اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔14-08-2010

کیا ہم آزاد ہیں ؟

کالم۔۔۔------------- عفاف اظہر

 آج وطن عزیز کو معرض وجود میں ہے تریسٹھ سال کا عرصۂ گزر چکا ہے یوم آزادی ایک طرف تاریخ کے لہو رنگ اوراق کی یاد تازہ کرتی ہے تو دوسری طرف وہ آزادی کے حسین خواب پر قربان ہوئی قیمتی جانوں لٹی عصمتوں ، سےتجدید عہد وفا کا ایک اور موقعہ بھی فراہم کرتی ہے تاکہ ہم اپنے ماضی کو مد نظر رکھتے ہوے حال کا محاسبہ کریں اور مسقبل کے لئے ان راہوں کا انتخاب کریں جو ہماری قوم کو زندہ ضمیر لئے حقیقی معنوں میں آزاد قوموں کی فہرست میں لا کھڑا کریں . ہم آج تک قومی محاسبے سے نگاہیں چراتے ہوے ہر سال چودہ اگست کے دن کو بھر پور جوش خروش سے منانا قومی روایت تو سمجھتے آ رہے ہیں جشن آزادی کا مقصد بحثیت قوم ہمارا قومی محاسبہ ہونا چاہیے جو گزشتہ ماہ و سال کے آیئنے میں ہمیں ہماری ناکامیاں اور کامیابیاں صاف صاف دکھاے تاکہ ہم دوسری قوموں سے مقابلہ کرنے کا ظرف پیدا کر سکیں. اگر آزادی کا صحیح مفہوم سمجھنا ہے تو ایک نظر جرمن اور جاپان پر ڈال لیجیے جو دوسری جنگ عظیم انیس سو پنتالیس کی بھیانک تباہی کے بعد دوبارہ نیے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں جت گئے تھے اور ہم نے بھی تقریباً اسی وقت انیس سو سینتالیس میں ایک نوزائیدہ آزاد مملکت کے طور پر اپنا سفر اختیار کیا تھا اگر آج ان سے موازنہ کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تریسٹھ برس کا عرصۂ آگے کی بجاے ہمیں مزید صدیاں پیچھے لے گیا ہے . جرمن قوم کے اتحاد و یکجہتی نے دیوار برلن تک گرا دی ...مگر ہماری قومی ناؤ کے فرقہ وارانہ چھیدوں نے قومی سلامتی نفرتوں سے سیلاب میں بہا دی . جاپانی قوم کے حوصلے اور قوت ارادی نے انہیں ایک بار پھر سے دنیا کی عظیم ترقی یافتہ قوموں میں سر فہرست لا کھڑا کیا ...... مگر جہالت اور ضمیر فروشی نے ہمیں آسمان کی بلندیوں سے ذلت کی گہرائیوں میں لا پٹخا ... کہ آج ہمیں آزادی کا دن تو یاد رہا مگر آزادی کا حقیقی مفہوم بھول گیا .. آج تک ہم جس نام و نہاد آزادی کی مالا جپتے چلے آ رہے ہیں وہ تو ہمیں کبھی نصیب ہی نہ ہوئی تھی . کیوں کہ ہندوں کی غلامی سے انگریزوں کی غلامی میں چلے انے کا نام بہر حال آزادی نہیں ہے . لیکن پھر بھی اگر ہم نے اپنی قومی روایت کو برقرار رکھتے ہوۓ آزادی کا جشن ماننا ہے تو پھر شوق سے منائیے مگر ساتھ ساتھ غربت میں آزادی کا جشن بھی منائیے .... ، بیروزگاری میں آزادی کا جشن بھی منائیے .... خودکشیوں میں آزادی کا جشن بھی منائیے....، اخلاقی اقدار سے آزادی اور قانون سے آزادی کا جشن بھی منائیے....، دہشتگردی اور جرائم میں آزادی کا جشن بھی منائیے ....