|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010
|
خوفناک عمارت
باب
نہم |
تحریر۔۔۔------------
ابن صفی |
عمران
خدا کے لیے تنگ نہ کرو"۔
" اچھا تو علی عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتا"۔
" تم آخر اس خبطی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو"۔
" خیر جانے دو۔ اب مجھے اس کے متعلق کچھ اور بتاؤ"۔
" کیا بتاؤں!۔۔۔ بتا تو چکا۔۔۔ صورت سے بُرا آدمی نہیں معلوم ہوتا
خوبصورت اور قدآور، جسم پر چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی رنگ کی پتلون!"۔
" کیا؟"۔ عمران چونک پڑا۔ اور چند لمحے اپنے ہونٹ سیٹی بجانے والے
انداز میں سکوڑے فیاض کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق۔۔۔۔ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی
بندہ نواز
" کیا بکواس ہے!"۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔" اول تو تمھیں اشعار ٹھیک یاد
نہیں پھر یہاں کہنے کا موقعہ کب تھا۔۔۔ عمران میرا بس چلے تو میں تمھیں
گولی ماردوں"۔
" کیوں شعر میں کیا غلطی ہے؟"۔
" مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں لیکن مجھے دونوں مصرعے بےربط معلوم ہوتے
ہیں۔ لا حول ولا قوہ میں بھی انہیں لغویات میں الجھ گیا۔ خدا کے لیے
کام کی باتیں کرو۔ تم نہ جانے کیا کر رہے ہو!"۔
" میں آج رات کو کام کی بات کروں گا اور تم میرے ساتھ ہوگے لیکن ایک
سیکنڈ کے لیے بھی وہاں سے پہرہ نہ ہٹایا جائے۔ تمھارا ایک آدمی پر وقت
مجاور کے کمرے میں موجود ہونا چاہئے۔بس اب جاؤ!۔۔۔ میں چائے پی چکا ہوں
ورنہ تمھاری کافی مدارت کرتا۔ ہاں محبوبہ کو ایک پیغام پینچا دینا کہ
رقیب رو سیاہ کا صفایا ہوگیا! باقی سب خیریت ہے!"۔
" عمران میں آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا! تمھیں ابھی اور اسی وقت سب
کچھ بتانا پڑے گا"۔
" اچھا تو سنو۔۔۔ لیڈی جہانگیز بیوہ ہونے والی ہے!۔۔۔ اس کے بعد تم
کوشش کرو گے کہ میری شادی اس کے ساتھ ہوجائے۔۔۔ کیا سمجھے؟"۔
" عمران!"۔ فیاض یک بیک مار بیٹھنے کے انداز میں سنجیدہ ہوگیا۔
" یس باس"۔
" بکواس بند کرو۔ میں ابھی تمھاری زندگی تلخ کردوں گا"۔
" بھلا وہ کس طرح سوپر فیاض؟"
" نہایت آسانی ہے!"۔ فیاض سگریٹ لگا کر بولا۔" تمھارے گھر والوں کو شبہ
ہے کہ تم سارا وقت آوارگی اور عیاشی میں گزارتے ہو! لیکن کسی کے پاس اس
کا ٹھوس ثبوت نہیں۔۔۔ میں ثبوت مہیا کر دونگا۔ ایک ایسی عورت کا انتظام
کر لینا میرے لیے مشکل نہ ہوگا جو براہِراست تمھاری اماں بی بی کے پاس
پہنچ کر اپنے لٹنے کی داستان بیان کردے"۔
" اوہ"۔ عمران نے تشویش آمیز انداز میں اپنے ہونٹ سکوڑ لیے پھر آہستہ
سے بولا۔
" اماں بی بی کی جوتیاں آل پروف ہیں۔ خیر سوپر فیاض یہ بھی کر کے دیکھ
لو تم مجھے ایک صابر اور شاکر فرزند پاؤگے!۔۔ لو چیونگم سے شوق کرو"۔
