|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010
|
خوفناک عمارت
باب
ہشتم |
تحریر۔۔۔------------
ابن صفی |
عمران فٹ
پاتھ پر تنہا کھڑا تھا!۔۔ رابعہ کی کار جا چکی تھی۔ اس نے جیب سے ایک
چیونگم نکالی اور منہ میں ڈال کر دانتوں سے اسے کچلنے لگا۔۔۔ غور و فکر
کے عالم میں چیونگم اس کا بہترین ساتھی ثابت ہوتا تھا۔۔۔ جاسوسی ناولوں
کے سارغ راسانوں کی طرح نہ اسے سگار سے دلچسپی تھی نہ پائپ سے! شراب
بھی نہیں پیتا تھا۔
اس کے ذہن میں اس وقت کئی سوال تھے اور وہ فٹ پاتھ کے کنارے پر اس طرح
کھڑا ہوگیا جیسے سڑک پار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔۔۔ لیکن یہ حقیقت تھی
کہ اس کے ذہن میں اس قسم کا کوئی خیال نہیں تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ان معاملات سے سر جہانگیر کا تعلق ہو سکتا ہے، دوسری
لاش کے قریب اسے کاغذ کا جو ٹکڑا ملا تھا وہ سر جہانگیر کے ہی رائٹنگ
پیڈ کا تھا۔ رابعہ سے پُراسرار نوجوان کی ملاقات بھی سر جہانگیر کے ہی
یہاں ہوئی تھی۔ اور لیڈی جہانگیر نے جس خوبصورت نوجوان کا تذکرہ کیا
تھا وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ لیکن لیڈی جہانگیر
بھی اس سے واقف نہیں تھی۔ لیڈی جہانگیر کی یہ بات بھی سچ تھی کہ اگر وہ
شہر کے کسی ذی حیثیت خاندان کا فرد ہوتا تو لیڈی جہانگیر اس سے ضرور
واقف ہوتی! فرض کیا کہ اگر لیڈی جہانگیر بھی کسی سازش میں شریک تھی تو
اس نے اس کا تذکرہ عمران سے کیوں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی دوسری
زندگی سے واقف نہ رہی ہو۔ لیکن پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے
تذکرہ کیا ہی کیوں؟ وہ کوئی ایسی اہم بات تھی! سینکڑون نوجوان لڑکیوں
کے چکر میں رہے ہوں گے۔ چاہے وہ پانی پینے کے مشکیزے سے بھی بدتر کیوں
نہ ہوں! پھر ایک اور سوال اس کے ذہن میں ابھرا! آخر اس مجاور نے پولیس
والے کو رابعہ کے متعلق کیوں نہیں بتایا تھا۔ قبر اور لاش کے متعلق تو
اس نے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ حیرانگی اس بات کی تھی کہ وہ لوگ کون ہیں
اور اس مکان میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں اگر وہ سر جہانگیر ہی ہے تو اس
کا اس عمارت سے کیا تعلق؟۔۔۔ سر جہانگیر سے وہ اچھی طرح واقف تھا، لیکن
یوں بھی نہیں کہ وہ اس پر کسی قسم کا شبہ کر سکتا۔ سر جہانگیر شہر کے
معزز ترین لوگوں میں تھا۔ نہ صرف معزز بلکہ نیک نام!