، انسانی حقوق سے آزادی کا جشن بھی منائیے ..... اور پھر اپنی قومی جہالت کی آزادی کا جشن بھی منائیے. آج ہم بحثیت قوم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں چاروں اطراف سینکڑوں بحران جبڑے کھولے ہماری ذرا سی لغزش کے منتظر ہیں . ایک طرف ہمارا سب سے بڑا بحران نظریاتی یکجہتی فکری وحدت اور اتحاد و اتفاق سے محرومیت ہے تو دوسری طرف امن و امان کی دگرگوں صورتحال کا بحران ہے ، ایک طرف ہمارا حال ہے جو روز بروز لا قانونیت کی دلدل میں دھنسا چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف ہمارا مستقبل وہ نوجوان نسل ہے جس نے علم کو اپنا الہ کار بنانا تھا مگر وہ خود دہشتگردی کا الہ کار بن چکی ہے جن کے ہاتھوں نے کل قوم کا مستقبل کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے ان میں آج کتابیں نہیں بلکہ قوم کی تباہی کے سامان ہیں دماغ علم کی روشنی سے منور نہیں بلکہ اسلح اور ہتھیاروں سے لیس ہیں . اور سونے پر سہاگہ یہ طبقاتی تفریق ، استحصالی نظام ، ہنر کی نا قدری ، تعلیمی ڈھانچے کا کھوکھلا پن ، اختیارات کا نا جائز استعمال ، اور اخلاقی اقدار کا فقدان جیسی خوفناک آندھیاں ہیں جن سے ہمارا حال بری طرح لرز رہا ہے . جمہوری روایات سے فقدان کا المیہ جس نے ماضی تباہ حال سے بے حال اور اب مستقبل کو رسوا کرنے کا بیڑہ اپنی قوم کو ہر پل گرتی معیشیت کے ساتھ ہاتھوں میں کشکول کا تحفہ دے کر ایک شان سے اٹھا رکھا ہے . غریب کا چولہا بجھ گیا ہے تو اشیا خرد و نوش کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں . ساٹھ فیصد ہم وطن پہلے ہی خط غربت تلے زندگیاں گزرنے پر مجبور تھے تو رہی سہی کسرقدرتی آفات سے بے گھر ہوے ہم وطنوں نے پوری کر دی . پینے کے صاف پانی سے محروم اور بجلی کی نعمت چھینی جا چکی ہے نظام صحت کے اخراجات ناقابل برداشت اور اور ایک عام انسان کے بس سے باہر ہیں . ابھی قیامتیں کیا کم تھیں کہ کراچی اور لاہور کی دہشتگردی سے حالت زار اور ملک بھر میں ہوتے بم دھماکے .......میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطہ زمین پر وہی خطہ زمین ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائیہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں میرے ہم وطنوں ! ...ابابیلوں کے لشکر ہم جیسی بے ایمان ، بے یقین اور بے حس قوموں کی طرف نہیں اترا کرتے . ہم ایک ضمیر فروش وطن فروش اور ایمان فروش قوم ہیں . ہم وہ قوم ہیں کہ جن کے مولوی حلوے کی چند پلیٹوں خاطر تو کافر میں مومن میں مسلمان تو مرتد کا ورد کرتے ہیں اور ہم اس پر امین کرتے چلے آ رہے ہیں ...ہم خود وہ غربت کی ماری قوم ہیں جو یوں تو جمہوریت کا رونا روتے ہیں مگر چودھری وڈیرے اور جاگیردارانہ نظام کے تناور درخت کو اپنے لہو سے سینچتے چلے آ رہے ہیں . ... ہم وہ بے غیرت قوم ہیں جو امریکا کتا ہاے ہاے کے نعرے تو بہت غیرتمندی سے لگاتے ہیں مگر جب بھی مصیبت پڑے کشکول تھامے بےغیرتی سے اسی کی طرف دوڑتے ہیں ...... ہم وہ بےضمیر قوم ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اپنے مسلمان بھائیوں کا لہوتک بیچتے ہیں ...کہ آؤ ہم پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا وعدہ کرو ہم افغانستان کو قبرستان بنانے کے لئے تمہاری رہیں ہموار کرتے ہیں ....آؤ اور مال و زر سے ہماری تجوریاں بھر دو ہم اپنی مادر وطن کے کسی بھی حصے پر بمباری کرنے کی پوری اجازت دیتے ہیں .... آؤ اور ہمیں جنت کے ٹکٹ دو ہم ملک کو جہنم بنانے کا تمہارے ازلی سپنے پورے کرتے ہیں .....