" اس گھر میں ٹھکانہ نہیں ہوگا تمھارا۔۔۔۔"۔ فیاض بولا۔
" تمھارا گھر تو موجود ہی ہے"۔ عمران بولا۔
" تو تم نہیں بتاؤ گے"۔
" ظاہر ہے"۔
" اچھا! تو اب تم ان معاملات میں دخل نہیں دوگے میں خود ہی دیکھ لونگا"۔
فیاض اٹھتے ہوئے خشک لہجے میں بولا۔" اور اگر تم اس کے بعد بھی اپنی
ٹانگ اڑاتے رہے تو میں تمھیں قانونی گرفت میں لے لونگا"۔
" یہ گرفت ٹانگوں میں ہوگی یا گردن میں!"۔ عمران نے سنجیدگی سے پوچھا۔
چند لمحے فیاض کو گھورتا رہا پھر بولا۔" ٹھہرو!"۔ فیاض رُک کر اسے
بےبسی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔ عمران نے الماری کھول کر وہی چرمی بیگ نکالا
جسے وہ کچھ نامعلوم افراد کے درمیان سے پچھلی رات کو اُڑا لایا تھا۔ اس
نے ہینڈ بیگ کھول کر چند کاغذات نکالے اور فیاض کی طرف بڑھا دئیے۔ فیاض
نے جیسے ہی ایک کاغذ کی تہہ کھولی بے اختیار اچھل پڑا۔۔۔۔ اب وہ دوسرے
کاغذات پر بھی نظریں دوڑا رہا تھا۔
" یہ تمھیں کہاں سے ملے؟"۔ فیاض تقریباَ ہانپتا ہوا بولا۔ شدتِ جوش سے
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
" ایک ردی فروش کی دکان پر۔۔۔ بڑی دشواری سے ملے ہیں دو آنہ سیر کے
حساب سے"۔
" عمران خدا کےلیے"۔ فیاض تھوک نگل کر بولا۔
" کیا کر سکتا ہے بےچارہ عمران!"۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔" وہ اپنی
ٹانگیں اڑانے لگا تو تم اسے اپنی قانونی گرفت میں لے لو گے"۔
" پیارے عمران! خدا کے لیے سنجیدہ ہوجاؤ"۔
" اتنا سنجیدہ ہوں کہ تم مجھے بی پی کی ٹافیاں کھلا سکتے ہو"
" یہ کاغذات تمھیں کہاں سے ملے ہیں؟"۔
" سڑک پر پڑے ہوئے ملے تھے اور اب میں نے انہیں قانون کے ہاتھوں میں
پہنچا دیا۔ قانون کا کام ہے کہ وہ ایسے ہاتھ تلاش کرے جن میں ہتھکڑیاں
لگا سکے"۔
فیاض بے بسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
" لیکن اسے سن لو"۔ عمران قہقہہ لگا کر بولا۔" قانون کے فرشتے بھی ان
لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے"۔
" اچھا تو یہی بتا دو کہ ان معاملات سے ان کاغذات کا کیا تعلق؟"۔ فیاض
نے پوچھا۔
" یہ تمھیں معلوم ہونا چاہئے"۔ عمران دفعتہَ سنجیدہ ہوگیا۔" اتنا میں
جانتا ہوں کہ یہ کاغذات فارن آفس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا اُن
بدمعاشوں کے پاس ہونا کیا معنی رکھتا ہے"۔ عمران بولا۔
" کن بدمعاشوں کے پاس؟"۔ فیاض چونک کر بولا۔
" وہی۔۔۔ اس عمارت میں"۔
" میرے خدا!"۔۔۔۔ فیاض مضطربانہ انداز میں بڑبڑایا۔ “لیکن تمھارے ہاتھ
کس طرح لگے"۔
عمران نے پچھلی رات کے واقعات دہرا دیئے! اس دوران فیاض بےچینی سے سنتا
رہا، کبھی کبھی وہ رک کر عمران کو گھورنے لگتا! عمران اپنی بات ختم کر
چکا تو اس نے کہا۔
" افسوس۔۔۔ تم نے بہت برا کیا۔۔۔ تم نے مجھے کل یہ اطلاع کیوں نہیں دی"۔
" تو اب دے رہا ہوں اطلاع۔ اس مکان کا پتہ بھی بتادیا جو کچھ بن پڑے کر
