اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔08-08-2010

تم زمین پر رحم کرو تا آسمان تم پر رحم کرے

کالم۔۔۔------------- عفاف اظہر


تاریخ کے بد ترین زلزلے کے جھٹکوں سے ابھی سنبھل نہ پاے تھے کہ تاریخ کے اس بد ترین سیلاب کے تھپیڑوں نے آن دپوچا . پاکستان میں حالیہ سیلاب اور زمین کے کھسکنے سے اب تک ہزاروں اموات جب کہ متاثرین کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ کو بھی تجاوز کر چکی ہے . متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھ چکا ہے بلکہ ہیضہ کی وبا پھیلنے کی اطلاعات مل رہی ہیں . اور سونے پر سہاگہ ملک بھر میں مون سون کی بارشوں کا دوسرا دور بھی چل پڑا ہے . سیلاب سے بے گھر ہوے لاکھوں افراد اشیا خورد و نوش حتہ کہ صاف پانی کی قلت کا بری طرح شکار ہیں . دریا سندھ سے گزرنے والے اس صدی کے سب سے بڑے سیلابی ریلے سے اب تک سینکڑوں پل تباہ اور متعد د آبادیاں جزیروں میں تبدیل ہو چکی ہیں . امدادی اداروں کے مطابق یہ حالیہ نقصان دو ہزار پانچ کے زلزلے سے کہیں زیادہ ثابت ہو سکتا ہے . امدادی کاروائیاں انتہائی سست اور نہ کافی بلکہ نہ ہونےکے برابر ہیں لاکھوں سیلاب زدگان کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں . گویا کہ
ہم غریب لوگ تو تنکوں کا ڈھیر ہیں --- ملبے میں دب گئے تو کبھی پانی میں بہہ گئے