تھوڑی دیر بعد عمران سڑک پار کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ رکتی ہوئی
کار اس کی راہ میں حائل ہوگئی۔ یہ رابعہ ہی کی کار تھی۔
" خدا کا شکر ہے کہ آپ مل گئے"۔ اس نے کھڑکی سے سر نکال کر کہا۔
" میں جانتا تھا کہ آپ کو پھر میری ضرورت محسوس ہوگی!"۔ عمران نے کہا
اور کار کا دروازہ کھول کر رابعہ کے برابر بیٹھ گیا!۔۔۔ کار پھر چل پڑی۔
" خدا کے لیے مجھے بچائیے"۔ رابعہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ " میں
ڈوب رہی ہوں!"۔
" تو کیا آپ مجھے تنکا سمجھتی ہیں"۔ عمران نے قہقہہ لگایا۔
" خدا کے لیے کچھ کیجئیے۔ اگر ڈیڈی کو اس کا علم ہوگیا تو۔۔۔۔؟"
" نہیں ہونے پائے گا"۔ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔" آپ لوگ مردوں کے دوش
بدوش جھک مارنے میدان میں نکلی ہیں۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے۔۔۔لیکن آپ نہیں
جانتیں کہ مرد ہر میدان میں آپ کو الّو بناتا ہے۔۔۔ ویسے معاف کیجئیے
مجھے نہیں معلوم کہ الو کی مادہ کو کیا کہتے ہیں"۔
رابعہ کچھ نہ بولی اور عمران کہتا رہا۔" خیر بھول جائیے اس بات کو۔ میں
کوشش کروں گا کہ اس ڈرامے میں آپ کا نام نہ آنے پائے! اب تو آپ مطمئن
ہیں نا۔۔۔ گاڑی روکئے۔۔۔ اچھا ٹاٹا۔۔۔"۔
" ارے!"۔ رابعہ نے ہلکی سی چیخ نکالی اور اس نے پورے بریک لگا دئیے۔
" کیا ہوا؟" عمران گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
" وہی ہے"۔ رابعہ بڑبڑائی۔" اترئیے۔۔۔ میں اسے بتاتی ہوں"۔
" کون ہے؟ کیا بات ہے؟"۔
" وہی جس نے مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے"۔
" کہاں ہے؟"۔
" وہ۔۔۔ اس بار میں ابھی ابھی گھسا ہے۔ وہی تھا۔۔۔ چمڑے کی جیکٹ اور
کتھئی پتلون میں۔۔۔"
" اچھا تو آپ جائیے۔ میں دیکھ لوں گا"۔
" نہیں میں بھی۔۔۔۔"
" جاؤ!"۔ عمران آنکھیں نکال کر بولا! رابعہ سہم گئی! اس وقت احمق عمران
کی آنکھیں اسے بڑی خوفناک معلوم ہوئیں۔ اس نے چُپ چاپ کار موڑ لی۔
عمران بار میں گھسا!۔۔۔ بتائے ہوئے آدمی کو تلاش کرنے میں دیر نہیں لگی۔
وہ ایک میز پر تنہا بیٹھا تھا۔ وہ گٹھیلے جسم کا ایک خوش رو نوجوان تھا۔
پیشانی کشادہ اور چوٹ کے نشانات سے داغدار تھی۔ شاید وہ سر کو دائیں
جانب جھکائے رکھنے کا عادی تھا۔ عمران اس کے قریب ہی میز پر بیٹھ گیا۔
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو! کچھ مضطرب بھی تھا۔
عمران نے پھر ایک چیونگم نکال کر منہ میں ڈال لیا۔
اس کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی چمڑے کی جیکٹ والے
آدمی کے پاس آگیا۔ اور پھر عمران نے اس کے چہرے سے اضطراب کے آثار غائب
ہوتے دیکھے۔
" سب چوپٹ ہو رہا ہے"۔ چمڑے کی جیکٹ والا بولا۔
" اس بڈھے کو خبط ہو گیا ہے!"۔ دوسرا آدمی بولا۔
عمران ان کی گفتگو صاف سُن رہا تھا۔ جیکٹ والا چند لمحے پُرخیال انداز
میں ٹھوڑی کھجاتا رہا پھر بولا۔
