیت نہ ہوتی! کیا اب آپ لوگ مجھے اجازت دیں گے؟"
" معاف کیجئیے گا"۔ فیاض اٹھتا ہوا بولا۔ " آپ کو بہت تکلیف دی مگر معاملہ ہی ایسا تھا۔"
فیاض اور عمران باہر نکلے! فیاض اس پر جھلایا ہوا تھا۔ باہر آتے ہی اس پر برس پڑا۔ " تم ہر جگہ اپنے گدھے پن کا ثبوت دینے لگتے ہو۔"
" اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمھیں گولی مار دوں۔" عمران نے کہا۔
" کیوں میں نے کیا کیا ہے؟"
" تم نے کیوں نہیں پوچھا کہ محبوبہ یک چشم چودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھی۔"
" کیون بور کرتے ہو! میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔"
" خیر مجھے کیا، میں خود ہی پوچھ لوں گا"۔ عمران نے کہا۔" سر جہانگیر کو جانتے ہو؟"
" ہاں، کیوں؟“
" وہ میرا رقیب ہے۔"
" کسی طرح پتا لگاؤ کہ وہ آج کل کہاں ہے؟"
" میرا وقت برباد نہ کرو۔" فیاض جھنجھلا گیا۔
" تب پھر تم بھی وہیں جاؤ جہاں شیطان قیامت کے دن جائے گا۔" عمران نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ مارتا ہوا جج صاحب کے گیراج کی طرف چلا گیا۔ یہاں سے رابعہ باہر جانے کے لیے کار نکال رہی تھی۔
" مس سلیم۔" عمران کھنکار کر بولا۔ " شاید ہمارا تعارف پہلے بھی ہوچکا ہے۔"
" اوہ جی ہاں، جی ہاں۔" رابعہ جلدی سے بولی۔
" کیا آپ مجھے لفٹ دینا پسند کریں گی؟۔"
" شوق سے آئیے۔۔۔۔!"
رابعہ خود ڈرائیو کر رہی تھی۔ عمران شکریہ ادا کرکے اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
" کہاں اُترئیے گا؟“ رابعہ نے پوچھا۔
" سچ پوچھئیے تو میں اُترنا ہی نہ چاہوں گا۔"
رابعہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔ اس وقت اس نے ایک مصنوعی آنکھ لگا رکھی تھی اس لیے آنکھوں پر عینک نہیں تھی۔
فیاض کی بیوی نے اسے عمران کے متعلق بہت کچھ بتایا تھا۔ اس لیے وہ اسے احمق سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔!
" کیا آپ کچھ ناراض ہیں؟" عمران نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
" جی!“ رابعہ چونک پڑی۔ " نہیں تو!۔۔۔“ پھر ہنسنے لگی۔
" میں نے کہا شاید مجھ سے لوگ عموما ناراض رہا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں انہیں خواہ مخواہ غصہ دلا دیتا ہوں۔"
" پتہ نہیں! مجھے تو آپ نے ابھی تک غصہ نہیں دلایا۔"
" تب تو یہ میری خوش قسمتی ہے۔" عمران نے کہا۔ " ویسے اگر میں کوشش کروں تو آپ کو غصہ دلا سکتا ہوں۔"
رابعہ پھر ہنسنے لگی ۔" کیجئیے کوشش!" اس نے کہا۔
" اچھا تو آپ شاید یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے۔" عمران احمقوں کی طرح ہنس کر بولا۔
" میں تو یہی سمجھتی ہوں کہ مجھے غصہ نہیں آتا۔"
" اچھا تو سنبھلئیے۔" عمران نے اس طرح کہا جیسے ایک شمشیر زن دوسرے شمشیر زن کو للکارتا ہوا کسی گھٹیا سی فلم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
رابعہ کچھ نہ بولی وہ کچھ بور سی ہونے لگی تھی۔
" آپ چودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھیں؟" عمران نے اچانک پوچھا۔
" جی ۔۔۔۔" رابعہ بےاختیار چونک پڑی۔
" اوہ! سٹیرنگ سنبھالیے۔ کہیں کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہوجائے۔" عمران بولا۔ " دیکھئیے۔ میں نے آپ کو غصہ دلا دیانا۔“ پھر اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور اپنی ران پیٹنے لگا۔
رابعہ کی سانس پھولنے لگی تھی اور اس کے ہاتھ سٹیرنگ پر کانپ رہے تھے۔
" دیکھئے" اس نے ہانپتے ہویے کہا۔ " مجھے جلدی ہے۔۔۔۔ واپس جانا ہوگا۔۔۔۔ آپ کہاں اُتریں گے ؟"
" آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔" عمران پُر سکون لہجے میں بولا۔
