اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔24-08-2010

اب آسمان سے بھیج نہ آفات آے خدا

کالم۔۔۔------------- عفاف اظہر

  پاکستانی ذرائع ابلاغ اور مختلف ویب سائٹوں پر سیالکوٹ کے ایک واقعے کی وڈیو بار بار دکھائی گئی۔ وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ چند لوگ ایک مجمع کی موجودگی میں جس میں کچھ پولیس اہلکار بھی موجود ہیں دو لڑکوں کو ڈنڈوں سے مار رہے ہیں۔ جن کو مارا جا رہا ہے ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ دو بھائی ہیں جن میں سے بڑے کی عمر اٹھارہ اور چھوٹے کی عمر پندرہ برس ہے۔ وڈیوں میں یہ دونوں بھائی بالکل بے بس ہیں اور ان پر چند لوگ پورے جوش اور طاقت سے خون سے لال جسم کے ہر حصے پر ڈنڈے برسا رہے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے ہلاک ہو جانے پر ان کی لاشوں کو الٹا لٹکاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے اور اس وقت بھی مار پیٹ جاری رہے۔ سپریم کورٹ نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور پھر کچھ پولیس اہلکاروں اور مجمع میں موجود لوگوں پر مقدمات بھی درج ہوئے ہیں۔ مجمع خاموش دکھائی دیتا ہے اور بغیر کسی مداخلت کی کوشش کہ یہ سارا عمل دیکھ رہا ہے۔ بربادیوں میں اہل وطن خود کفیل ہیںاب آسمان سے بھیج نہ آفات آے خدا ظلم و بربریت اور درندگی کے نیے پیمانے مقرر کرنے میں آج جو پاکستانی معاشرہ کردار ادا کر رہا ہے اس نے کشمیر فلسطین اور بوسنیا کیا چنگیزیت کو بھی ایک کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کی بنا پر آج پاکستانی معاشرے کو انسانی معاشرے میں شمار کرنا بھی انسانوں کی توہین و تذلیل ہو گی . کیوں کہ یہ تو محض ایک ہی واقعہ ہے جو دنیا کی نظر تک پہنچا جبکہ ایسے ہزاروں ان گنت داستانیں اور واقعات وہ بھی ہیں آسمان اور زمین نے کبھی نہ دیکھا جو اس معاشرے میں وڈیروں جاگیرداروں حتہ کہ پولیس تھانوں میں ہوتے ہیں اور طاقت کے قفل انھیں چپ کی چادر اوڑھانے پر مجبور رکھتے ہیں یا پھرگمنامی کی موت انکا مقدر بنا دی جاتی ہے . یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس ظالمانہ طریق سے مارنے والے پرلے درجہ کے حیوان تھے تو کیا وہاں موجود اتنے بڑے ہجوم میں سے ایک بھی انسان نہ تھا ؟ کیا یہ سفاکانہ تماشہ دیکھنے والے سب ہی گونگے بہرے اور اندھے تھے ؟ یہ انسانوں کا معاشرہ ہے یا پھر جنگل جہاں دو جانوں پر اس درندگی سے ظلم ہو رہا ہو اور پولیس محض تماشائی تمام ہجوم ہی سفاکی کی جیتی جاگتی تصویر حتہ کہ لوگ بربریت کی اس داستان کو وڈیو کیمروں میں تو ریکارڈ کر سکتے ہیں مگر انسانیت پر ہوتے اس ظلم کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکے ؟ .قصوروار کوئی دوسرا نہیں بلکہ یہ معاشرہ خود ہے کہ ہماری یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ جب تک ظلم خود پر نہ ہو تو وہ ظلم ہی نہیں اور اگر ظلم دوسروں پر ہوتا رہے تواسکے لئے جواز بہت... دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں الزام چاہے کوئی بھی ہو لیکن سزا دینے کا اختیار فقط عدالت عظمیٰ کے پاس ہوتا ہے . اور پھر اس سفاکیت سے تو حیوان بھی اپنے شکار کی جان نہیں لیتے جس کا مظاہرہ ان پاکستانی مسلمانوں نے کیا ہے . یہ ہماری معاشرتی ذہنیت بن چکی ہے کہ سنی سنائی افواہ پر ٹوٹ پڑو اور چاہے جان ہی لے لو . آج ہمارا پورا ملک خدائی آفات کا بری طرح شکار ہے سیلاب کی لپیٹ میں لاکھوں ہم وطن بےگھر ہیں تو کہیں زلزلے اور سے زمین کھسکنے سے امواتیں ہو رہی ہیں مگر پھر بھی اس مسلمان قوم کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان عذاب الہی سے کوئی بھی خوف خدا نہیں متواتر بم بھی پھٹ رہے ہیں اور کراچی میں خون کی ہولی بھی مسلسل کھیلی جا رہی ہے . اور اب اس سیالکوٹ کی اس سفاکانہ واقعہ نے رہی سہی کسر پوری کر دی . نہ جانے ابھی کون سے عذاب کا ہمیں انتظار ہے ؟.