" مجھے یقین ہے کہ اس کا خیال غلط نہیں ہے! وہ سب کچھ وہیں ہے لیکن
ہمارے ساتھی بودے ہیں۔ آوازیں سنتے ہی ان کی روح فنا ہوجاتی ہے"۔
" لیکن بھئی! آخر وہ آوازیں ہیں کیسی!"۔
" کیسی بھی ہوں۔ ہمیں اس کی پروانہ نہ کرنی چائیے"۔
" اور وہ دونوں کس طرح مرے؟"
" یہ چیز!"۔ جیکٹ والا کچھ سوچتے ہوئے بولا۔" ابھی تک میری سمجھ میں نہ
آسکی! مرتا وہی ہے جو کام شروع کرتا ہے۔ یہ ہم شروع ہی سے دیکھتے رہے
ہیں"۔
" پھر ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟"۔ دوسرے آدمی نے کہا۔
" ہمیں آج یہ معاملہ طے ہی کر لینا ہے!"۔ جیکٹ والا بولا۔" یہ بھی بڑی
بات ہے کہ وہاں پولیس کا پہرہ نہیں ہے"۔
" لیکن اس رات کو ہمارے علاوہ اور کوئی بھی وہاں تھا، مجھے تو اس آدمی
پر شبہ ہے جو باہر والے کمرے میں رہتا ہے"۔
" اچھا اٹھو۔ ہمیں وقت نہ برباد کرنا چاہئے"۔
" کچھ پی تو لوں! میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔ کیا پیئو گے۔۔۔ وہسکی یا کچھ
اور؟"۔
پھر وہ دونوں پیتے رہے اور عمران اٹھ کر قریب ہی ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ
میں چلا گیا۔ دوسرے لمحے وہ فیاض کا نجی فون نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔
" ہیلو!۔۔۔ ہاں میں ہی ہوں!۔۔۔ خیریت کہاں۔۔ زکام ہوگیا ہے۔ پوچھنا یہ
ہے کہ جوشاندہ پی لوں! ۔۔۔ ارے تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔
دیگر احوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر اس عمارت کے گرد مسلح پہرہ
لگ جانا چاہئے۔۔۔۔ بس بس آگے مت پوچھو۔ اگر اس کے خلاف ہوا تو آئیندہ
شرلاک ہومز ڈاکٹر واٹسن کی مدد نہیں کرے گا"۔
ٹیلی فون بوتھ سے واپس آ کر عمران نے پھر اپنی جگہ سنبھال لی۔ جیکٹ
والا دوسرے آدمی سے کہہ رہا تھا۔
" بوڑھا پاگل نہیں ہے اس کے اندازے غلط نہیں ہوتے"۔
" اونہہ ہوگا"۔ دوسرا میز پر خالی گلاس رکھتا ہوا بولا۔" صحیح ہو یا
غلط سب جہنم میں جائے لیکن تم اپنی کہو۔ اگر اس لڑکی سے پھر ملاقات
ہوگئی تو کیا کرو گے؟"۔
" اوہ"۔ جیکٹ والا ہنسنے لگا۔" معاف کیجئیے گا میں نے آپ کو پہچانا
نہیں"۔
" ٹھیک، لیکن اگر وہ پولیس تک پہنچ گئی تو؟"
" وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔ بیان دیتے وقت اسے اس کا اظہار بھی
کرنا پڑے گا کہ وہ ایک رات میرے ساتھ اس مکان میں بسر کر چکی ہے۔ اور
پھر میرا خیال ہے کہ شاید اس کا ذہن کنجی تک پہنچ ہی نہ سکے"۔
عمران کافی کا آرڈر دے کے دوسرے چیونگم سے شغل کرنے لگا اس کے چہرے سے
اسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ سارے ماحول سے قطعی بےتعلق ہے۔ لیکن یہ
حقیقت تھی کہ ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اس کی یادداشت ہضم کرتی
جا رہی تھی۔
" تو کیا آج بوڑھا آئے گا؟" دوسرے آدمی نے پوچھا۔
" ہاں آج فیصلہ ہوجائے"۔ جیکٹ والا بولا۔