لو"۔ عمران نے کہا۔
" اب کیا وہاں خاک پھانکنے جاؤں"۔
" ہاں ہاں کیا حرج ہے"۔
" جانتے ہو یہ کاغذات کیسے ہیں"۔ فیاض نے کہا۔
" اچھے خاصے ہیں۔ ردی کے بھاؤ بک سکتے ہیں"۔
" اچھا تو میں چلا!"۔ فیاض کاغذ سمیٹ کر چرمی جیکٹ میں رکھتا ہوا بولا۔
" کیا انہیں اس طرح لے جاؤ گے!"۔ عمران نے کہا۔" نہیں ایسا نہ کرو کہ
مجھے تمہارے قاتلوں کا بھی سراغ لگانا پڑے"۔
" کیوں؟"۔
" فون کر کے پولیس کی گاڑی منگواؤ"۔ عمران ہنس کر بولا۔" کل رات سے وہ
لوگ اس کی تلاش میں ہیں۔ میں رات بھر گھر سے باہر ہی رہا تھا۔ میرا
خیال ہے کہ اس وقت مکان کی نگرانی ہو رہی ہوگی! خیر اب تم مجھے بتا
سکتے ہو کہ کاغذات کیسے ہیں"۔
فیاض پھر بیٹھ گیا۔ اب وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔ تھوڑی
دیر بعد اس نے کہا۔
" سات سال پہلے ان کاغذات پر ڈاکہ پڑا تھا۔ لیکن ان میں سب نہیں ہیں۔
فارن آفس کا ایک افسر انہیں لے کر سفر کر رہا تھا۔۔۔۔ یہ نہیں بتا سکتا
کہ وہ کہاں اور کس مقصد سے جا رہا تھا کیونکہ یہ حکومت کا راز ہے۔۔۔
آفیسر ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کی لاش مل گئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ سکرٹ
سروس کا ایک آدمی بھی تھا، اس کے متعلق آج تک نہ معلوم ہو سکا۔۔۔۔ شاید
وہ بھی مار ڈالا گیا ہو۔۔۔۔ لیکن اس کی لاش نہیں ملی"۔
" آہا۔۔۔ تب تو یہ بہت بڑا کھیل ہے۔۔"۔ عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔"
لیکن میں جلد ہی اسے ختم کرنے کی کوشش کرونگا"۔
" تم اب کیا کرو گے؟"۔
" ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا!"۔ عمران نے کہا۔" اور سنو ان کاغذات
کو ابھی اپنے پاس ہی دبائے رہو اور ہینڈ بیگ میرے پاس رہنے دو۔ مگر
نہیں اسے بھی لے جاؤ!۔۔۔ میرے ذہن میں کئی تدبیریں ہیں! اور ہاں۔۔۔ اس
عمارت کے گرد دن رات پہرہ رہنا چاہئے"۔
" آخر کیوں؟"۔
" وہاں تمھارا مقبرہ بنواؤنگا"۔ عمران جھنجھلا کر بولا۔
فیاض اُٹھ کر پولیس کی کار منگوانے کے لیے فون کرنے لگا۔
اسی رات کو عمران بوکھلایا ہوا فیاض کے گھر پہنچا۔ فیاض سونے کی تیاری
کر رہا تھا۔ ایسے موقع پر اگر عمران کے بجائے کوئی اور ہوتا تو وہ بڑی
بداخلاقی سے پیش آتا۔ لیکن عمران کا معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ اس کی
بدولت آج اس کے ہاتھ ایسے کاغذات لگے تھے جن کی تلاش میں عرصے سے محکمہ
سراغرسانی سر مار رہا تھا۔ فیاض نے اسے اپنے سونے کے کمرے میں بلوایا۔
" کیا بات ہے۔۔۔ کہو؟"۔
عمران ٹھنڈی سانس کے کر بولا۔" کیا تم کبھی کبھی میری قبر پر آیا کرو
گے؟"۔
فیاض کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر سچ مچ اس کو قبر
تک جانے کا موقع مہیا کرے! وہ کچھ کہنے کی بجائے عمران کو گھورتا رہا۔
" آہ! تم خاموش ہو!"۔ عمران کسی ناکام عاشق کی طرح بولا۔" میں سمجھا!
