اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔27-09-2010

نظام تعلیم کی قربانی

کالم۔۔۔------------- عفاف اظہر

پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیوں کے سالانہ بجٹ میں کٹوتی کے حکومتی فیصلے کے خلاف بدھ کو ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں تدریسی عمل معطل رہا اور اساتذہ اور طلبہ نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا فنڈز کی کمی کی وجہ سے سرکاری وظیفوں پر بیرون ملک مقیم پاکستانی طالب علموں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے تاہم وفاقی حکومت نے ان طالب علموں کی فیس اگلے چند دنوں میں ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب سماجی شعبے کے لیے وزیراعظم کی مشیر شہناز وزیر علی کا کہنا ہے کہ سرکاری شعبے میں چلنے والی یونیورسٹیوں کے سو فیصد اخراجات اب حکومت نہیں اٹھا سکتی اور ان کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے اپنے فنڈ خود پیدا کرنے کے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔ ادھر پاکستان کے مختلف قبائلی علاقوں کے بعد اب پختونخواہ کے پشاور میں لڑکیوں کے دو اسکولوں کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا ہے پختونخواہ میں اس ہفتہ کے دوران پانچ سرکاری سکولوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور گزشتہ چند برس میں قبائلی علاقوں اور سرحد کے مختلف مقامات پر اب تک چار سو سے زیادہ سکولوں کو دھماکوں سے اڑایا جا چکا ہے .پختونخواہ کے وزیر اطلاعات افتخار حسین نے کہا کہ ان شدت پسند طالبان عناصر کا مقصد خواتین کو علم کی روشنی سے مرحوم رکھنا ہے صرف نظام تعلیم ہی نہیں ہم تو انفرادی و اجتماعی ہر لحاظ سے تباہی کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں علم جسے ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا گیا . علم حاصل کرو پنگھوڑے سے لے کر قبر تک حتہ کہ یہ حکم تک دیا گیا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے . اور یہاں اسلام کے اس ٹھیکدار اسلامی جمہوریہ پاکستان میں علم جیسی بیش بہا نعمت اور اسلام کے ان افضل ترین احکامات کی اہمیت کا اندازہ تو ذرا کیجئے ....کہ ایک طرف مذہبی علمبردار اسکولوں کو دھماکوں سے اڑا کر جہاد کر رہے ہیں تو باقی رہی سہی کسر اس مملکت خداداد کے احکام بالا کے یہ تعلیمی بجٹ دفاع پر لگانے کے اس فیصلے نے پوری کر دی ہے . یہ آزادی کے حسین خواب کی بھیانک ترین تعبیر ہے کہ آج اس ملک کا ہر نظام الٹا ہے اندروں ملک بنک قرضے معاف کر رہے ہیں اور حکمران عالمی بنک سے قرضوں کی جھولیاں پھیلاے ہیں تعلیمی ادارے کنگال ہیں اور اس دفاع پر رقم لٹائی جا رہی ہے جس نے ملکی دفاع کی یہ حالت کر دی ہے کہ ہر شخص گھر سے نکلتے ہوے ایک یہ سوچ کر نکلتا ہے کہ نجانے وہ زندہ واپس گھر آے گا یا نہیں . پٹرول بجلی مہنگائی کے بعد اب تعلیم کے ساتھ یہ حکمرانی بد سلوکی ملک کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے قصور وار تو بیچارے حکمران بھی نہیں کیوں کہ علم کی قدر و قیمت سےواقف ہو نے کے لئے ایک تعلیم یافتہ قیادت کا ہونا ضروری ہے . جبکہ ہمارے یہ جعلی ڈگری ہولڈرز حکمران تو بندر کیا جانیں ادرک کا بھاؤ کے مصداق ہیں . تعلیمی اداروں میں کٹوتی نہ صرف طلباء کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگانا ہے تعلیمی بجٹ میں کمی کر کے فوجی بجٹ میں اضافہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکلا کرنا ہے پاکستانی قوم کو آج اس نازک دوراہے پر ان بد ترین بحرانات کی منہ زور آندھیوں سے بچنے اور دہشتگردی کی سیاہ بادلوں سے چھٹکارہ پانے کا واحد راستہ علم کی روشنی ہی ہے . آج عوام کو جاہل رکھنے کیا مطلب دہشتگردی کو فروغ دینے کی سوا کچھ بھی نہیں . بد ترین عذاب کی صورت لئے یہ ہمارے حکمران سیاستدان جو ، جرنیلوں اور ملاؤں کی ملی بھگت سے ملک دشمنی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے .یورپ کی مثال دیتے ہوے یہ حقیقت کیوں نظر انداز کر جاتے ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہاں پر تعلیم عام نہ ہو اسی لئے یورپ امریکا اور تمام ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی تعلیم نہ صرف بلکل مفت ہے بلکہ لازم بھی ہے یہاں تک کہ ہونہار طلباء کو حکومت طرح طرح کی وظائف سے نواز کر ان کی حوصلہ افزائی کی ساتھ ساتھ مزید تعلیم حاصل کرنے کی رہیں ہموار کرتی ہے یورپ کی طلبا یونیورسٹیوں سے جماعت اسلامی کی غنڈے اور سیاست کی آلہ کار بن کر نہیں نکلتے کامیاب قوموں کا مقابلہ کرنے سے پہلے تعلیم کو فری اور لازمی قرار دینا ہو گا اور اپنے اخراجات کم کر کی نظام تعلیم کو بہتر کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ تعلیمی اداروں کی . تعلیمی اداروں کو خود کفالت کا کہنے سے پہلے ایک نظر اپنی تعلیمی حالت پر بھی ڈالی ہوتی کہ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا اپنی تحقیق اور ایجادات کی آمدن سے خود کفیل ہو جانا ہی ممکن ہوتا ہے لیکن کیا آج ہمارے تعلیمی ادارے اس قابل ہیں ؟ دنیا بھر کی تمام کامیاب یونیورسٹیوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ حکومت کے دباؤ سے آزاد ، اپنے وسائل پیدا کرنے میں خود کفیل ، مغرب کی یونیورسٹیاں تمام تر اسلامی ممالک کے بر عکس صرف دوسروں کے علم سے استفادہ حاصل نہیں کرتیں بلکہ خود اپنی تحقیق سے نیی نیی دریافتیں اور ایجادات پیش کرتی ہیں اور پھر ان کے حقوق فروخت کر کے نفح کماتی ہیں .ہماری طرح حکومتوں کی محتاجی اور حکومتی پالیسیز میں جکڑا ہوا بوسیدہ نصاب تعلیم جس کا مقصد فقط حقائق کو مروڑ کر نظریاتی برین واشنگ کرنا ہی ہوتا ہے انکا وطیرہ نہیں . حتہ کہ بھارت تک اپنے ا علیٰ نظام تعلیم سے نفح حاصل کر رہا ہے کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ اف ٹیکنالوجی کو دنیا تسلیم کرتی ہے جبکہ ہماری ڈگریوں کو ہر جگہ مشکوک نگاہوں کا سامنا رہتا ہے .تعلیمی اداروں کی خود کفالت کی حوصلہ افزائی درست ہے مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا وہ اس قابل ہیں بھی کہ خود کفیل ہو سکیں ؟اور تعلیمی اداروں کو خود کفیل بنانے میں حکومت نے اپنے فرائض کس حد تک ادا کئے ہیں ؟ کٹوتی ہی کرنی مقصود ہے تو پھر جو اربوں روپے کے چندے انتہا پسند تنظیموں اور مدرسوں کو کھلے عام اور پس پردہ دے جاتے ہیں وہ ضبط کر کے نظام تعلیم کی بہتری پر کیوں نہیں لگاے جاتے تاکہ کم سے کم مدرسوں کی بھینٹ چڑھ کر وحشی جانور بنتے یہ معصوم بچے ا علیٰ نظام تعلیم کی بدولت انسان تو بن سکیں . عرب ممالک سے وصول ہوتی اربوں کی سالانہ امداد جو انتہا پسند تنظیموں کے حوالے کی جاتی ہے وہ تعلیم پر صرف کی جائے یہ دہشتگردی کا جن جسے جہالت پال رہی ہے خود اپنی موت آپ مر جائے گا ؟ اور پھر بھی اگر کٹوتی کرنی اتنی ہی ضروری ہے تویہ عوامی حکمران نظام تعلیم کو قربانی کا بکرا سمجھنے سے پہلے چھری اپنے شاہانہ اخراجات پر کیوں نہیں چلاتے ؟ بیشک دفاع پر خرچ ضروری ہے لیکن اسقدر ہرگز نہیں کہ ملک و قوم کا مستقبل ہی داؤ پر لگا دیا جائے .جب ہتھیاروں کی خریدوفروخت اورنیو کلئیر بم کی حفاظت کے لئے افلاس زدہ ، بھوکی اور ننگی عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کی نوبت آ جائے اور دفاع کے نام پر تعلیم کو خیر آباد کہنے کی ضرورت پیش آ جائے وہ علم جس کا حصول ہم پر فرض قرار دیا گیا تھا جب اسی کی قربا نی دینے کی ضرورت پیش آ جائے تو پھر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بیحثیت قوم ہم راہ بھٹک چکے ہیں یا پھر ہماری سمت ہی درست نہیں.عفاف اظہر

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team