اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔24-07-2010

کشمیر نہ ہمارا ہے نہ تمہارا

کالم۔۔۔------------- عفاف اظہر



بھارت کے زیر انتظام وادی کشمیر میں ہلاکتوں کے بعد ہونے والی ہڑتالوں کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں اور گزشتہ ہفتہ بھر سے کرفیو کے ذریعہ حالات کو قابو پانے کی کوششیں جا رہی ہیں.
گزشتہ ساٹھ برس سے کشمیر میں جاری آگ و خون کے اس کھیل نے کشمیری قوم کی کمر توڑکر رکھ دی ہے عالمی برادری سے کشمیر کی اس لہو لہان حالت زار پر رحم کی توقعہ کیا کی کی جائے کہ جب کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے والے کشمیر کے اپنے بھارت اور پاکستان اس کے انگ انگ پر نشتر چلا رہے ہوں . بھارت اور پاکستان کے درمیان جنت اراضی کشمیر کا گزشتہ ساٹھ برس سے ویسا ہی حال ہے جیسا کہ دو کتوں کے منہ میں یی ہوئی ہڈی کا .
ایک طرف بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے مگر کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوجیوں نے ایک عرصۂ دراز سے انسانی حقوق کی دھچیاں بکھیر رکھی ہیں .اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کو رواں آزادی کی تحریک کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہزاروں کو اپاھنج اور نو ہزار سے زائد عفت مآب بہنوں اور بیٹوں کی عصمتوں کو پامال کر دیا گیا . ہزاروں کو اذیت ناک سزایں سینکڑوں معصوم جانوں کو زندہ جلایا گیا ہزاروں کنال اراضی کو غیر غیر ریاستی اداروں اور فوجیوں کو الاٹ کر دیا گیا .اتنا ہی نہیں بلکہ کالے قوانین پبلک سیفٹی ایکٹ تارہ لاگو کر کے درندہ صفت فوج کو کشمیری عوام کے ساتھ جرائم کے ارتکاب کر قانونی سہارہ تک فراہم کر دیا گیا مشھور مؤرخ سما نترا بوس کشمیر کے بارے میں اپنی کتاب "روٹس اف کانفلیکٹ پاتھ ٹو پیس " میں لکھتے ہیں کہ اگر بھارت نے نے رتی بھر جمہوریت کشمیر میں اپنائی ہوتی تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے نہ بھارت نواز سیاسی جماتیں مرکزی حکومت سے بد ظن ہو جاتیں اور نہ کروڑوں روپے فوج کی تعیناتی پر خرچ کرنے پڑتے "
تو دوسری طرف پاکستان ہے جس نے گزشتہ باسٹھ برس سے جہاد کشمیر کا نعرہ لگاتے لگاتے جو پاس تھا مشرقی پاکستان بھی گنوا دیا مگر کشمیر جہاد کا بھوت سر سی نہ اتر سکا ، مسلۂ کشمیر کو اسلام اور کفر کی جنگ کا نام دے کر ایک عرصۂ دراز سے کشمیریوں کیا لاشوں سے اپنا کاروبار چمکا رکھا ہے آخر کار کرنا تو وہ ہی حال ہے کشمیر لے کر بھی جو اب سرحد بلوچستان سندھ اور پنجاب کر حال کر رہے ہیں . ارے ہم سے کہیں بہتر تو کشمیری وہیں پر ہیں جنہوں نے آزادی کی جنگ لڑتے ہوے بھی کبھی اپنے شہروں میں دھماکے نہیں کئے، نہ کبھی اپنے بچوں کے سکول تباہ کئے نہ مزاروں اور مساجد میں دھماکے کئے مسلمان تو ایک طرف کبھی کسی ہندو کا بھی گلہ نہیں کاٹا، نہ اپنے مفادات کی جنگ لڑنے کے لئے القاعدہ اور جہادی تنظیموں کا سہارہ لیا ، اگر خدا نخواستہ کشمیر کا مسلۂ حل ہو جائے تو پنجاب کے ہر شہر ہر گلی محلے کی دوکانوں پر جو " چندہ براے جہاد کشمیر " کے ڈبے پڑے ہیں ان کا کیا ہو گا ؟ جہادی کیمپوں اور جہاد کے تربیتی اداروں کا کیا ہو گا ؟ ملک بھر کار مولوی حضرات کے رزق حلال جسے وہ اسلام کی خدمت سمجھ کر پچھلے ساٹھ سالوں سے کرتے آ رہے ہیں اس کا کیا بنے گا ؟ ہمارے سات لاکھ فوجی تو بیروزگار ہوں گے ہی مگر سب سے بڑھ کار نام و نہاد آزاد کشمیر کے سیاست دانوں کا کیا بنے گا ؟ اس لئے آج کشمیر کو ہماری ضرورت نہیں بلکہ صرف اور صرف آزادی کی ضرورت ہے .
. بھارت اور پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور اقوام متحدہ کا موقف ہے کہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان انا کا مسلۂ بن چکا ہے اور انا جب مسلۂ بن جائے تو پھر تمام تر انسانی قدریں دم توڑ دیتی ہیں جس کی زندہ مثال آج کشمیر کی لہو لہان وادی ہے جہاں آج معصوم نونہال اور عمر رسیدہ بزرگ اشیاہ خورد و نوش کے لئے گھروں میں مقید تڑپ رہے ہیں مگر دونوں اطراف اپنے اپنے موقف پر آہنی چٹان کی مانند اٹے ہوۓ ہیں