تمھیں شاید کسی اور سے پریم ہوگیا ہے۔"
" عمران کے بچے"۔
" رحمان کے بچے!"۔ عمران نے جلدی سے تصحیح کی۔
" تم کیا میری زندگی تلخ کیے ہوئے ہو"۔
" اوہو! کیا تمھاری مادہ دوسرے کمرے میں سوئی ہوئی ہے"۔ عمران چاروں
طرف دیکھتا ہوا بولا۔
" بکواس مت کرو۔۔۔ اس وقت کیوں آئے ہو"۔
" ایک عشقیہ خط دکھانے کے لیے"۔ عمران جیب سے لفافہ نکالتے ہوئے بولا۔
فیاض نے اس کے ہاتھ سے خط لے کر جھلاہٹ میں پھاڑنا چاہا۔
" ہاں، ہاں!"۔ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔" ارے پہلے پڑھو تو
میری جان مزہ نہ آئے تو محصول ڈاک بذمہ خریدار"۔
فیاض نے طوعاً و کرہاً خط نکالا۔۔۔۔ اور پھر جیسے ہی اس کی نظریں اس پر
پڑیں۔ بیزاری کی ساری علامتیں غائب ہوگئیں اور اس کی جگہ استعجاب نے
لےلی۔ خط ٹائپ کیا ہوا تھا۔
" عمران !۔۔۔ اگر وہ چرمی ہینڈ بیگ یا اس کے اندر کی کوئی چیز پولیس تک
پہنچی تو تمھاری شامت آجائے گی! اسے واپس کر دو۔۔۔ بہتری اسی میں ہے
ورنہ کہیں۔۔۔ کسی جگہ موت سے ملاقات ضرور ہوگی۔ آج رات کو گیارہ بجے
ریس کورس کے قریب ملو، ہینڈ بیگ تمھارے ساتھ ہونا چاہیے! اکیلے ہی آنا!
ورنہ اگر تم پانچ ہزار آدمی بھی ساتھ لاؤ گے تو تب بھی گولی تمھارے ہی
سینے میں پڑے گی"۔
فیاض خط پڑھ چکنے کے بعد عمران کی طرف دیکھنے لگا۔
" لاؤ۔۔۔۔ اسے واپس کردو"۔ عمران نے کہا۔
" پاگل ہوگئے ہو"۔
"ہاں"۔
" تم ڈر گئے"۔ فیاض ہنسنے لگا۔
" ہارٹ فیل ہوتے ہوتے بچا ہے"۔ عمران ناک کے بل بولا۔
" ریوالور ہے تمھارے پاس؟"۔
" ریوالور!"۔ عمران اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہوئے بولا۔" ارے
باپ رے"۔
" بس کرو"۔ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔" اس میں آواز بھی ہوتی ہے
اور دھواں بھی نکلتا ہے! میرا دل بہت کمزور ہے! لاؤ ہینڈ بیگ واپس کردو"۔
" کیا بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو"۔
" اچھا تو تم نہیں دوگے"۔ عمران آنکھیں نکال کر بولا۔
" فضول مت بکو مجھے نیند آرہی ہے"۔
" ارے او۔۔۔ فیاض صاحب! ابھی میری شادی نہیں ہوئی اور میں باپ بنے بغیر
مرنا پسند نہیں کرونگا"۔
" ہینڈ بیگ تمھارے والد کے آفس میں بھیج دیا گیا ہے"۔
" تب انہیں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر آنسو بہانے پڑیں گے! کنفیوشش نے
کہا تھا"۔
" جاؤ یار خدا کے لیے سونے دو"۔
" گیارہ بجنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں"۔ عمران گھڑی کی طرف دیکھتا
ہوا بولا۔
" اچھا! چلو تم بھی یہیں سو جاؤ"۔ فیاض نے بےبسی سے کہا۔
کچھ دیر خاموشی ہی رہی پھر عمران نے کہا۔" کیا اس عمارت کے گرد اب بھی
پہرہ ہے؟"۔
