اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔11-11-2010

ذبح عظیم

کالم------------- عفاف اظہر

عید الاضحی کی آمد آمد ہے . عید اضحی ایک بہت ہی پیاری یاد کو تازہ کرنے کے لئے منائی جاتی ہے . وہ یاد جن میں بے شمار قربانیاں مچل رہی تھیں ہاں وہی یاد جس کی وجہ سے بطور تغافل جانور ذبح کئے جانے کا حکم ہوا . جسے قربانی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے . حضرت حاجرہ جنہوں نے مجبوراً ہجرت کی اور حجر کی دل آزار گھڑیوں کو خدا کی رضا اور خوشنودی کی خاطر برداشت کیا ...عورت ذات ... بے اب و گیاہ وادی ....ویرانہ ہی ویرانہ ...نجانے کتنے خد شات سینے میں طوفان کی طرح اٹھ رہے تھے اور پھر معصوم لخت جگر کی حفاظت . اور اس کی ضروریات کے مہیا کئے جانے کی فکر اور بلآخر بغیر پانی تشنگی کے عالم میں ماں کے سامنے اسکے معصوم بچے کی موت و حیات کی کشمکش کا درد انگیز منظر ، الغرض کتنی ہی قیامتیں تھیں جن کا ایک صنف نازک کو سامنا تھا ...کتنی ہی حشر سامانیاں تھیں جو مہجور دل کو برمانے کے لئے در آیئ تھیں ....اسی لئے تو اس دل ہلا دینے والے واقعہ کو ذبح عظیم قرار دیا گیا کہ خدا بزرگ و برتر نے نہ صرف ابو الانبیا حضرت ابراہیم بلکہ حضرت حاجرہ اور انکے معصوم لخت جگر حضرت اسماعیل کو بھی رہتی دنیا کے لئے ایک زندہ نشان بنا دیا اور انکے اس بےچینی کے عالم میں سرزد ہونے والے ہر اس فعل کو زندہ رکھنے کا وعدہ کیا جس کا مقصد فقط خداۓ باری کی رضا تھی . حضرت حاجرہ جب اپنے بچے کو لے کر موت کی وادیوں میں سے گزرتی ہوئی یہ الفاظ رقت آمیز لہجے میں کہ رہی تھیں کہ " اگر خداے بزرگ و برتر کے فرمان کے مطابق ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہو تو وہ خداے رحیم ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا " اس پر ایک معصوم بچے کی تابعداری اور توکل کا یہ عالم کہ جس نے اپنی گردن خود چھری کے حوالے کرنے میں لمحہ بھر کو بھی تردد نہ کرتے ہوے توکل باللہ پر ایک باپ کے محبت بھرے دل کو حاوی ہونے سے بچاتے ہوے نفس کی قربانی کی ایک ایسی داستان رقم کر دی جس کے سامنے ہر ایک قربانی پھیکی پڑ گی . ایک باپ کا بیٹے کی گردن پڑ چھری چلانے کا ارادہ کر لینا اور ایک بیٹے کا خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا یہ وہ ذبح عظیم تھا جسے بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت حاصل ہواجس کا دوسرا نام عید الاضحی ہے ہاں یہی تو تھا وہ لمحہ کہ جب کاتب تقدیر نے بھی خدا کی محبت میں سرشار ان عظیم نفوس کی بیقراری کے عالم میں سر زد ہونے والی حرکات و سکنات اس ذبح عظیم کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بنانے کا فیصلہ فرمایا اور ہر سال حج کے موقعہ پر ان افعال کو بجا لانے کے لئے دنیا بھر کے حکماء فلاسفرز اور اہل عقل و خرد کو پابند کر دیا کہ اس راہ کی دیوانگی میں لاکھوں فرزانگیاں قربان کی جا سکتی ہیں . یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھیسکھاے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی ا عمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے کے مصداق ہر حرکت ہر بےچینی کے پیچھے قربان ہوتا ہوا انکا نفس بھلا خدا کی نظر سے کیوں کر چھپ سکتا تھا اسی لئے اس قربانی کی یاد قیامت تک محفوظ کر دی گی اور حسب استطاعت جانوروں کی قربانیاں کرنے کے احکمات کے ساتھ اس یاد کو بار بار دہرانے اور تازہ رکھنے کے سامان بھی پیدا کر دے گئے . . افسوس صد افسوس دنیاوی لذات میں کھو کر آج ہم ذبح عظیم کی حقیقی روح کو فراموش کر کے عید الاضحی یعنی اس سنت ابراہیمی کو فقط اپنی نمود و نمایش ہی کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں . ایک بکرے کی بجاے تین یا چار جانور ذبح کر کے معاشرے میں اپنی دولت کی دھاک بٹھانا .... قربانی کا گوشت حقداروں میں تقسیم کرنے کی بجاے دوستوں کے ساتھ دعوتوں میں اڑانا ..یا پھر محظ گوشت کو سال بھر محفوظ رکھنے کی نیت سے عید سے قبل ڈیپ فریزر خریدنا ... گھر پر یا ہوٹلوں میں عید کی شاندار پارٹیوں کا اہتمام کرنا ... الغرض آج ہماری عید الاضحی صرف مظلوم و بےزبان جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلا کر معاشرے میں اپنی دولت کی نمود و نمایش تک محدود ہو کر رہ گی ہے . اس عظیم قربانی کا اصل مفہوم تو یہ تھا کہ انسان اپنے نفس کی ناقہ کو قربان کرے اور انقطا ع کی چھری سے اپنی خواہشات نفسانی کی گردن کاٹ دے یہی وہ نیت ابراہیمی ہے اور یہی سنت اسماعیلی اور یہی ہے وہ ذبح عظیم جس کی حقیقی روح کو فراموش کر کے ہم بیشک لاکھوں جانور ذبح کرتے چلے جا ییں تمام بے سود اور فقط جانوں کا زیاں ہے . ذبح عظیم تو وہ تھا جو اپنے دل سے ذبح ہو رہا ہو.... ذبح عظیم تو نفس کو قربان کرنے کا پیغام تھا . ....ذبح عظیم تو اپنی نفسانی خواہشات کی گردن کتنے کا نام تھا .....اور ذبح عظیم تو خود اپنے حقوق اپنے ہاتھوں تلف کرتے ہوے اپنے مال کا حصہ قربانی کے گوشت کا ایک بڑا حصہ غربا و مساکین میں تقسیم کرنا تھا .....کیوں کہ خالق کائنات کی خوشنودی کا راستہ اسکی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی سے ہو کر جاتا ہے ... جی ہاں حقوق العباد کے بنا حقوق الله بے سود ہیں یہی وہ تعلیم تھی جو اسی ذبح عظیم کا ایک پیغام بھی تھی ...کہ مخلوق خدا سے ہمدردی کے بنا خالق سے محبت کے تمام دعوے لا حاصل ہیں . آج ہم نے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے کی رسم تو اپنا لی لیکن سنت اسماعیلی کو قطعا فراموش کر تے ہوے اپنے نفس کو بے لگام ہی چھوڑ دیا تمام کی تمام حقیقی قربانیوں اور ذبح عظیم کی روح کو کتابوں میں دفن کر کے بے زبان جانوروں کا خون بہانے گوشت کھانے اور دعوتیں پارٹیاں اڑانے کوبنا نیت ابراہیمی کے قربانی اور بنا سنت اسماعیلی کے عید الاضحی سمجھ لیا . جب کہ حقیقی قربانیاں تو آج یہ بے چارے بےزبان جانور دے رہے ہیں اپنی جانوں کا ہمارے ہاتھوں زیاں کر کے افسوس کہ اس .ذبح عظیم کی روح کو آج یہ بیچارے بےزبان جانور تک تو سمجھ گئے مگر یہ نسل ابراہیم آج بھی اس سنت اسماعیلی سے ناواقف ہی ہے .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team