اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔08-08-2010

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

کالم۔۔۔------------- عفاف اظہر



باراک اوباما کے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کے قبا ئیلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی تعداد تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ گی ہے . اوباما انتظامیہ کے تحت ہونے والے ان حملوں میں اب تک سات سو سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں . جبکہ اوباما انتظامیہ سے قبل ہونے والے حملوں میں دو سو افراد حالت ہوۓ تھے . اب تک کے زیادہ تر حملوں کا مرکز شمالی وزیرستان رہا ہے جہاں کل ستاسی حملوں میں سے چھپن حملے ہوے ہیں اس کے بعد دوسرا بڑا حدف جنوبی وزیرستان ہے جہاں اب تک چھبیس حملے ہو چکے ہیں . ایک سینئر امریکی اہلکار کے مطابق ڈرون حملوں میں اب تک چھہ سو بچاس شدت پسند اور محض بیس شہری ہلاک ہوے ہیں . اس اہلکار کا کہنا تھا کہ ڈرونز جنگوں کی تاریخ میں حدف کو عین نشانہ بنانے والے ہتھیاروں میں سب سے زیادہ مؤثر ترین ہتھیار ہیں . پاکستان کے وزیر خارجہ کے ترجمان عبد الباسط کے مطابق یہ ڈرون حملے نہ سر پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ہیں بلکہ یہ قبائلی علاقوں میں دل و دماغ کی جنگ جیتنے کی راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں. پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہرعباس کا کہنا ہے کہ" ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں اس وجہ سے نا جائز ہیں جن کے نتایج سے ملک میں بے چینی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے جس کا ایک پیمانہ خودکش اور بم حملوں کے بڑھاتے ہوے واقعات ہیں . اور ان کے بارے میں تمام تر پالیسی فیصلے کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے." جب کہ امریکی اہلکار اکثر یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے پاکسان کے ساتھ ایک خاموش معاہدے کے نتیجے میں ہو رہے ہیں . بغیر پا یلٹ کے یہ جہاز یا ڈرون امریکی انٹلیجنس ادارہ سی ائی اے کنٹرول کرتا ہے حملوں کی ضرورت وقت اور جگہ کا تعین بھی اسی کی ذمہ داری ہے .پچھلے اٹھارہ ماہ میں پاکستان کے مختلف شہروں میں ایک سو چالیس سے زیادہ خود کش حملے ہوے ہیں .جن میں سترہ سو سے زائد شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں اور اب تک پشاور ہی شدت پسندوں کا سب سے بڑا حدف رہا ہے . اور ان میں سے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی ہے ادھر طالبان کے ترجمان محمد عمر کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں سے انھیں کچھ وقتی نقصان تو ہوا ہے لیکن بطور تحریک وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوے ہیں ان کے مطابق ڈرون حملوں سے متنفر قبائلی بڑی تعداد میں ان کی تحریک میں شامل ہو رہے ہیں .
اگر محمد عمر کی بات پر یقین بھی کر لیا جائے تو اس تحقیقاتی رپورٹ کا کیا ہو گا جو اسلام آباد میں آریانہ انسٹیٹوٹ کے سربراہ خادم حسین نے حال ہی میں قبائلی علاقوں جن میں جنوبی وزیرستان شمالی وزیرستان کرم ایجنسی اور کرزیی ایجنسی شامل ہیں کا تفصیلی دورہ کرنے اور وہاں کے رہائشیوں سے تفصیلی بات چیت کرنے کے بعد پیش کی ہے جس کے مطابق پچہتر فیصد قبائلی ڈرون حملوں کے حق میں ہیں اور طالبان کے مخالف ہیں. ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ ان کے سروے کا عمومی نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ وہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ القائدہ اور طالبان کے مراکز ختم ہوں ان کے نیٹ ورک وہاں نہ رہیں اور عام لوگ ان کے ہاتھوں یرغمال نہ رہیں وہ چاہتے ہیں کہ اگر یہ کام پاکستانی فوج کرے تو وہ زیادہ خوش ہوں گے لیکن ڈرون حملے یہ کام فوج کی نسبت بہتری سے انجام دے رہے ہیں . وزیرستان کے رہائشی ضیاء الدین کے مطابق ڈرون حملوں کو رہائشی اپنے لئے کوئی خطرہ تسلیم نہیں کرتے کیوں کہ یہ حملے اپنے ہدف کو ہی نشانہ بناتے ہیں عام شہریوں کو ان سے خطرہ نہیں اگر کسی کو خطرہ ہیں تو وہ شدت پسند اور ان کے حمایتی ہیں . وانا کے رہائشی سیعد رحمان وزیر کا کہنا ہے وہ ڈرون حملوں کی مشروط حمایت کرتے ہیں اور اگر انہیں امریکی ڈرون حملوں اور پاکستانی فوج کی کاروائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ بلا شبہ ڈرون کا انتخاب کریں گے کیوں کہ ڈرون کی نسبت فوج کی کاروئیوں سے اب تک زیادہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں. ناروے کی او سلو یو نیو ر سٹی سے منسلک تحقیق کر فرحت تاج جن کا تعلق بھی پختوں خواہ سے ہے کہتی ہیں کہ " پاکستانی میڈیا کے ذریعہ عوام میں پایا جانے والا یہ عمومی تاثر بلکل غلط ہے کہ ڈرون حملوں میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہلاکتوں کی ہے کیوں کہ آزاد میڈیا کو قبائلی علاقوں تک رسائی حاصل نہیں اور بہت سے صحافیوں کو ان علاقوں میں صرف اس لئے قتل کر دیا گیا کہ انہوں نے آزادانہ صحافت کرنے کی کوشش کی . پاکستان کے شہروں میں عوامی مقامات پر خودکش حملوں سے ہونے والی عام شہریوں کی ہلاکتوں اور اس کی ذمہ داری تحریک طالبان کے قبول کر لینے سے پاکستانی میڈیا کی طالبان کے بارے میں سوچ میں قدرے تبدیلی آ چکی ہے لیکن ڈرون حملوں کے بارے میں میڈیا کی غلط سوچ اب بھی پاکستان کے عام لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے . جب کہ ابھی گزشتہ برس پشاور میں ایک بڑا جرگہ ہوا تھا جس میں سول سوسایٹی کی اراکین سمیت ادیبوں اور ایک ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی تھی اور سر عام کہا گیا تھا کہ قبائلی علاقوں کے لوگ اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگر کسی چیز سے مطمئن ہیں تو وہ ڈرون حملے ہی ہیں . جب کہ پاکستانی میڈیا تصویر کا جو رخ پیش کر رہا ہے اس سے مجموئی طور پر یہ ہی راے بنتی ہے کہ وہاں کے لوگ طالبان اور القائدہ کی محبت میں بری طرح گرفتار ہیں اور ڈرون حملوں سے زیادہ تر عام شہری ہی ہلاک ہو رہے ہیں جو کہ بلکل غلط تاثر ہے "
آج وطن عزیزاس رکھیل کی مانند ہے جس سے جب کسی کا دل چاہتا ہے کھیل کر چلا جاتا ہے . مانا کہ امریکا ظالم ہے بدمعاش و دہشت گرد ہے لیکن کبھی تو اپنے گیریبانوں میں بھی جھانکئے، اگر آج ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری پر تازیانہ ہیں تو پھر یہ جو نام و نہاد اسلامی جماعتیں یہ طالبان نامی ظالمان یہ یہ شدت پسند جہادی عناصرتو ہر روز خود کش دھماکوں سے نہ صرف پاکستان کو چلینج کر رہے ہیں بلکہ عوامی غیرت کی دھچیاں بھی اڑا رہے ہیں ، اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ یہ ڈرون حملے پاکستان کی آزادی و خود مختاری پر کاری ضرب ہیں مگر جب کسی بھی ملک میں اس طرح سے شدت پسند وطن دشمن عناصر کی دھاک کے سامنے وہاں کی حکومت بے بس نظر آیے گی تو پھر وہاں کا واحد حل ڈرون حملے ہی رہ جاتے ہیں . ہماری نام و نہاد آزاد صحافت اور خود مختاری کے علمبردار یہ سیاستدان جو ڈرون حملوں کی مخالفت میں اندھے ہو رہے ہیں خود اتنی ہمت کیوں نہیں رکھتے کہ جا کر دہشت گردوں کو ان کے مز موم ارادوں سے روک کر ملک و قوم سے وفا داری کا حق نبھائیں . پچھلی کیی دہائیوں سے یہ دہشت گردی کا بیج لمحہ لمحہ بڑھ کر ایک تناور شجر کی شکل اختیار کر رہا تھا تب یہ صحافت اور سیاستدان کہاں سو رہے تھے ؟ تب انکی وطن و قوم سے ہمدردیاں کہاں جا چھپی تھیں ؟ کہاں تھی انکی یہ نام و نہاد خود مختاری و آزادی کی بھڑکیں ؟ اگر اس وقت انہوں سے اپنا فرض بخوبی نبھایا ہوتا تو آج اس دہشتگردی کے زہر آلود درخت جس کی وطن عزیز کی شہ رگ کی جانب تیزی سے بڑھتی شدت پسندانہ شاخوں کو کاٹنے کے لئے ڈرون حملوں کو دعوت دینے کی ضرورت ہی پیش نہ اتی .