" آپ سے مطلب! آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟"
" دیکھا۔۔۔ آگیا غصہ! ویسے یہ بات بہت اہم ہے اگر پولیس کے کانوں تک جا پہنچی تو زحمت ہوگی! ممکن ہے کہ میں کوئی ایسی کاروائی کرسکوں جس کی بناء پر پولیس یہ سوال ہی نہ اٹھائے۔"
رابعہ کچھ نہ بولی وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔
" میں یہ بھی نہ پوچھوں گا کہ آپ کہاں تھیں۔" عمران نے پھر سے کہا۔ " کیونکہ مجھے معلوم ہے۔ مجھے آپ صرف اتنا بتا دیجئیے کہ آپ کے ساتھ کون تھا؟"
" مجھے پیاس لگ رہی ہے۔" رابعہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
" اوہو! تو روکئے۔۔۔۔ کیفے نبراسکا نزدیک ہی ہے۔"
کچھ آگے چل کر رابعہ نے کار کھڑی کر دی اور وہ دونوں اتر کر فٹ پاتھ پر سے گزرتے ہوئے کیفے نبراسکا میں چلے گئے۔
عمران نے ایک خالی گوشہ منتخب کیا! اور وہ بیٹھ گئے!۔۔۔۔ چائے سے پہلے عمران نے ایک گلاس ٹھنڈے پانی کے لیے کہا۔
" مجھے یقین ہے کہ واپسی میں کنجی اس کے پاس رہ گئی ہوگی۔" عمران نے کہا۔
" کس کے پاس؟“ رابعہ پھر چونک پڑی۔
" فکر نہ کیجئیے مجھے یقین ہے کہ اس نے آپ کو اپنا صحیح نام اور پتہ ہرگز نہ بتایا ہوگا اور کنجی واپس کر دینے کے بعد سے اب تک ملا بھی نہ ہوگا۔“
رابعہ بالکل نڈھال ہوگئی اور مردہ سی آواز میں کہا۔ "پھر اب آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟"
" آپ اس سے کب اور کن حالات میں ملی تھیں؟"
" اب سے دو ماہ پیشتر!"
" کہاں ملا تھا؟"
" ایک تقریب میں! مجھے یہ یاد نہیں کہ کس نے تعارف کرایا تھا"
" تقریب کہاں تھی؟"
" شاید سر جہانگیر کی سالگرہ کا موقع تھا۔“
" اوہ!"۔۔۔۔ عمران کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا۔ " کنجی آپ کو اس نے کب واپس کی تھی؟"
" پندرہ کی شام کو۔"
" اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی۔" عمران نے کہا۔
رابعہ بُری طرح ہانپے لگی۔ وہ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر کرسی کی پُشت سے ٹِک گئی۔ اس کی حالت باز کے پنجے میں پھنسی ہوئی کسی نھنی منی چڑیا سے مشابہ تھی۔
" پندرہ کے دن بھر کنجی اس کے پاس رہی! اس نے اس کی ایک نقل تیار کرا کر کنجی آپ کو واپس کر دی! اس کے بعد پھر وہ آپ کو نہیں ملا۔ غلط کہہ رہا ہوں؟"
" ٹھیک ہے"۔ وہ آہستہ سے بولی۔ " وہ مجھ سے کہا کرتا تھا کہ وہ ایک سیاح ہے!"
" جعفریہ ہوٹل میں قیام پذیر ہے۔۔۔ لیکن پرسوں میں وہاں گئی تھی۔۔۔"
وہ خاموش ہوگئی، اس پر عمران نے سر ہلا کر کہا۔" اور آپ کو معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی آدمی وہاں کبھی ٹھہرا ہی نہیں۔"
" جی ہاں۔" رابعہ سر جھکا کر بولی۔
" آپ سے اس کی دوستی کا مقصد محض اتنا ہی تھا کہ وہ کسی طرح آپ سے اس عمارت کی کنجی حاصل کر لے۔"
" میں گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔ میری طبعیت ٹھیک نہیں۔"
" دو منٹ۔" عمران نے ہاتھ ہلا کر کہا۔" آپ کی زیادہ تر ملاقاتیں کہاں ہوئیں تھیں؟"
" ٹپ ٹاپ نائیٹ کلب میں۔"
" لیڈی جہانگیر سے اس کے تعلقات کیسے تھے؟"
" لیڈی جہانگیر۔۔۔" رابعہ چڑ کر بولی۔" آخر ان معاملات میں آپ ان کا نام کیوں لے رہے ہیں۔"
" کیا آپ میرے سوال کا جواب نہ دیں گی؟" عمران نے بڑی شرافت سے کہا۔
" نہیں! میرا خیال ہے کہ میں نے ان دونوں کو کبھی نہیں ملتے دیکھا۔"
" شکریہ! اب میں اس کا نام نہیں پوچھوں گا! ظاہر سے اس کا نام بھی صحیح نہیں ہوگا۔۔۔ لیکن اگر آپ اس کا حُلیہ بتا سکیں تو میں مشکور ہونگا۔"
رابعہ کو بتانا ہی پڑا۔ لیکن وہ بہت زیادہ مغموم تھی اور ساتھ ہی ساتھ خائف بھی۔
 

جاری ہے

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team