سیالکوٹ میں دو معصوم جانوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ نہ صرف انتہائی قابل مذمت ہے بلکہ ہمارے معاشرے کا وہ شرمناک پہلو ہے جو معاشرے میں موجود انسانی و اخلاقی اقدار کا آیینہ دار بھی ہے . مجھے بہت دکھ ہے کہ جو ہوا سر ا سر ظلم و بربریت ہے لیکن میں اس میں پولیس کو قصوروار نہیں بلکہ پولیس سے کہیں زیادہ قصور وار خود اپنے اسی معاشرے کو قرار دوں گی کیوں کہ میری نظر میں ہم آج ایک قوم نہیں بلکہ پیشہ ور قا تلوں کا وہ ہجوم ہیں جن کے جبڑوں کو اپنوں کا لہو لگ چکا ہے جب منہ کو ایک دفعہ لہو لگ جائے تو پھر ظلم و سفاکیت کی تمام تر حدیں پار کرنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی .ذرا یاد تو کیجیے کہ ایسے ہی مشتعل ہجوم کل تک اقلیتوں کی سانسیں چھینتے تھے چیلوں اور گدھوں کی طرح اقلیتوں کو شکار سمجھ کر ہر وقت جھپٹے کو کمر بستہ نظر اتے تھے مگر میڈیا اور عوام کی نظر میں وہ عاشقین اسلام محبان رسول اور محافظ قوم تھے . اور آج ان پیشہ ور قاتلوں کے ہاتھ اپنے ہی گریبانوں تک آ پہنچے ہیں اور ان پالتو آدم خوروں کے لہو کی پیاس جب ہمارے اپنے ہی خون سے بجھنے لگی تو ہمیں بھی قانون کے تمام سہارے یاد آ گئے چیف جسٹس کو بھی از خود نوٹس لینا بھی یاد رہا اور میڈیا کو بھی انسانیت کے تمام تر ضابطے نظر انے لگے . سانپوں کو پال کر خود کو محفوظ سمجھنے کا جو نہ قابل معافی جرم ہم سے سرزد ہو چکا ہے آج یہ اسی کا خمیازہ ہی تو ہے کاش کہ ان عادی مجرموں درندہ صفت عناصر کو تب لگام ڈالی ہوتی جب انہوں نے مذہب کے نام پر قانون سے کھیلنے کا دھندہ اختیار کیا تھا، تو آج یہ آگ کم سے کم اپنے دامن تک تو نہ پہنچتی . بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر خود کو محفوظ تصور کر لینے کے قصوروار تو ہم خود ہیں شاید بھول گئے تھے کہ آگ تو صرف آگ ہے چاہے وہ کسی کے لئے بھی لگائی جائے اپنے دامن تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ظلم تو بلا آخر ظلم ہی ہے کہ قانون قدرت ہے کہ معاشرے کفر سے تو پنپ سکتے ہیں مگر ظلم سے ہرگز نہیں . کسی بھی معاشرے میں ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو پھر اس قوم کو ہی لے ڈوبتا ہے اور خدا بزرگ برتر کے لئے یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ جب کسی قوم میں زندگی کا کوئی رمق بھی باقی نہ بچی ہو تو مٹا کر ایک نیی قوم لے آے.اہیں جھکڑ بن جاتی ہیں اور آنسو سیلابظلم کی بستی ہو جاتی ہے آخر کو غرقابجانے کیسا ظلم ہوا جو سوکھی دھرتی روئیاور فلک بھی رویا عرشی بھول کے سب آدابقہر خدا کا ہر اک فاسق فاجر قوم پہ بھڑکاتم کو پھر کیا لگا ہوا ہے کوئی پر سرخاب . پولیس بھی تو ہم میں سے ہی ہے اور معاشرے کی اسی سوچ کی حامل ہے جس میں یہ ظلم پروان چڑھ چکا ہے آج پولیس پر مقدمات چلا کر اور کچھ گرفتاریاں عمل میں لا کر کچھ بھی نہیں بدل سکتا . اگر بدلنا چاہتے ہو تو معاشرے کی اس ظالم سوچ کو بدلو اخلاقیات کے وہ تمام ضابطے پھر سے بحال کرو جو ایک انسان کو ہر قسم کے تعصبات سے قطعہ نظر صرف انسانیت کے درجہ پر پرکھنے کا حوصلہ رکھیں . ظلم چاہے وہ کسی پر بھی ہی اسے ظلم سمجھے اور اسکے خلاف آواز اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرو . ورنہ ہر چڑھتا دن کسی نہ کسی کے لئے سیالکوٹ کی یاد ہی دہرائے گا اور کل کا سورج ایک نیی ظلم کی داستان سنانے آے گا .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team