امریکا کو برا بھلا کہ کر اپنا دامن بچا لینا یہی تو آج تک ہم کرتے چلے آ رہے ہیں . لیکن کب تک کبھی تو حقیقت سے نظر ملانی پڑے گی . بے شک امریکا دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اور بد معاش ہے لیکن امریکا کی طرف اٹھے ہوۓ ہاتھ کی باقی انگلیوں کو بھی ذرا غور سے دیکھیں جو چیخ چیخ کر یہ گواہی دے رہی ہیں کہ غدار ہم خود ہیں . بےحس مفاد پرست خود غرض تو ہم خود ہیں . یہی فرق ہے ہم میں اور امریکا میں کہ امریکا دنیا بھر کا دشمن ہو سکتا ہے مگر اپنے ملک اور قوم کا وفادار ہے . وہ اپنی قوم کی جانب اٹھنے والے ہاتھ کاٹنا اور ہر گھورتی آنکھ نکلنے کی ہمت اور طاقت رکھتا ہے . مگر یہ ہماری حمایتوں سی پھلنے پھولنے والے انتہا پسند آخر کس کے لئے اپنے ہم وطنوں کو دھماکوں سے اڑا رہے ہیں آخر کس کی ایما پر ان ہاتھوں کو کاٹ رہے ہیں جنہوں نے انھیں دودھ پلا کر اس قابل بنایا کہ انھیں کو کاٹ سکیں . ؟ اور پھر جب تک ہم خود فیصل شہزاد جیسے غداروں کو اپنے قبائلی علاقوں میں بلا کر دہشت گردی ک تربیت دے کر امریکا کی دم پر پاؤں رکھنے کی غلطیاں کرتے رہیں گے تو ان کا خمیازہ بھی ہمیں ہی ڈرون کی صورت میں بھگتنا پڑے گا . اگر حکومت پاکستان نے دہشت گردی کا صفا یا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے تو آج تک زندہ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کو سزائیں کیوں نہیں دی گئیں . یہاں تو کوئی دہشت گرد پکڑا جائے تو پھر بھی یقین ہوتا ہے کہ چند روز میں چھوٹ جائے گا یا پھر بھگا دیا جائے گا . وطن کی خود مختاری کا اسقدر پاس ہو تو ایسے وطن دشمن عناصر کو سر عام پھانسیاں دی جانی چاہئیں تاکہ وہ اپنے پیچھے غداری کے جرثومے رکھنے والے تمام عناصر کے لئے عبرت کا نشان چھوڑ کر جایں. امریکا کے خلاف تو بہت چیختے ہیں مگر اپنی بغل میں چھپے ناسور کو دیکھنے سے عاجز ہیں . اگر ملک و قوم کے دشمن کا خاتمہ کرنے کا صدق دل سے تہیہ کیا ہوتا تو آج یوں خود مختاری کا رونا رونے کی نوبت تو نہ اتی .
گزشتہ ایک ہزار سال سے مسلمانوں نے دنیاوی علوم چھوڑ کر صرف اور صرف مذہبی و روحانی تعلیم ہ کو اپنا ا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے . دنیاوی علوم کی ایجادات نے ڈرون تک بنا لئے مگر مذہب و روحانی علوم آج بھی فقط نعروں ہی سے گرج رہے ہیں .اب ہم کس کس ڈرون سے اپنی خود مختاری کو بچا یئں گے کہ یہاں تو ہمارے چاروں اطراف سے مہنگائی کے ڈرون ، غربت کے ڈرون ، بے روزگاری کے ڈرون ، خوراک بجلی پانی کے بحرانات کے ڈرونز برسنے کے باوجود بھی ہمارے ملاء حضرات کے مذہبی نظریات کے ڈرونز آج بھی لاغر عوام کے سر پر سب سے زیادہ حاوی ہیں جنہوں نے کچھ چھوڑا ہی نہیں کہ امریکا کے ڈرونز کی نظر ہو سکے .
 

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team