سیلاب ہر سال انے والی قدرتی آفات میں شامل ہے لہٰذا سیلاب سے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے کیوں کے سیلاب سے تباہی کمزور اور غریب طبقہ پر ہی اتی ہے اس لئے اس آفت کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی . پاکستان کو معرض وجود میں ہے باسٹھ سال ہو گئے اور ہر سال انے والے سیلاب سے جانی و ملی نقصان کے علاوہ خشک سالی پانی و بجلی کے بحران کے باوجود آج تک کسی بھی حکمران نے پانی جیسی قدرتی نعمت کی ذخیرہ اندوزی کر کے اس کا مناسب استعمال نہ سوچا بلکہ الٹا اس رحمت کو پوری قوم کے لئے زحمت بنا چھوڑا. قدرتی آفات کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں مگر ایسی آفات جن کا پیشگی اندازہ لگایا جا سکتا ہو مناسب حفاظتی انتظامات کے ذریعہ اس کے نقصانات پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے بر صغیر کے جغرافیایی حالات کی وجہ سے قدرتی آفات زلزلے اور سیلاب سے انکی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن پھر بھی انسان کی حکمت عملی ہے جو ہر بڑے سے بڑے نقصان پر قابو پانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے . جس قسم تباہی و بربادی کے منظر اس سیلاب سے دیکھنے کو ملے ہیں اس نے احساس دلایا کہ ایک بڑا انسانی المیہ جنم لینے والا ہے موجودہ اعداد و شمار سے تباہی بہت زیادہ ہیں بلا شبہ بارشوں سے سو سال کے ریکارڈ ٹوٹے، بے شک قدرتی آفات کے آگے انسان بے بس ہے ...لیکن کیا آج کی ترقی یافتہ دنیا کا سو سال قبل سے مقابلہ کرنا درست ہے ؟ ...کیا سی ون تھرٹی میں کشتیاں لوڈ کرتے فوٹو سیشن کرنے والے قوم کے خادم سپاہیوں کو کچھ دیر پہلے حرکت میں نہیں آ جانا چاہے تھا ؟ کیا ناکارہ ڈیموں کی مرمت اور ناقص پلوں کی تعمیر ہمارا فرض نہ تھا ؟ اور کیا ندی نالوں میں پھنسے لاکھوں ہم وطنوں کو بر وقت امداد پہنچانا بھی ہمارے بس میں نہ تھا ؟
اس قوم کی بد قسمتی کا عالم تو دیکھئے کہ پانی کم کا ہو تو بھی تباہی زیادہ ہو تو پھر بھی بربادی گزشتہ سالوں سے جس پانی اور بجلی کی قلت نے لاکھوں ایکڑ زمین بنجر کر دی اور ملک بھر کی انڈسٹری کو اربوں کا نقصان پہنچایا آج اسی پانی کی فراوانی نے لاکھوں کو بے گھر کر کے کھڑی فصلیں برباد کر کے تباہی کا دوسرا چہرہ دکھا دیا ، اب بھی لاکھوں کیو سک سیلابی پانی سمندر میں بہہ جائے گا اور چند ماہ بعد ہم پھر اسی پانی کی قلت کا شکار ہوں گے کیوں کہ اس اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے ہم آج بھی محروم ہیں . اور پھر اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں جب کہ پورا ملک اس طوفان نوح کے نرغے میں ہے اور عوام کا منتخب کردہ نجات دہندہ اس قوم کا موسیٰ سرکاری خرچہ پر یورپ کی سیر کے مزے لوٹ رہا ہے . وطن عزیز سیلاب میں ڈوبا ہے لاکھوں فاقہ زدہ سیلاب زدگان کیی دنوں سے گھروں کی چھتوں پر بیٹھے امداد کے منتظر ہیں اور ہمارے منتخب کردہ عوامی نمائندگان بیرون ملک بیٹھے ٹی وی پر ہی قوم کی تباہی کے مناظر دیکھنے پر اکتفا کر رہے ہیں . اور دوسری طرف صوبائی حکومتیں ہیں جنہیں اس قیامت کی گھڑی میں بھی سیاست چمکانے کی پڑی ہے سیلاب زدگان کی تعمیر نو کے لئے اسے بلند و با لا دعوے کے جا رہے ہیں کہ گویا پانچ سال پہلے زلزلہ زدگان کی بحالی کے تمام وعدے پورے کر لئے ہوں . قصور وار تو بیچارے حکمران بھی نہیں کیوں کہ انہوں نے تو بار ہا ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس زمین کی مخلوق ہیں ہی نہیں انھیں پاکستان کی عوام کی مشکلات و مصائب کا علم کیوں کر ہو سکتا ہے جو اپنا مستقبل خلیجی ممالک میں رکھتے ہیں . افسوس تو عوام پر ہے جو آج تو اپنی تباہی و بربادی پر دھاڑیں مر رہی ہے مگر اسی تباہی کا بیج بوتے ہوے بھول گئے تھے کہ کل کو ہمیں کو اس کی فصل بھی کاٹنی ہے اس قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے جنہیں بیتے ہوے کل کی یاد نہیں رہتی دیکھ لیجئے گا کہ کل یہی قوم انہیں حکمرانوں کو ووٹ دینے کے لئے پھر سے پر جوش ہو گی .