آؤ اور صرف ہمیں مسلمانیت کا سرٹیفکٹ دے دو اور ہم اپنی سر زمین پاک پر کافروں کے لہو کی ندیاں بہا کر تمہاری خواہشوں کی تکمیل کرتے ہیں ..... یہ ہے ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں عدالتوں میں انصاف درسگاہوں میں ڈگریاں، اسمبلیوں میں ضمیر ، ہسپتالوں میں جعلی دوائیاں ، اور مسجدوں میں ایمان تک بکتے ہیں . جہاں کلمہ پڑھنے سلام کرنے اور بسماللہ کہنے پرتو ایک غیر مسلم کو پھانسی پر بھی چڑھایا جا سکتا ہے مگر مزار قائد پر دختر ملت کی ابرو ریزی کرنے والے کو کٹہرے تک نہیں لایا جا سکتا ..... اگر مسجدوں سے نفرت کی منادی اور مدرسوں سے خودکش بمبار جہادی بن کر نکلتے ہیں تو نکلنے دو ہم اپنے گھروں میں بیٹھے اسلام کے نام کی مالا جپتے رہیں گے ....اگر امریکی فوج اور طالبان نامی ظالمان ہماری ہی سر زمیں پر ایک دوسرے کا لہو پی کر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو کرنے دو ہم منرل واٹر سے اپنی پیاس بجھاتے رہیں گے ....اگر ماؤں بہنوں کی عصمتیں نیلام ہوتی ہیں تو ہونے دو ہم جوش و خروش سے مدر ڈے منا لیا کریں گے ...... اگر حکمران ملکی خزانہ لوٹتے ہیں تو لوٹنے کو ہم بسنت کی چڑھتی پتنگیں لوٹتے رہیں گے .....اگر ہم وطنوں کی تمناؤں کے پھول مرجھاتے ہیں تو مرجھانے دو ہم ویلن ٹائن ڈے دھوم سے منا لیا کریں گے ....اگر غریب کا چولہا بھجھتا ہے ، فاقوں سے بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بلبلاتے ہیں ، صاف پانی نہ پینے سے ہزاروں امواتیں ہوتی ہیں ،بیروزگاری کے ستاے مینار پاکستان سے چھلانگیں لگا کر جانیں دینے والوں کی آرزوئیں لٹتی ہوں یا پھر مزار قائد پر قوم کی بیٹیوں کی عصمتیں ...ہمیں سوچنے کی بھلا کیا ضرورت ہے ہمارے لئے تو اتنا ہی بہت ہے کہ ہمارا پاکستان آزاد ہے. پاکستان زندہ باد...پاکستان زندہ باد ....پاکستان زندہ باد ...... شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ سوگواران عقبے تھے آے ہوے خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی روح قائد بھی تھی سر جھکاے ہوے سب کے دل چور تھے سب ہی مجبور تھے بیکسی وہ کہ تاب نظارہ نہیں کہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہو گیا ، یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں میرے عزیز ہم وطنوں !...کب تک خون بہے گا اپنے اس گلستان میں ؟ ...کب تلک وقت کی بےزور آندھیاں ہماری شاخیں قلم کرتی رہیں گی ؟.. کب تلک ہم اپنے ہاتھ اپنے ہی ہم وطنوں کے لہو سے رنگتے رہیں گے ؟... کب تلک ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی اس نام و نہاد آزادی کا جشن دھوم دھام سے مناتے رہیں گے ؟ ... کب تلک اس تریسٹھ سالہ بوسیدہ آزادی کے تصور کو لیے خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے ؟ ...احساس کی کونپلیں اب بھی نہ پھوٹیں تو پھر کب پھوٹیں گی ؟ ہمارا سویا ہوا ضمیر اب بھی نہ جاگا تو پھر کب جاگے گا ؟ آخر کب تک ہم اپنی ناکامیوں پر آزادی کے جشن کا پردہ ڈال کر ناچتے رہیں گے ؟... آخرکب تک ایک نہ ایک دن تو ہمیں بھی وقت کے کٹہرے اور ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو کر اس سوال کا جواب دینا ہی ہو گا کہ " کیا ہم آزاد ہیں ؟ "

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team