" ہاں!۔۔۔۔ کچھ اور آدمی بڑھا دیئے گئے ہیں لیکن آخر تم یہ سب کیوں کر
رہے ہو۔ آفیسر مجھ سے اس کا سبب پوچھتے رہتے ہیں اور میں ٹالتا رہتا
ہوں"۔
" اچھا تو اٹھو! یہ کھیل بھی اسی وقت ختم کر دیں! تیس منٹ میں ہم وہاں
پہنچیں گے باقی بچے بیس منٹ! گیارہ سوا گیارہ بجے تک سب کچھ ہوجانا
چاہئے"۔
" کیا ہونا چاہئے؟"۔
" ساڑھے گیارہ بجے بتاؤں گا۔۔۔! اٹھو!۔۔ میں اس وقت عالمِ تصور میں
تمھارا عہدہ بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں"۔
" آخر کیوں؟ کوئی خاص بات؟"۔
" علی عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی۔ کبھی کوئی عام بات نہیں کرتا۔ سمجھے
ناؤ گٹ اپ!"۔
فیاض نے طوعاً و کرہاً لباس تبدیل کیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل بڑی تیزی سے اس دیہی علاقے کی طرف جا
رہی تھی جہاں وہ عمارت تھی! عمارت کے قریب پہنچ کر عمران نے فیاض سے
کہا۔
" تمھیں صرف اتنا کرنا ہے کہ تم اس وقت تک قبر کے مجاور کو باتوں میں
الجھائے رکھو جب تک میں واپس نہ آجاؤں۔ سمجھے! اس کے کمرے میں جاؤ ایک
سیکنڈ کے لیے بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑنا"۔
عمارت کے گرد مسلح پہرہ تھا۔۔۔! دستے کے انچارج نے فیاض کو پہچان کر
سلیوٹ کیا۔ فیاضنے اس سے چند سرکاری قسم کی رسمی باتیں کیں اور سیدھا
مجاور کے حجرے کی طرف چلا گیا اس کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور اندر
مجاور غالباً مراقبے کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا فیاض کی آہٹ پر اس نے
آنکھیں کھول دیں جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔
"کیا ہے؟“ اس نے جھلائے ہوئے لہجہ میں کہا ۔۔
" کچھ نہیں میں دیکھنے آیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں "فیاض بولا۔
" میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے انہی گدھوں کی طرح
پولیس بھی دیوانی ہو گئی ہے"۔
"کن گدھوں کی طرح"۔
" وہ ہی جو سمجھتے ہیں شہید مرد کی قبر میں خزانہ ہے۔"
" کچھ بھی ہو" فیاض بولا " ہم نہیں چاہتے کہ یہاں سے روزانہ لاشیں بر
آمد ہوں اگر ضرورت سمجھی تو قبر کھدوائی جائے گی۔۔۔"
" بھسم ہو جاﷺگے " مجاور گرج کر بولا " خون تھوکوگے ۔۔۔۔ مروگے۔۔"
" کیا سچ مچ اس میں خزانہ ہے۔۔"
اس پر مجاور پھر گرجنے برسنے لگا۔!۔۔فیاض بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا
جا رہا تھا عمران کو گئے پندرہ منٹ ہو چکے تھے ۔۔ وہ مجاور کو باتوں
میں الجھائے رہا !۔۔۔۔اچانک ایک عجیب قسم کی آواز آئی ! مجاور اچھل کر
مڑا ۔۔ اس کی پشت کی طرف دیوار میں ایک بڑا سا خلا نظر آرہا تھا !۔۔۔فیاض