دونوں اٹھ گئے۔ عمران نے اپنے حلق میں بچی کچھی کافی انڈیل لی۔ بل وہ
پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔
وہ دونوں باہر نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہوگئے اور پھر ان دونوں نے ایک
ٹیکسی رکوائی، کچھ دیر بعد ان کی ٹیکسی کے پیچھے ایک دوسری ٹیکسی بھی
جا رہی تھی جس کی پچھلی سیٹ پر عمران اکڑوں بیٹھا سر کھجا رہا تھا۔
حماقت انگیز حرکتیں اس سے اکثر تنہائی میں سرزد ہو جاتی تھیں۔
ارکھیم لین میں پہنچ کر اگلی ٹیکسی رُک گئی! وہ دونوں اترے اور ایک گلی
میں گھس گئے۔یہاں عمران ذرا سا چونک گیا۔ اس نے انہیں گلی میں گھستے
ضرور دیکھا تھا۔ لیکن جتنی دیر میں وہ ٹیکسی کا کرایہ چکاتا وہ انہیں
کھو چکا تھا!۔
گلی سنسان پڑی تھی۔ آگے بڑھا تو داہنے ہاتھ ایک دوسرے گلی دکھائی دی۔
اب اس دوسری گلی کو طے کرتے وقت اسے احساس ہوا کہ وہاں تو گلیوں کا جال
بچھا ہوا ہے۔ لہذٰا سر مارنا فضول سمجھ کر وہ پھر سڑک پر آگیا۔ اور اس
گلی کے سرے سے تھوڑے ہی فاصلے پر رک کر ایک بُک سٹال کے شو کیس میں لگی
ہوئی کتابوں کے رنگ برنگ گردپوش دیکھنے لگا، شاید پانچ ہی منٹ بعد ایک
ٹیکسی ٹھیک اسی گلی کے دہانے پر رکی اور ایک معمر آدمی اتر کر کرایہ
چکانے لگا۔ اس کے چہرے پر بھورے رنگ کی ڈاڑھی تھی۔
لیکن عمران اس کی پیشانی کی بناوٹ دیکھ کر چونکا۔ شکل بھی جانی پہچانی
معلوم ہو رہی تھی۔
جیسے ہی وہ گلی میں گھسا عمران نے بھی اپنے قدم بڑھائے۔ کئی گلیوں سے
گزرنے کے بعد بوڑھا ایک دروازے پر دستک دینے لگا! عمران کافی فاصلے پر
تھا! اور تاریکی ہو جانے کی وجہ سے دیکھ لیے جانے کا خدشہ بھی نہیں تھا،
وہ ایک دیوار سے چپک کر کھڑا ہوگیا! ادھر دروازہ کھلا اور بوڑھا کچھ
بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔ دروازہ پھر بند ہوگیا تھا۔ عمارت دو منزلہ
تھی۔ عمران کافی پیچھے تھا لیکن وہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
اندر داخل ہونے کے امکانات پر غور کرتے وہ دروازے تک پہنچ گیا۔ اور پھر
اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر دروازے سے کان لگا کر آہٹ سننا شروع کر دی
لیکن شاید اس کا ستارہ ہی گردش میں آگیا تھا دوسرے ہی لمحے دروازے کے
دونوں پٹ کھلے اور دونوں آدمی اس کے سامنے کھڑے تھے۔ اندر مدھم سی
روشنی میں ان کے چہرے تو نہ دکھائی دئیے لیکن وہ کافمی مضبوط ہاتھ پیر
کے معلوم ہوتے تھے۔
" کون ہے؟"۔ ان میں سے ایک تحکمانہ لہجے میں بولا۔
" مجھے دیر تو نہیں ہوئی"۔ عمران تڑ سے بولا۔
دوسری طرف سے فوراَ ہی جواب نہیں ملا۔ غالباَ یہ سکوت ہچکچاہٹ کا ایک
وقفہ تھا۔
" تم کون ہو"۔ دوسری طرف سے سوال پھر دہرایا گیا۔
" تین سو تیرہ"۔ عمران نے احمقوں کی طرح بک دیا۔ لیکن دوسرے لمحے اسے
دھیان نہیں تھا! اچانک اسے گریبان سے پکڑ کر اندر کھنچ لیا گیا۔ عمران
نے مزاحمت نہیں کی۔
