اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔14-11-2010

تدارک

کالم------------- عفاف اظہر

 سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نےکہا ہے کہ کراچی میں سی آّئی ڈی کے سینٹر پر گزشتہ رات ہونے والا خود کش حملہ ’کراچی میں ہونے والا سب سے بھیانک حملہ تھا۔‘وزیرِ اعلیٰ سندھ نے جمعہ کو سی آئی ڈی سینٹر کے دورے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی اطلاعات تھیں کہ کچھ لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔ ’اس حوالے سے ہم نے احتیاط برتی ہوئی تھی لیکن حملہ مکمل تیاری کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (پولیس) کے جوانوں نے مقابلہ کیا ہے اور جو ہلاک ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر پولیس اور ایف سی کے جوان ہیں‘۔پولیس ہیڈ کواٹر گارڈن میں ایف سی اور سی آئی ڈی کے آٹھ اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور آئی جـی سندھ صلاح الدین بابر خٹک نے شرکت کی۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ہلاک ہونے والے اہلکاروں کے لواحقین کے لیے پانچ پانچ لاکھ رپے معاوضے کا اعلان کیا۔ کراچی حملے کی تحقیقات کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں استعمال ہونے والے ٹرک کی رجسٹریشن کراچی کی تھی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق، حملہ آوروں کی تعداد کم از کم آٹھ تھی اور انھیں شبہہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان اس میں ملوث تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور پہلے گیٹ پر تعینات پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرکے اندر داخل ہوئے اورپھر ٹرک کو اڑا دیا۔ پولیس نے تین روز قبل شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی کے چھ اراکین کو گرفتار کر کے اسلحہ بارود برآمد کیا تھا، سی آئی ڈی سینٹر پر حملے کی کڑیاں اس سے ملائی جا رہی ہیں۔ دھماکے کے چند قدم کے فاصلے پر وزیر اعلیٰ ہاؤس واقع ہے اور ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دو فائیو سٹار ہوٹل، امریکی قونصل خانہ اور کراچی کلب کی عمارت موجود ہے۔ دھماکے کی جگہ پر پندرہ فٹ بڑا گڑھا پڑ گیا۔ اس حملے کو ستمبر دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد میں میریئٹ ہوٹل پر ہونے والے حملے جیسا قرار دیا جا رہا ہے جس میں ساٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔کراچی کے حالات پر تخریبانہ عناصر کو قصوروار ٹہرایا جائے یا پھر حکومت کی نااہلی کہا جائے اس سےقطع نظر ہم یہ تو ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ طالبان نے ایک گاڑی پر ایک ہزار کلو بارود لادا اور قبائیلی علاقوں سے لے جا کر سیدھا بلڈنگ میں دے مارا؟ اور ظاہر ہے کہ یہ بات مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ ۔ ۔ جب کراچی اور باقی ملک میں مدرسے اور مساجد نفرت کی تبلیغ اور دوسروں کے قتل کے فتوے اور خودکش حملوں پر حوروں اور جنت کے خواب دکھائیں گے تو ’ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں‘ والی بات ہی ہوگی . طالبان ایک طرف اپنے ملک کے کسی ايک ہم مسلک مولوی يا مذہبی سياسی ليڈر کا نام سوچ لیں جس نے آج تک اِس دہشتگردی کی کُھل کر مذمت کی ہو۔ ہمارے مذہبی علما حضرات کا تو ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے کہ ادھر بم دھماکہ ہوا اور جھٹ سے واردات کا الزام امريکہ، بھارت اور اسرائيل پر لگا کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو گئے مگر اِن دہشتگرد حملوں ميں استعمال ہونے والے اور ذمہ دارياں قبول کرنے والے مقامی گروہوں اور ان کے ليڈروں کے متعلق ايک لفظ نہيں کہتے۔ اصل منافقت تو یہی ہے کہ آج تک صرف اور صرف اپنے مفاد کا آدھا سچ اور آدھا حق بيان کيا جاتا آ رہا ہے . اور کوئی ان سے یہ بھی پوچھنے والا نہیں کہ وہ درندہ صفت سيالکوٹيوں کا جلوس کیا بليک واٹر والوں کا تھا؟ سو بچوں کا بیدردی سے خون کرنے والا وحشی کیا اسرائیلی تھا ؟ یا پھر کیا عورتوں کے ساتھ کی جانے والی روزمرہ کی روایتی پرتشد د کاروائیوں میں بھی ہندوستان ہی کا ہاتھ ہوتا ہے ؟سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ بارود سے بھرا کروڑوں کی مالیت کا یہ ٹرک کراچی کے دل تک پہنچ کيسےگیا ؟ اخر کون مالی امداد فراہم کر رہا ہے ان دہشتگردانہ عناصر ان ہنستے بستے شہروں کو اجاڑنے کی اور کون راہیں ہموار کر رہا ہے ان وطن دشمن عناصر کی اپنی ہی اس سر زمین پاک کو لہولہان کرنے میں ؟ ایک بات تو بہر حال طے ہے کہ يا تو ہماري سکيورٹی فورسز ان ملی ہوئی ہيں يا پھر ہماري سکيورٹی فورسز دنيا کی لا پرواہ ترين ناکارہ انتہائی غیر ذمہ دار اور نا اہل فورسز ہيں . جنہوں نے بار بار یہ ثابت کر دیا ہے کہ آج یہ بیسویں صدی کا پاکستان جہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے خود اپنا تحفظ نہیں کر سکتے تو عوام کو اداروں سے توقعات وابستہ کرنے کی بجاے اپنی مدد آپ کے اصول اپنا لینے چاہئیں . ورنہ پھر انکا الله ہی حافظ ہے . دہشت گردوں کی کمر توڑ دينے کا دعويٰ کرنے والے سياسی پنڈت اب کیوں خاموش ہیں ؟ ہمارے حکمران ٹولے کو پتہ نہيں ابھی اور کس عذاب کا انتظار ہے۔ دہشتگرد ہمارے شہروں میں گھس جاتے ہیں، وہاں ہماری آباديوں ميں رہتے ہيں، درندگی کی تيارياں کرتے ہيں۔ کيوں لوگوں کی يا انتظاميہ کی ان پر نظر نہیں ہوتی يا ان لوگوں پر جو مقامی طور پر ان کا ساتھ ديتے ہیں مگر ہماری ہر حکومت اقتدار کے نشے میں اس طرح دھت ہوتی ہے کہ نہ ہی حکومتی اداروں کی اجڑتی ساکھ ان کی نیند میں خلل ڈالتی ہے اور نہ ہی ان کے خواب دھماکوں سے ٹوٹتے ہیں . سر ممبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیںعلاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیںہمارے درد کا جالب مداوا ہو نہیں سکتاکہ ہر قا تل کو چارہ گر سے ہم تعبیر کرتے ہیں پاکستان کا ہميشہ سے يہ الميہ رہا ہے کہ يہاں کچھ لسانی اور نام نہاد مذہبی گروہوں نے جرائم پيشہ عناصر کی سرپرستی کھلے عام کی ہے۔ ملک بھر کے مجرموں اور مفروروں کے لیے کراچی ايک محفوظ پناہ گاہ بن گيا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا اور صنعتی شہر ہو کر بھی يوں لگتا ہے جيسے اس شہر کا کوئی والی وارث ہی نہيں۔ اور جو لوگ ايسے عناصر کے سرپرست ہيں وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہيں۔ ايسے ميں عام آدمی نے اٹھ کر کچھ کيا تو ٹھيک ورنہ لاشيں گرتی رہيں گی اور خون بہتا رہے گا کہ تقدير اور تدبير بزدلوں اور بے حس لوگوں کے لیے نہيں ہوتی اور پھر جس قوم کو میر جعفر و میر صادق جیسے مذہبی و سیاسی حکمران مہیا ہوں تو پھر وہاں اس قسم کے دھہشتگردانہ واقعات ہونا کوئی انہونی بات نہیں ملک بھر میں جاری و ساری یہ خون کی ہولی کب رکے گی اور رکے گی بھی یا نہیں اسکا کچھ کہا نہیں جا سکتا ہاں لیکن ان مسائل کی بنیادی وجوہات اور صحیح سمت کا تعین کرنا ہی آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کراچی سمیت پاکستان بھرکے نوجوان طبقے کو اس ملک کی اشرافیہ اور حکمران طبقے نے ہمیشہ پلیٹ فارم کے طورپراستعمال کیا اور پھراپنی منزل پانے کے بعد یا ملک و قوم کے خزانے اور وسائل لوٹنے کے بعد بالکل اسی طرح بے یارومددگار چھوڑکرنظرانداز کرتے ہوئے ان سے منہ پھیرلیا جسطرح افغانستان میں تربیت اور بھاری رقوم دیکر جہاد کیلئے لائے گئے مجاہدین کو امریکا نے روسیوں کی شکست اور انخلا کے بعد چھوڑدیاتھا اور جس کے بھیانک نتائج وہ خود،پاکستان اور پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں لینڈگریبرز اور قبضہ مافیا کے بہت سے گروہ سرگرم ہیں، پس پردہ کارروائیوں کے مذموم مقاصد کوبے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔۔قومی دولت اور خزانے لوٹنے والے حکمرانوں نے ہردورمیں ملک کے لئے کچھ نہیں کیا جس سے بےروزگاری بڑھی،جرائم میں تیزی سے اضافہ اسی بے چینی اور اضطراب کا نتیجہ ہوسکتا ہے ۔ جس کے فوری ازالے اور تدارک کی اشد ضرورت ہے. تاکہ ان بیروزگاری کے ستا ے ہووں کودو وقت کی روٹی کے عوض وطن دشمن طاقتیں اپنے مذموم ارادوں میں استعمال نہ کر سکیں اور غربت کی چکی میں پستے یہ مجبوریوں کے جہادی شدت پسندوں کے ہتھے نہ چڑھ سکیں ..ورنہ یہ جسم گرنے اور لاشیں اٹھانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا.

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team