بوکھلا کر کھڑا ہو گیا وہ سوچ رہا تھا کہ یک بیک دیوار کو کیا ہو
گیا۔۔۔وہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس کمرے میں آیا تھا لیکن اسے بھول کر
بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہاں کوئی چور دروازہ بھی ہو سکتا ہے ۔۔مجاور
چیخ مار کر اس دروازے میں گھستا چلا گیا ! ۔۔ فیاض بری طرح بوکھلا گیا
تھا ۔۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور پھر وہ بھی اس دروازے میں داخل ہو
گیا! ۔۔۔ یہاں چاروں طرف اندھیرا تھا ۔۔ شاید کسی تہ خانے میں چل رہا
تھا ۔۔ کچھ دور چلنے کے بعد سیڑھیاں نظر آئیں۔۔۔۔یہاں قبرستان کی طرح
خاموشی تھی !۔۔۔۔اور جب وہ اوپر پہنچا تو اس نے خود کو مرشد مرد کی قبر
سے برآمد ہوتے پایا جس کا تعویذ کسی صندوق کے ڈھکن کی طرح سیدھا اٹھا
ہوا تھا۔۔۔
ٹارچ کی روشنی کا داءرہ صحن میں چاروں طرف گردش کر رہا تھا ۔۔ پھر فیاض
نے مجاور کو کمرے سے نکلتے دیکھا۔۔۔
" تم لوگوں نے مجھے برباد کر دیا" وہ فیاض کو دیکھ کر چیخا " آؤ اپنے
کرتوت دیکھ لو" ۔۔ وہ کمرے میں گھس گیا ۔۔فیاض تیزی سے اس کی طرف جھپٹا۔۔
ٹارچ کی روشنی دیوار پر پڑی ۔۔ یہاں کا بہت سا پلاسٹر ادھڑا ہوا تھا
اور اسی جگہ پانچ پانچ انچ کے فاصلے پر تین بڑی پھیریاں نصب تھیں ۔۔فیاض
آگے بڑھا! ادھڑے ہوئے پلاسٹر کے پیچھے ایک بڑا سا خانہ تھا-ان چھریوں
کے دوسرے سرے اسی میں غائب ہوگئے تھے۔اب چھریوں کے علاوہ اس خانہ میں
اور کچھ نہیں تھا-
مجاور قہر آلود نظروں سے فیاض کو گھور رہاتھا!-
“ یہ سب کیا ہے “فیاض مجاور کو گھور کر بولا-
مجاور نے اس ظرح کھنکار کر گلا صاف کیا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو- لیکن
خلاف توقع اس نے فیاض کے سینے پر زوردار ٹکر ماری اور اچھل کر بھاگا!-
فیاض چاروں شانے چت گر گیا- لیکن سنبھلنے سے پہلے اس کا دایاں ہاتھ
۔۔ہولسٹر سے ریوالور نکال چکا تھا-لیکن بے کار مجاور قبر میں چھلانگ
لگا چکا تھا-
فیاض اٹھ کر قبر کی طرف بھاگا-لیکن مجاور کے کمرے میں پہنچ کر بھی اس
کا نشان نہ ملا۔۔وہ کمرے سے باہر نکل آیا- ڈیوٹی کانسٹیبل بدستور اپنی
جگہوں پر موجود تھے-انہوں نے کسی بھاگتے ہوئے آدمی کے متعلق لا علمی
ظاہر کی - ان کا خیال تھا کہ عمارت کے باہر کوئی نکلا ہی نہیں -
آخر اسے عمران کا خیال آیا- وہ کہاں گیا تھا- کہیں یہ اس کی حرکت نہ
ہو- اس خفیہ خانے میں کیا چیز تھی- اب سارے معاملات فیاض کے ذہن میں
صاف ہو گئے تھے- لاش کا راز، تین زخم جن کا درمیانی فاصلہ پانچ پانچ
انچ تھا! دفعتاً کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا- فیاض چونک کر مڑا-
