اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔22-11-2010

کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہں

کالم------------- عفاف اظہر

عیسیٰائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بنیڈ کٹ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ آسیہ بی بی کو رہا کریں جنہیں توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا سنائی جا چکی ہے . پوپ بنیڈ کٹ نے اپنے ہفتہ وار خطاب میں کہا کہ پاکستان میں عیسائی برادری کو اکثر تشد د اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے . انہوں نے آسیہ بی بی کی رہائی کی اپیل کی جو پانچ بچوں کی ماں ہیں جنہیں نومبر میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت سنائی جا چکی ہے . انہوں نے مزید کہا کہ وہ دعا کرتے ہیں کہ اس طرح کے حالات کا سامنا کرنے والے ہر شخص کے انسانی وقار اور بنیادی حقوق کا احترام ہو . پاکستان میں عیسائی خاتوں آسیہ گزستہ ڈیڑھ برس سے قید ہیں جن کی سزائے موت کے اس فیصلہ سے جس پر آسیہ کا کہنا ہے کہ وہ تمام الہامی کتب اور انبیاہ کا دل سے احترم کرتی ہے اور کسی کی توہین کرنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتیں یہ الزام سراسر غلط اور بےبنیاد ہے جس پر انھیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین ایک مرتبہ پھر زیر بحث آ گئے ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قوانین پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں جنہیں ایک طویل عرصۂ سے اقلیتی لوگوں کے خلاف ذاتی جھگڑوں میں استعمال کیا جا تا آ رہا ہے . انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے حسب معمول مذمت کی جا رہی ہے اور ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کا کا کہنا آہی کہ ملک پہلے ہی انسانی حقوق کے قوانین کے ضابطوں کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہے اور اس پر اس طرح کے فیصلے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہیں . . پاکستان خصوصا پنجاب میں توہین رسالت کے مقدمات عام ہیں جن مقدمات پر لوکل عدالتیں اکثر ملزمین کو موت کی سزا سنا دیتی ہیں بلکہ اس سے قبل تو بیشمار ایسے واقعات بھی ہو چکے ہیں جن میں توھین رسالت توہین قران اور توہین اسلام کے جیلوں میں قید ملزمین کو جیل میں ہی جوشیلے عاشقین اسلام کے حملوں نے موت کے گھات اتارا دیا تھا اور بیشمار ایسے ہندو بھی ہیں جن کو ذاتی عناد کی بنا پر توہین رسالت کے اس قوانین کی آڑ لے کر طاقتور عناصر نے راستے سے ہٹا دیا تو ایسے عیسائی بھی جنہیں فقط انکے عقائد سے تعصب کی بنا پر اسی قوانین کا شکار بنایا گیا . اور بیچارے احمدی وہ تو ہیں ہی ہمیشہ سے قربانی کے ایسے بکرے جن کی گردنوں پر فتوہ کفر کی تیز دھار چھریاں ہاتھوں اور پاؤں میں فتوہ واجب القتل کی بیڑیاں اور لبوں پر توہین رسالت کے قفل ہیں ..ایسے بےزبان جانور ہیں کہ جن کی لاشوں کو قبروں سے اس لئے نکا ل پھینکا جاتا ہے کہ قبرستان کے باقی مردوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں جن کی عبادت گاہوں کو اس لئے تحفظ حاصل نہیں کہ ان کی عبادتیں دوسرے مسلمانوں کا دل دکھانے کا سبب بنتی ہیں . جنکے طالب علموں کو تعلیم سے محروم تاجروں کو تجارت سے محروم اور سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کو زندگیوں سے محروم صرف اور صرف اسلئے کر دیا جاتا ہے کہ انکے عقائد سے مسلمانوں کے شیشے سے بھی نازک جذبات کو ٹھیس جو پہنچتی ہے. توہین رسالت کا لفظ زبان پر اتے ہی بے اختیار ذھن کی سوئی رسول خدا محمد مصطفیٰ صلی الله و الیہ وسلم پر آ کر اٹک جاتی ہے وہ رحمت انسانیت جو بلا شبہ رحمت تھے تمام جہانوں کے لئے جس کا ثبوت فتح مکہ کا دور ہے جب اکرمہ بن جہل جیسے شر پسند و بد ترین دشمنوں کو بھی معاف کر دیا گیا تھا . توہین رسالت کا مطلب ہے ہر وہ چیز جس سے رسول الله کی شان میں گستاخی ہو چاہے وہ ہماری زبان ہاتھ یا پھر ا عمال ہی کیوں نہ ہوں . ایک مسلمان ہونے کے ناطے اگر ہمارے افعال و اقوال قران و سنت کے منافی ہیں تو یہ بھی توہین رسالت کے زمرے میں اتا ہے . بلکل اسی طرح جیسے ایک طالب علم کلاس میں بیٹھ کر استاد کی بات ماننے سے منکر ہو . تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم رسول الله سے محبت کا تو دعوی تو رکھیں مگر ہمارے افعال ان کی سنت و احادیث کو رد کر رہے ہوں . کیا ہمارے قانون ساز ادارے سنت رسول سے لا علم ہیں ؟ کیا ہمارے احکام ا علی خلفا راشدین کے دور حکومت سے نا واقف ہیں ؟ یا پھر ہماری ہمیشہ سے مظلوم و معصوم مگر اسلام کی محبت میں سرشارپاکستانی قوم اسلام اور قران کی تعلیمات سے کلی طور پر بے بہرہ ہیں ؟ اور مذہبی علما سے تو شکوہ ہی فضول ہے کیوں کہ انکے یہ غیر انسانی فتوے ، بغض و عناد سے بھرے دل و دماغ اور نفرتوں کا پرچار کرتے اقوال و افعال اس حقیقت کو ثابت کر رہے ہیں کہ اسلام آج انکے لئے دین و مذہب نہیں بلکہ فقط کمائی کا ذریعہ اور طاقت کے حصول کا زینہ بن چکا ہے . گویا کہ ہر بات پہ دے دیتے ہو کفر کے فتوےیہ اسلام ترے باپ کی جاگیر ہے کیا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ توہین رسالت کا قانون بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ اقلیتوں کی گردنوں میں پھندا ڈالا جا سکے ورنہ یہ حقیقت کس نظر سے پوشیدہ ہے کہ ایسے غیر انسانی قانون تو خود ہی تعلیمات اسلامی اور سنت نبوی کے منافی ہیں جب کہ رسول الله کی سنت تو خود پر کیچڑ پھیکنے والی مکہ کی عورت کو بھی معاف کر دینا اور اس سے انسانیت و محبت کا سلوک کرنا تھی آپ کے جسم مبارک کو پتھروں سے لہو لہان کر دینے والی بد بخت وادی طائف کے حق میں بھی دعا کرنا تھی اور اسلامی تعلیمات جو کہ ہیں ہی سر ا سر امن اور انسانیت سے پیار پر مبنی تو پھر اس طرح انسانی حقوق کی پامالیوں انسانی جانوں کی بے حرمتوں پر مبنی قوانین جو کہ بذات خود توہین رسالت اور توہین اسلام کے سوا اور کچھ نہیں بھلا اسلام اور رسول الله کی عزت و ناموس کی حفاظت کیسے اور کیوں کر کرسکیں گے ؟ اور پھر انصاف کا تقاضہ تو یہ بھی ہے کہ اسی طرح کا ایک اور قانون اقلیتوں کے لئے بھی بنایا جانا چاہیے جو کہ ان تمام نام و نہاد مسلمانوں پر اسی طرح سے لاگو ہو جو دوسرے مذاہب کی ہتک کرنا اور دوسرے مذاھب کی شخصیات اور مذہبی پیشواؤں کی توہین و تذلیل کرنا اپنا ذاتی حق اور فرض اولین سمجھتے ہیں تاکہ انھیں خود بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے موقعہ دیا جائے اور جن کی محبت فقط نعروں تک محدود ہے ، کیوں کہ مذہبی غیرت تو سب کی برابر ہے کہ قران پاک کی سوره الا نعام کی آیت نمبر ایک سو نو میں ارشاد خدا وندی ہےکہ " اور تم انکے جھوٹے معبودوں کو گالیاں مت دو تاکہ وہ دشمن ہو کر جہالت کی بنا پر تمھارے سچے معبود کو گالیاں نہ دیں " مگر افسوس کہ ہمارے اپنے جذبات تو شیشے سے بھی نازک ہیں کہ اقلیتوں کے سانس لینے سے بھی مجروح ہو جاتے ہیں مگر خود نہ صرف سر عام دوسرے عقائد کی تعلیمات کو برا بھلا کہتے بلکہ دوسرے عقائد کے خلاف نفرت اور غلاظت سے بھرپور کتب و جرائد کا بازاروں میں آسانی سے دستیاب ہیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہم تو واجب القتل کے فتوے دے کراقلیتوں کے خون سے ہولی تک کھیلنے کو مسلمانیت کا فرض اولین گردانتے چلے آ رہے ہیں . قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیںکچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں آج یہ توہین رسالت کا قانون انتہا پسند ملاؤں کے ہاتھوں میں ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو نہ صرف انکی طاقت کا دائرہ وسیح کرتا چلا جا رہا ہے بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستانی تعلیم و ترقی سے محروم معاشرے میں ایسے قوانین کی موجودگی کو ذاتی بغض و عناد