" اب بتاؤ تم کون ہو؟"۔ ایک نے اسے دھکا دے کر کہا۔
" اندر لے چلو"۔ دوسرا بولا۔
وہ دونوں اسے دھکے دیتے ہوئے کمرے میں لے آئے۔ یہاں سات آدمی ایک میز
کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بوڑھا جس کا تعاقب کرتے ہوئے عمران یہاں
تک پہنچا تھا شاید سردار کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ وہ میز کے آخری سرے
پر تھا۔
وہ سب عمران کو دیکھنے لگے۔ لیکن عمران دونوں آدمیوں کے درمیان میں
کھڑا چمڑے کی جیکٹ والے آدمی کو گھور رہا تھا۔
" آہا!"۔ یکایک عمران نے قہقہہ لگایا اور اپنے گول گول دیدے پھرا کر
اسے کہنے لگا۔" میں تمیں کبھی نہیں معاف کروں گا۔ تم نے میری محبوبہ کی
زندگی برباد کر دی!"۔
" کون ہو تم میں تمھیں نہیں پہچانتا"۔ اس نے تحیر آمیز لہجے میں کہا۔
" لیکن میں تمھیں اچھی طرح پہچانتا ہوں! تم نے میری محبوبہ پر ڈورے
ڈالے ہیں۔ میں نہیں بولا! تم نے ایک رات اس کے ساتھ بسر کی میں پھر
خاموش رہا لیکن میں اسے کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا کہ تم اس سے ملنا
جلنا چھوڑ دو"۔
" تم یہاں کیوں آئے ہو؟"۔ دفعتہَ اب بوڑھے نے سوال کیا اور ان دونوں کی
گھورنے لگا جو عمران کو لائے تھے۔ انہوں نے سب کچھ بتا دیا۔ اس دوران
عمران برابر اپنے مخاطب کو گھورتا رہا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے
دوسرے لوگوں سے اسے کوئی سروکار نہیں۔
پھر اچانک کسی کا گھونسا عمران کے جبڑے پر پڑا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا کئی
قدم پیچھے کھسک گیا! اس نے جھک کر اپنی فلٹ ہیٹ اٹھائی اور اسے اس طرح
جھاڑنے لگا جیسے وہ اتفاقاَ اس کے سر سے گِر گئی ہو۔ وہ اب بھی جیکٹ
والے کو گھورے جارہا تھا۔
" میں کسی عشقیہ ناول کے سعادت مند رقیب کی طرح تمھارے حق میں دستبردار
ہوسکتا ہوں!" عمران نے کہا۔
" بکواس مت کرو"۔ بوڑھا چیخا۔" میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں! کیا اس
رات کو تم ہی وہاں تھے؟"۔
عمران نے اس کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔
" یہ زندہ بچ کر نہ جانے پائے"۔ بوڑھا کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
" مگر شرط یہ ہے"۔ عمران مسکرا کر بولا۔" میت کی بےحرمتی نہ ہونے پائے"۔
اس کے حماقت خیز اطمینان میں ذرہ بھر بھی فرق نہ ہونے پایا تھا۔۔۔ تین
چار آدمی اس کی طرف لپکے۔ عمران دوسرے ہی لمحے ڈپٹ کر بولا۔" ہینڈز اپ"۔
ساتھ ہی اس کا ہاتھ جیب سے نکلا۔ اس کی طرف جھپٹنے والے پہلے تو جھجکے
لیکن پھر انہوں نے بےتحاشہ ہنسنا شروع کر دیا۔ عمران کے ہاتھ میں
ریوالور کی بجائے ربڑ کی ایک گڑیا تھی۔ پھر بوڑھے کی ایک گرج دار آواز
نے انہیں خاموش کر دیا اور وہ پھر عمران کی طرف بڑھے۔ جیسے ہی اس کے
قریب پہنچے عمران نے گڑیا کا پیٹ دبا دیا اس کا منہ کھلا اور پیلے رنگ
کا گہرا غبارہ اس میں سے نکل کر تین چار فٹ کے دائرے میں پھیل گیا۔۔۔۔۔
