اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔17-10-2010

پاکستان سے بحرانستان تک

کالم۔۔۔------------- عفاف اظہر

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشتگردی کے بعد دوسرا بڑا خطرہ ماحولیاتی خرابیوں سے ہے۔امریکی جریدے ’سائنٹفک امریکن‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جولائی کے اواخر میں آنے والا تباہ کن سیلاب بھی ملک میں ہونے والی ماحولیاتی خرابیوں اور تبدیلیوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن افسوسناک صورت حال تو یہ ہے کہ پاکستان کے احکام کی جانب سے ماحولیاتی مسائل کی جانب بلکل بھی توجہ نہیں دی جا رہی .جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی کی وجہ سے پاکستان میں پانی کے ذخیروں اور گزرگاہوں میں بہت زیادہ سلٹ بھر چکی ہے اور ’حالیہ سیلاب میں جہاں اندازاً ایک تہائی حصہ عالمی حدت کا تھا وہیں جنگلات کی کٹائی، شمالی علاقہ جات میں ناقص انفراسٹرکچر اور جنوب میں نظام ِآبپاشی میں انجینئرنگ کے مسائل بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہیں‘۔پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ جہاں ملک میں جنگلات کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے وہیں جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے دریاؤں اور پانی کے ذخائر میں جمع ہونے والی سلٹ اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ کر رہی ہے۔ پاکستان کے وزیرِ ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی کے مطابق ’ماحولیاتی خرابیوں سے نمٹنے کے اخراجات میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب ان خرابیوں پر قابو پانا قریباً ناممکن ہو جائےگا‘ ابتدائی اندازوں کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ نظام کو ابتدائی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دو سو ملین ڈالر درکار ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان کو آنے والے عشروں میں جن طوفانی بارشوں اور سیلابوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ان سے نمٹنے کے لیے ڈیم اور رابطہ نہروں کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔اور دوسری طرف ایک اور بحران کا اژدہا بھی اپنا سر اٹھا چکا ہے ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیوں کی بین الاقوامی فیڈریشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر مزید امداد نہ مہیا کی گئی تو پاکستان میں لاکھوں سیلاب متاثرین اس سال موسمِ سرما میں غذائی بحران کا شکار ہو جائیں گے۔ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ خوارک کی کمی کا شکار ہونے والے سیلاب متاثرین کی شرح پہلے ہی چودہ فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اس سال سیلاب زدہ علاقوں میں فصلیں تباہ ہونے کی والے سے زیادہ تر لوگ غذائی امداد پر انحصار کریں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ کئی علاقوں میں سیلاب کا پانی اثر چکا ہے لیکن زرعی زمین اس قابل نہیں ہے کہ اس کی فصل کاشت کی جا سکے. زلزلے کے برعکس سیلاب ایک نسبتاً سست روی سے اثرات دکھانے والی آفت ہے اور اس کے اثرات مکمل طور پر سامنے آنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ پاکستان کے سیلاب سے متاثر ہونے والے مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ’ملک کے شمال میں واقع پہاڑی علاقوں میں لوگوں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں ہیں جبکہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں زرعی زمینیں زیر آب آنے کی وجہ سے غریب کسان مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف سندھ میں اب تک چودھ لاکھ افراد متاثرین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔‘پاکستان میں پچپن لاکھ ایکڑ زرعی زمین یا تو جزوی طور پر متاثر ہوئی ہے یا مکمل طور تباہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے کسان اس پر فصل کاشت نہیں کر سکتے۔