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کبھی بھی کوئی اکثریت ایک طویل عرصۂ تک اقلیت پر غاصبانہ حکومت نہیں کر سکتی ، طاقت کے بل بوتے پر عوامی تحریکوں کو دبایا نہیں جا سکتا خاص طور پر وہ عوامی تحریکیں جن کو نسل در نسل لہو سے سینچا گیا ہو اسے ایک بے لگام طاقت کے زور سے ہرگز ختم نہیں کیا جا سکتا . اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج بھی ایران میں رضا شاہ پہلوی کا خاندان حکمران ہوتا ، روس ساڑھے تین سو سال کی تاریخی حکمرانی کے بعد افغانستان سے یوں ہزیمت نہ اٹھاتا ، اور آج امریکا بے پناہ وسائل اور طاقت آزما لینے کے باوجود بھی یوں بے بس نہ ہوتا.
آج کشمیر کا مسلۂ اسلام کا نفاذ یا وہاں موجود مسلم اکثریت ہرگز نہیں ہے بلکہ وہاں بہت سے غیر مسلم اور ہندو بھی کشمیر میں آباد ہیں . یہ سراسر ایک سیاسی مسلۂ اور انسانی المیہ ہے . اور جب تک بھارت اور پاکستان کا حکمران طبقہ کشمیر کے لئے اپنی سامراجی و استحصالی ذہنیت ختم نہیں کار دیتے کشمیر کا مسلۂ حل نہیں ہو سکتا . یہ دونوں اطراف کی ہٹ دھرمی ہے ہے جو کشمیر کی گلیوں میں گزشتہ باسٹھ برس سے متواتر خود بھی مر رہے ہیں اور کشمیریوں کو بھی مار رہے ہیں . یہاں مسلۂ فقط ایک زمین کے ٹکڑے کی آزادی کا ہی نہیں بلکہ سامراجی و استحصالی نظاموں سے آزادی کا بھی ہے .
آخر کب تک بھارت اور پاکستان کشمیریوں کی لاشوں کا بوجھ اپنے ضمیر پر برداشت کرتے رہیں گے ؟ خطے کے چوہدری بننے کے سپنے لئے اپنی بھوکی ننگی عوام کے منہ سے نوالے چھین کر کھربوں روپیہ سالانہ جنت نظیر کشمیر کو جہنم بننے میں جھونکتے رہیں گے ؟ کب تک سیاست کی تال پر جہادیوں کو ناچتے رہیں گے ؟ سرحدوں کے پاسبانوں سے ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لٹواتے رہیں گے ؟ اور کشمیر کی گلیوں میں ہوتے موت کے بھیانک رقص سے اپنے دل بہلاتے رہیں گے ؟ جب کہ حقیقت ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ قتل و غارت گری کے بازار گرمانے اور جہادیوں کا اودھم مچانے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے ....
....کشمیروں پر تو بہت ظلم کر لئے لیکن سکون سے تو ہم خود بھی اپنے گھروں میں نہیں ہیں . کیوں کہ دوسروں کے گھروں میں آگ لگا کر تماشہ دیکھنے والے اس آگ کی تپش سے زیادہ دیر تک محفوظ بھی کیونکر رہ سکتے ہیں .؟؟جس کی جیتی جاگتی مثالیں آج ہم خود ہیں کہ کشمیر کے لئے جان دینے اور لینے والے دونوں اطراف غربت ، بموں کی تباہی بھوک و افلاس اور دہشتگردی کا بری طرح سے نوالہ بن چکے ہیں مگر پھر بھی ایک زد ہے جو جا ہی نہیں رہی .
آج انڈو پاک بلکہ سارے خطے کی بھلائی اسی میں ہے کہ دونوں اطراف پاکستان کے جہادیوں اور اکھنڈ ہندوستان کے نعرے لگانے والے فتنہ برداروں کو کنارے لگاکر کشمیر کے دونوں حصوں کو ملا کر آزاد کر دیا جائے . کشمیر کے نام پر دشمنی تو بہت کر لی اب وقت اور حالت کا تقاضہ ہے کہ اسی کشمیر کی خاطر دوستی کی جائے کیوں کہ دوستی دشمنی سے ہر حال میں بہتر ہوتی ہے . صدیوں سے ایک ساتھ رہے ہیں کیوں نہ ایک دفعہ پھر ہاتھوں میں ہاتھ لے کر امن کی خاطر امن کے ساتھ امن کی طرف ایک ساتھ قدم اٹھایئں. جہاد ہی کرنا ہے تو غربت افلاس بھوک اور جہالت کے خلاف کریں . وہ وسائل اور توانائی جو کشمیریوں کی نسل کشی کرنے پر پچھلے باسٹھ سالوں سے لگاتے چلے آ رہے ہیں وہ اب سے اپنی لاغر عوام کی فلاح و بہبود پر استعمال کریں . کشمیر ہمارا ہے نہ تمہارا وہ صرف اور صرف کشمیریوں کا ہے . آج امن کی طرف اٹھایا ہوا ہمارا یہ قدم نہ صرف کشمیر کو آزاد کر کے برصغیر کو امن کا گہوارہ بنا سکتا ہے بلکہ یہ ایک مثبت فیصلہ ہماری نسلوں کا مستقبل تابناک بننے میں بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے.
 

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team