عمران کھڑا بری طرح منہ بسور رہا تھا-
“ تو یہ تم تھے-“ فیاض اسے نیچے سے اوپر گھورتا ہو بولا-
“ میں تھا نہیں ابھی ہوں - توقع ہے کہ ابھی دو چار دن تک زندہ رہوں
گا“-
“ وہاں سے کیا نکالا تم نے۔“
“ چوٹ ہوگئی پیارے فرماؤ“ عمران بھرائی ہوئی آواز میں بولا- “وہ مجھ سے
پہلے ہی ہاتھ صاف کر گئے- میں نے تو بعد میں زرا اس خفیہ خانے کے
میکینزم پر غور کرنا چاہا تھا کہ ایک کھٹکے کو ہاتھ لگاتے ہی قبر تڑخ
گئی-!“
“ لیکن وہاں تھا کیا؟“
“ وہ بقیہ کاغذات جو اس چرمی ہینڈ بیگ میں نہیں تھے“ -
“کیا“ ارے او احمق پہلے کیوں نہیں بتایا- فیاض اپنی پیشانی پر ہاتھ مار
کر بولا-“ لیکن وہ اندر گھسے کس طرح ۔“
“ آؤ دکھاؤں “ عمران ایک طرٍف بڑھتا ہوا بولا- وہ فیاض کو عمارت کے
مغربی گوشے کی سمت لایا!یہاں دیوار سے ملی ہوئی قد آدم جھاڑیاں تھیں
-عمران نے جھاڑیاں ہٹا کر ٹارچ روشن کی -فیاض کا منہ حیرت سے کھلا کا
کھلا رہ گیا-دیوار میں اتنی بڑی نقب تھی کہ ایک آدمی بیٹھ کرباآسانی اس
سے گذر سکتا تھا۔
"یہ تو بہت برا ہوا۔" فیاض بڑبڑایا۔
"اور وہ پہنچا ہوا فقیر کہاں ہے؟"
"وہ بھی نکل گیا! لیکن تم کس طرح اندر پہنچے تھے۔"
"اسی راستے سے! آج ہی مجھے ان جھاڑیوں کا خیال آیا تھا۔"
"اب کیا کرو گے بقیہ کاغذات!" فیاض نے بے بسی سے کہا۔
"بقیہ کاغذات بھی انہیں واپس کردوں گا۔ بھلا آدھے کاغذات کس کام کے۔ جس
کے پاس رہیں، پورے رہیں۔ اس کے بعد میں باقی زندگی گذارنے کے لئے قبر
اپنے نام الاٹ کرالوں گا۔"
عمران کےکمرے میں فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی تھی۔ وہ قریب ہی
بیٹھا ہوا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گھنٹی کی طرف دھیان تک نہ کیا
پھر آخر گھنٹی جب بجتی ہی چلی گئی تو وہ کتاب میز پر پٹخ کر اپنے نوکر
سلیمان کو پکارنے لگا۔
"جی سرکار!" سلیمان کمرے میں داخل ہوکربولا۔
"ابے دیکھ یہ کون الو کا پٹھا گھنٹی بجا رہا ہے۔"
"سرکار فون ہے۔"
"فون!" عمران چونک کر فون کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ "اسے اٹھا کر سڑک پر
پھینک دے۔“
سلیمان نے ریسیور اس کی طرف بڑھا دیا۔
"ہیلو!" عمران ماؤتھ پیس میں بولا۔ "ہاں ہاں عمران نہیں تو کیا
کتابھونک رہاہے۔"
"تم کل رات ریس کورس کے قریب کیوں نہیں ملے؟" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"بھاگ جاؤ گدھے۔" عمران نے ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھے بغیر سلیمان سے کہا۔
"کیا کہا!" دوسری طرف سے غراہٹ سنائی دی۔
"اوہ۔ وہ تو میں نے سلیمان سے کہا تھا!۔۔۔ میرا نوکر ہے۔۔۔ ہاں تو کیا
آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلی رات کو ریس کورس کیوں نہیں گیا۔"
"میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔"
"تو سنو میرے دوست!" عمران نے کہا۔ "میں نے اتنی محنت مفت نہیں کی۔
ہینڈ بیگ کی قیمت دس ہزار لگ چلی ہے۔ اگر تم کچھ بڑھو تو میں سودا کرنے
کو تیار ہوں۔"
"شامت آگئی ہے تمہاری۔"
"ہاں ملی تھی! مجھے بہت پسندآئی۔" عمران نے آنکھ مار کر کہا۔
"آج رات تمہارا انتظار کیا جائے گا۔ اس کے بعد کل کسی وقت تمہاری لاش
شہر کے کسی گٹر میں بہہ رہی ہوگی۔"
“ارے باپ! تم نے اچھا کیا کہ بتا دیا اب میں کفن ساتھ لئے بغیر گھر سے
باہر نہ نکلوں گا۔"
"میں پھر سمجھاتا ہوں۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"سمجھ گیا!" عمران نے بڑی سعادت مندی سے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
اس نے پھر کتاب اٹھا لی اور اسی طرح مشغول ہوگیا جیسے کوئی بات ہی نہ
ہو۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی پھر بجی عمران نے ریسیور اٹھا لیا اور جھلائی
ہوئی آواز میں بولا۔ "اب میں یہ ٹیلیفون کسی یتیم خانے کو پریزینٹ
کردوں گا سمجھے۔۔۔ میںبہت ہی مقبول آدمی ہوں۔۔۔ کیا میں نے مقبول کہا
تھا؟ مقبول نہیں مشغول آدمی ہوں۔"
"تم نے ابھی کسی رقم کی بات کی تھی۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"قلم نہیں فاؤنٹین پن!" عمران نے کہا۔
"وقت برباد مت کرو۔" دوسری طرف سے جھنجھلائی ہوئی آواز آئی۔ " ہم بھی
اس کی قیمت دس ہزار لگاتے ہیں!"
"ویری گڈ!" عمران بولا۔ "چلو یہ تو طے رہا! بیگ تمہیں مل جائے گا۔"
"آج رات کو۔"
"کیا تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو۔" عمران نے پوچھا۔
"اسی طرح جیسے پہلی انگلی دوسری انگلی کو جانتی ہو۔"
"گڈ" عمران چٹکی بجا کربولا۔ "تو تم یہ بھی جانتے ہوگے کہ میں ازلی
احمق ہوں۔"
"تم!"
"ہاں میں! ریس کورس بڑی سنسان جگہ ہے! اگر بیگ لے کر تم نے مجھے ٹھائیں
کر دیا تو میں کس سے فریاد کروں گا۔"
"ایسا نہیں ہوگا۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"میں بتاؤں! تم اپنے کسی آدمی کو روپے دے کر ٹپ ٹاپ نائٹ کل میں بھیج
دو میں مدھوبالا کی جوانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بیگ واپس کردوں
گا۔"
"اگر کوئی شرارت ہوئی تو۔"
"مجھے مرغا بنا دینا۔"
"اچھا! لیکن یہ یاد رہے کہ تم وہاں بھی ریوالور کی نال پر رہو گے۔"
"فکر نہ کرو۔ میں نے آج تک ریوالور کی شکل نہیں دیکھی۔" عمران نے
ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا۔
|
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|