وہ چاروں بےتحاشہ کھانستے ہوئے وہیں ڈھیر ہوگئے۔
" جانے نہ پائے"۔ بوڑھا پھر چیخا۔
دوسر لمحے میں عمران نے کافی وزنی چیز الیکٹرک لیمپ پر کھینچ ماری۔۔
اور زوردار آواز کے ساتھ بلب پھٹا اور کمرے میں اندھیرا پھیل گیا۔
عمران اپنی ناک پر رومال رکھے ہوئے دیوار کے سہارے میز کی سرے کی طرف
کھسک رہا تھا، کمرے میں اچھا خاصہ ہنگامہ بھرپا ہوگیا تھا۔ شاید وہ
اندھیرے میں ایک دوسرے پر گھونسہ بازی کی مشک کرنے لگے تھے، عمران کا
ہاتھ آہستہ سے میز کے سرے پر رینگ گیا اور اسے ناکامی نہیں ہوئی جس چیز
پر شروع سے ہی اس کی نظر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ آچکی تھی۔ یہ بوڑھے کا
چرمی ہینڈ بیگ تھا۔
واپسی میں کسی نے کمرے کے دروازے پر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش
کی لیکن سامنے کے دو تین دانتوں کو روتا ہوا ڈھیر ہوگیا۔ عمران جلد سے
جلد کمرے سے باہر نکل جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے حلق میں بھی جلن
ہونے لگی تھی۔ گڑیا سے نکلا ہوا غبارہ پورے کمرے میں پھیل گیا تھا۔
کھانسیوں اور گالیوں کا شور پیچھے چھوڑتا ہوا وہ بیرونی دروازے تک پہنچ
گیا۔ گلی میں نکلتے ہی قریب کی ایک دوسری گلی میں گھس گیا۔ فی الحال
سڑک پر نکلنا خطرناک تھا۔ وہ کافی دیر گھومتا ہوا گلی سے ایک دوسری سڑک
پر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹیکسی میں بیٹھا اس طرح اپنے ہونٹ رگڑ رہا
تھا جیسے سچ مچ اپنی محبوبہ سے ملنے کے بعد لپ سٹک کے نشان چھڑا رہا ہو۔
دوسری صبح کیپٹن فیاض کے لیے ایک دوسرے درد سری لے کر آئی۔ حالات ہی
ایسے تھے کے براہِ راست اسے ہی اس معاملے میں الجھنا پڑا۔ ورنہ پہلے تو
معاملہ سول پولیس کے ہاتھ میں جاتا۔ بات یہ تھی کہ اس خوفناک عمارت کے
قریباَ ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ایک نوجوان کی لاش پائی گئی۔ جس
کے جسم پر کتھئ پتلون اور چمڑے کی جیکٹ تھی۔ کیپٹن فیاض نے عمران کی
ہدایت کے مطابق پچھلی رات کو پھر عمارت کی نگرانی کے لیے کانسٹبیلوں کا
ایک دستہ تعینات کروادیا۔ ان کی رپورٹ تھی کہ اس رات عمارت کے قریب
کوئی نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے قرب و جوار میں کسی کی آواز سنی لیکن
پھر بھی عمارت سے تھوڑے فاصلے پر صبح کو ایک لاش پائی گئی۔
جب کیپٹن فیاض کو لاش کی اطلاع ملی تو اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ
عمران نے عمارت کے آس پاس مسلح پہرہ بٹھانے کی تجویز کیوں پیش کی؟
اس نے وہاں پہنچ کر لاش کا معائنہ کیا۔ کسی نے مقتول کی داہنی کن پٹی
پر گولی ماری تھی۔ کانسٹیبلوں نے بتایا کہ انہوں نے پچھلی رات گولیوں
کی آواز بھی نہیں سنی تھی۔
کیپٹن فیاض وہاں سے بوکھلایا ہوا عمران کی طرف چل دیا۔ اسکی طبعیت بری
طرح جھلائی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران نے کوئی ڈھنگ کی بات