ایسی نا گہانی آفات میں حکومت کے نا کارہ انتظامات کو دوش دے دینا کافی نہیں کیوں کہ انتہائی محدود وسائل اندرونی و بیرونی سازشوں سے گھری دہشتگردی سے نڈھال حکومت کے لئے قدرتی آفات مرے کو مارنے کے مترادف ہے اور پھر اس ضمن میں زیادہ قصووار تو بیحثیت قوم ہم خود ہیں . ہم نے تو آجتک اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت ا پنے اس نو زائیدہ وطن کو فقط اپنی آبادی پر ہی قابو پا کر وسائل بڑھانے کی مہلت دینے کی بجاے آبادی کے ایم بم سے اپنے ہی چمن کے چیتھڑے اڑا دیے.
گزشتہ برسوں سے یہ ہماری ہی زمین ہم پر تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے ایک طرف خدا کی چکی ہے جس میں ہم بری طرح پیس رہے ہیں تو دوسری طرف خود ساختہ مصائب کے طوفان ہیں ایک قیامت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری کا بگل بج جاتا ہے . غربت ، بیروزگاری کے اژدھے جبڑے کھولے ہیں تو دوسری طرف خوراک پانی بجلی کے بحرانات بانہیں پھیلاے ہیں، ایک طرف جرائم اور لوٹ مار کی اندھیر نگری ہے تو دوسری طرف مذہبی دوکان داروں کی موت کی اندھیر نگریاں . ہر طرف ایک شور محشر بپا ہےاور اہوں اور سسکیوں کی تال پر موت کا بھیانک رقص جاری و ساری ہے . جس کی فقط ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ہماری بےحسی ، زلزلہ آیا لاکھوں لوگ مر گئے مگر شکر ہے میں بج گیا . بم دھماکوں نے مساجد مزار بازار ہسپتال اڑا دے مگر ہم اپنے عزیز و اقارب کی خریت پر ہی خوش رہے . نمازی بھوں دے گئے مظلوم جانوں سے گئے مگر ہم اسی میں پرسکوں رہے کہ ان میں ہمارا کوئی نہ تھا حادثات پر حادثات ہوتے رہے آفات پر آفات ٹوٹتی رہیں مگر ہم فقط اپنی ہی خیر مناتے رہے . لیکن کب تک ؟ آخر کب تک ؟ خداے بزرگ و برتر نے بار ہا حقوق العباد کو حقوق الله پر فوقیت دی مگر ہم نفرتوں کی ماری قوم نے اپنی سرزمین پر حقوق العباد کی ایسی دھچیاں اڑائیں کہ انسانیت تک شرما گیئ
لاتی ہے بام عرش پر سو بار زلزلے --- اک اہ زیر لب کا اثر کچھ نہ پوچھیے
شاید ہماری ان تباہیوں کے پس پردہ بھی وہ اہیں ہی ہیں جنہیں ہم اپنے طاقت کے گھمنڈ میں دبا گئے . جب معصوم نمازیوں کو بھونا جائے گا ، جب مساجد بموں سے اڑای جایں گی ، جب گرجے مندر گردوارے اور مساجد بموں سے اڑای جایں گی، جب عسائیوں ہندوں اور احمدیوں کی آبادیوں کو زندہ جلایا جائے گا اور انسانی خون کی قدر و قیمت کو انسانیت کے رنگ سے نہیں بلکہ انکے عقائد کے پلڑوں میں تولا جانے لگے گا تو وہ قوم خدا کے قہر سے کیوں کر محفوظ رہ سکے گی .؟ جب بازاروں سکولوں ہسپتالوں میں اندھادھند دھماکوں سے انسانی چیتھڑے اڑے جایں گے تو اجڑتی کوکھ کی دکھی ماؤں ، برباد جیون لئے سوگوار بیواؤں کے آنسوؤں کے سیلاب معصوم و مظلوم یتیموں کی اہیں اور سسکیاں عرش کیوں نہ ہلایین گی ؟
.یہ ہمارے ا عمال ہیں جو آفات کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں . جب دہشت گردی کے واقعات کی مذمت ہونے کی بجاے جواز مہیا کے جانے لگیں اور انسانی لہو کی ارزانی کو نفرتوں کے رنگ دیۓ جانے لگیں تو پھر خدا کا وہ قانون حرکت میں آ جاتا ہے کہ " تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو تاکہ آسمان پر رہنے والا تم پر رحم کرے ".یہ خدا کی بے آواز لاٹھیاں ہی ہیں جو کبھی بد ترین زلزلہ کے روپ میں تو کبھی بد ترین سیلاب کی صورت لئے ہوے ہمیں متواتر جھنجوڑنے کی کوشش میں ہیں کیوں کہ یہ قانون قدرت ہے کہ الله اپنی روے زمین پر مردہ ضمیر لئے ایک ظالم قوم کو زیادہ دیر تک زندہ نہیں رکھتا.
 

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team