کے لئے استعمال کرنا یقینی امر بن جاتا ہے . انبیا کی توھین و ہتک ہر معاشرے میں ہی نا پسندیدہ ہوتی ہے مگر اس کے لئے قوانین سازی یا سزا کی ضرورت نہیں خاص طور پر اسے معاشرے میں جہاں شدت پسندی کا دور دورہ ہو اور مولوی حضرات نے مذہب کا مذاق بنا رکھا ہو . ورنہ وہ کیا بات تھی کہ نہ تو رسول الله صل الله الیہ وسلم کے دل میں خود تو گالیاں سننے پر کیچڑ پھینکنے پر اور لہو لہان کر دینے پر بھی اس طرح سے اپنی توہین کا احساس نہ جاگا کہ موت کی سزائیں دینے کی نوبت آے اور نہ ہی انکے صحابہ اکرام رضی الله عنہ نے اپنے بےمثال عشق رسول کے باوجود کوئی بھی ایسی مثال چھوڑی کہ جن سے انسانی جانوں کی بے حرمتیوں کا درس ملے اور نہ ہی خلفا راشدین کے سنہرے دور حکومت میں کسی بھی اسے واقعہ کی بھنگ بھی پڑتی ہو کہ انھیں رسول الله سے محبت و عقیدت جتانے کے لئے توہین رسالت کے نام پر قوانین سازی کر کے انسانی حقوق کی پامالیوں کی تلقین کرنے کی ضرورت پیش آیئ ہو . کیا خلفا راشدین یا اصحابہ اکرم کو رسول الله کی عزت و ناموس کی پرواہ نہیں تھی یا پھر آج ان مولوی حضرات کو توہین رسالت کا مطلب زیادہ اچھی طرح سے سمجھ آنے لگا ہے ؟ یا کہ پھر رسول الله کو خود اپنی ہتک کا احساس نہ تھا جو مکہ کی تاریخ میں عفو و درگزر انسانیت سے بے لوث محبت کی ایسی سنہری مثالیں قائم کرتے رہے کہ غیر مسلم بھی بے اختیار کہ اٹھے کہعشق ہو جائے کسی سے چارہ تو نہیںصرف مسلم کا محمد پر اجارہ تو نہیں یقینا رسول الله سے محبت و عقیدت جز و ایمان ہے . اور کوئی شخص بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے والدین عزیز و اقارب سے بڑھ کر رسول الله کی ذات پاک سے محبت نہ کرےاور ایک مسلمان کے لئے رسول الله کی ذات اقدس اس محور کی ماند جس کے ہالے میں گردش ہی اس کی پہچان ہے اور آپ کے وجود مقدس سے عشق و محبت اور عقیدت کا صرف یہی تقاضہ ہے کہ آپ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے آپ کی سنت پر عمل پیرا ہوا جائے آپ کی قائم کی ہوئی مثالوں سے سبق اندوز ہوا جائے اور اس محسن انسانیت کے چاہنے والوں کی حیثیت سے خود کو انسانیت سے بے لوث پیار کے سانچے میں ڈھالا جائے . اگر ایک نظر اس رسالت کی تعلیمات پر ڈالیں جس کی توہین کے نام پر ایسی حیوانی قوانین سازی کی گی تو شرم آتی ہے اس معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہتے ہوے . اگر لمحہ بھر کو رسول خدا کی سنت اور ان کی اقوال و احادیث کی دیکھا جائے تو شرم اتی ہے اپنے جنگل کے قوانین پر مبنی انسانی حقوق کی پامالیوں انسانی جانوں کی بے حرمتوں کی آے روز زندہ مثالیں پیش کرتے حیوانیت سے بھرپور معاشرے پر ... شرم اتی ہے کہ آج ہم عقل فہم رکھتے ہوے ہی ان انسانی حقوق کی بے دریغ ہوتی پامالیوں پر خاموش ہیں ...شرم اتی ہے کہ آج ہم اسلام زندہ باد کے نعرے لگانے میں اس قدر محوہیں کہ اسلامی تعلیمات ہی کو نظر انداز کرتے چلے جا رہے ہیں ...شرم اتی ہے کہ ہم آج توہین رسالت کے شور مچانے میں اسقدر مصروف ہیں کہ رسول الله کے اقوال و سنت کی نفی کرتے انسانیت کی توہین و تذلیل کرتے خود ہی متواتر توھین رسالت کے مرتکب ہوتے چلے جا رہے ہیں ....شرم اتی ہے کہ آج ہم دوسروں کو کافر و ملحد ثابت کرنے میں اسقدر مصروف ہیں کہ اسکے لئے خود ہی کفر کی تمام تر حدیں پھلانگتے چلے جا رہے ہیں .شرم اتی ہے کہ امریکا یورپ اسرائیل و ہنوستان میں انسانی حقوق کے تمام قوانین ہمیں ازبر ہیں اور انکی آنکھ کا تنکا بھی ہماری نظر سے پوشیدہ نہیں مگر اپنی آنکھ کا شہتیر مسلسل نظر انداز کے اپنے ہی ملک میں اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی ہموطنوں کے ساتھ ہوتے مظالم ان بد سلوکیوں اور اسلام کے نام پر کلنک اور رسول اللہ کی ذات مقدس پر کیچڑ اچھالنے کے مصداق وحشیانہ غیر انسانی قوانین پر بھی خاموش ہیں ...کیوں ؟؟؟نجانے کیوں ؟؟

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team