بتانے کی بجائے میر و غالب کے اوٹ پٹانگ شعر سنانا شروع کر دئیے تو کیا
ہوگا۔ بعض اوقات اس کی بےتکی باتوں پر اس کا دل چاہتا تھا کہ اسے گولی
مار دے پر اس کی شہرت کا کیا ہوتا۔ اس کی ساری شہرت عمران کے دم سے تھی
اور وہ اس کے لیے کئی پیچیدہ مسائل سلجھا چکا تھا۔ بہرحال کام عمران
کرتا تھا اور اخبارات میں نام فیاض کا آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے
عمران کا سب کچھ برداشت کرنا پڑتا تھا۔
عمران اسے گھر پر ہی مل گیا!۔۔۔لیکن عجیب حالت میں۔۔۔۔ وہ اپنے نوکر
سلیمان کے سر پر کنگھا کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ کسی دوراندیش
ماں کے سے انداز میں اسے نصحیتیں بھی کئے جا رہا تھا۔ جیسے ہی فیاض
کمرے میں داخل ہوا۔ عمران نے سلیمان کی پیٹھ پر گھونسا جھاڑ کر کہ۔"
ابے تو نے بتایا نہیں کہ صبح ہوگئی"۔
سلیمان ہنستا ہوا بھاگ گیا۔
" عمران تم آدمی کب بنو گے"۔ فیاض ایک صوفے پرگِرتا ہوا بولا۔
" آدمی بننے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔۔۔ البتہ میں تھانےدار
بننا ضرور پسند کروں گا"۔
" میری طرف سے جہنم میں جانا پسند کرو لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے پچھلی رات
اس عمارت پر پہرہ کیوں لگوایا تھا؟"۔
" مجھے کچھ یاد نہیں"۔ عمران مایوسی سے سر ہلا کر بولا۔" کیا واقعی میں
نے ایسی کوئی حرکت کی تھی؟"۔
" عمران"۔ فیاض بگڑ کر بولا۔" اگر میں آئیندہ تم سے کوئی مدد لوں تو
مجھ پر ہزار بار لعنت"۔
" ہزار کم ہیں"۔ عمران سنجیدگی سے بولا۔" کچھ اور بڑھاؤ تو میں کچھ غور
کرنے کی کوشش کروں گا"۔ فیاض کی قوتِ برداشت جواب دے گئی اور وہ گرج کر
بولا۔
" جانتے ہو، وہاں صبح ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک لاش ملی ہے"۔
" ارے توبہ"۔ عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
کیپٹن فیاض کہتا رہا۔" تم مجھے اندھیرے میں رکھ کر نہ جانے کیا کرنا
چاہتے ہو۔ حالات اگر اور بگڑے تو مجھے ہی سنبھالنے پڑیں گے لیکن کتنی
پریشانی ہوگی۔ کسی نے اس کی داہنی کن پٹی پر گولی مار دی ہے، میں نہیں
سمجھ سکتا کہ یہ حرکت کس کی ہے"۔
" عمران کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے!"۔ عمران بڑبڑایا پھر سنجیدگی
سے پوچھا۔" پہرہ تھا وہاں؟"۔
" تھا۔۔۔۔ میں نے رات ہی میں یہ کام کیا تھا"۔
" پہرے والوں کی رپورٹ؟"۔
" کچھ بھی نہیں! انہوں نے فائر کی آواز بھی نہیں سنی"۔
" میں یہ نہیں پوچھ رہا۔۔ کیا کل بھی کسی نے عمارت میں داخل ہونے کی
کوشش کی تھی"۔
" نہیں۔۔۔ لیکن میں اس لاش کی بات کر رہا ہوں"۔
" کئے جاؤ۔ میں تمھیں نہیں روکتا۔ لیکن میرے سوالات کے جوابات بھی دئیے
جاؤ۔ قبر کے مجاور کی کیا خبر ہے!۔۔۔ وہ اب بھی وہیں موجود ہے کہ غائب
ہوگیا!"۔
|
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|