ذرا اندازہ تو کیجیے کہ اس وقت ملک بھر کے کروڑوں عوام سیلاب سے متاثر ہوکر کُھلے آسمان کے نیچے بھوک سے تڑپ رہے اور بیماریوں سے مر رہے ہیں ،مگردوسری طرف متواتر خودکش حملوں کے نتیجے میں بھی اسی غریب عوام ہی کے پرخچے اُڑ رہےہیں مگر ہمارے یہ سیاست دان ٹیلویژن چینلوں پر حکومت بدلنے، مارشل لا لگانے اور ساز باز کرنے ایک دوسرے پر رخنہ ڈالنا، عدلیہ میں پھوٹ یا خُردبُرد کے الزامات گالی گلوچ حتہ کہ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دینے کے درپے نظر اتے ہیں جنہیں عوام نے ووٹ دے کر پارلیمان تک پہنچایا وہ عوام کو سیلاب میں بے اسرا اور بے یارو مددگار چھوڑ کر حکومت گرانے یا مڈٹرم انتخابات کرانے کی تیاریوں میں لگ گئے جو کل تک جمہوریت اور جمہوری اِداروں کو مستحکم کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے وہ آج اقتدار سے دور رہنے کے باعث ایک نیا بحران پیدا کرنے اور ملک کو ایک اور بحران کا تحفہ دینے کی کوششوں میں لگے ہوے نظر آ رہے ہیں سوال تو یہ ہے کہ ان .جمہوریت کا خواب دیکھنے اور دیکھانے والوں کی اُس وقت نیند کیوں نہیں اڑتی جب کروڑوں لوگ بے سروسامانی کی حالات میں اس جمہوریت کے آسمان تلے بے یارومددگار پڑے نظر اتے ہیں . اور یہ مذہب کا درس دینے والے اُس وقت چِلو بھر پانی میں کیوں ڈوب کر مر نہیں جاتے جب خود اپنے لوگوں کے خون سے ہولیاں کھیلی جاتی ہیں اور مجاہدین کے بم اپنے ہی ہم وطنوں پر پھٹتے ہیں اور دھماکے دنیا بھر کو سنائی دیتے ہیں . آج پاکستانی قوم انتہائی بےبسی کے عالم میں ان تمام بحرانات سے نبرد آزما ہے ، ایک طرف خوراک کی قلت کا بحران ہے تو دوسری طرف مہنگائی کے طوفان ، ایک طرف سیلاب کی آفت ہے تو دوسری طرف یہ آفت نما مسلط حکمران. جو پوری قوم کو بھوک کا تحفہ دے کر خود اپنے سوئس اکاونٹس کے تحفظ میں گم ایک دوسرے سے دست و گیریبان ہیں. عوام دو وقت کی روٹی کی محتاج ہے مگر دو سو ارب ڈالرز سے زائد ملک کے لوٹے ہوے اثاثے اس وقت ہمارے حکمرانوں کے سوئس بنک اکاونٹس میں موجود ہیں . اگر جمہوریت کے علمبردار ملک و قوم سے مخلص ہوں تو آج سیلابی امداد کے لئے یوں کشکول اٹھاے خیرات نہ مانگ رہے ہوتے ہمارے یہ لوٹے ہوے ملکی اثاثوں کو ہی اگر واپس لے آیا جائے تو ان میں اتنا دم ہے کہ وہ اپنی اس بے سہارا عوام کا بوجھ بنا کسی سو بھیک مانگے خود اٹھا سکے . اگر مکسیکو اپنے لوٹے ہوے چوہتر ملین ڈالرز کے اثاثے سوئس بنک سے واپس منگوا سکتا ہے ، نائجیریا اپنے لوٹے ہوے سات سو ملین ڈالرز واپس وصول کر سکتا ہے، فلپائنی حکومت اگر اپنے چھ سو چوراسی ملین ڈالرز کی واپسی کے لئے قانونی جنگ لڑ سکتا ہے ، اور پھر ارجنٹائن ، پیرو جیسے ملک اپنے ملکی اثاثوں کی واپسی کے لئے ہمت دیکھا سکتے ہیں تو ہماری یہ جمہوری حکومت ملک پر چھا ے تباہی و بربادی کی آندھیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے اپنے لوٹے ہوے ملکی اثاثے واپس کیوں نہیں منگوا سکتی .؟..مگر افسوس یہاں عوامی ہمدردی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف حال ہی میں دنیا نے یہ عظیم نظارہ دیکھا کہ چلی میں ستر دنوں سے زیر زمین پھنسے ہوے تینتیس کان کنوں کو نکالنے کا وقت آیا تو اس تین روزہ ریسکیو اپر یشن کے دوران ان کا جمہوری صدر اپنی اہلیہ سمیت ریسکیو ٹیم کے ساتھ وہاں اٹھتا لیس گھنٹوں تک اس مقام پر آخری کان کن کے سلامت باہر نکل انے تک موجود رہا . کیوں کہ اس کی خواہش تھی کہ بیحثیت ایک جمہوری صدر وہ اس موقعہ پر اپنی موجودگی سے اپنی عوام کا حوصلہ بلند کرنا چاہتا ہے . اور ہمارے یہاں بہتی الٹی گنگا کا نظارہ بھی دنیا نے دیکھا جب سیلاب نے ملک بھر میں تباہی پھیلا دی فاقہ زدہ سیلاب زدگان امداد کے منتظر دہائیاں دے رہے تھے مگر ہمارے جمہوریت کے شہنشاہ مغرب کی سیر سے لطف اندوزی فرما رہے تھے .
ملک و قوم کے سر پر منڈلاتے بحرانات کے ان سیاہ بادلوں کے زمہ دار بے حیثیت قوم ہم خود ہیں جو ان نا اہل بے حس حکمرانوں کو اقتدار پر بٹھاتے اور پھر یہ توقعہ کر لیتے ہیں کہ یہ ہمارا بھلا سوچیں گے، زرداری جائے گا نواز شریف آ جائے گا، شریف برادران جاییں گے تو پھر بھٹو خاندان تخت نشینی سنبھال لے گا ، ہمارے حکمرانوں نےتو یہ ٹھان ہی رکھی ہے کہ اپنی روش نہیں بدلنی خواہ حالات کوئی بھی ہوں. مگرہم نے سیاہ تاریخ اور تلخ تجربات سے سبق نہ سیکھنے کا تہیہ کیوں کر رکھا ہے ؟ . .. .نجانے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بانجھ زمین سے . فصل کی توقعہ رکھنا سرا سر حماقت نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟ اور ہماری اسی حماقت اور حکمرانوں کی روش نے آج پاکستان کو بحرانستان تک لا پہنچایا ہے .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team