اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔09-01-2011

کیا جہالت کے جنوں سے قوم پاگل ہو گئی ؟

کالم------------- عفاف اظہر

 گزشتہ ہفتہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل ہوا تو گویا ایک فارغ البال قوم کے ہاتھوں چٹ پٹی خبر ہی آ گی میڈیا کے تمام صحافتی اداکار سرگرم عمل تھے تو سیاسی فنکار بھی اپنی اپنی بولیوں میں کہاں کسی سے کم تھے ،ہر کسی نے ہی اس موقعہ پر اپنا اپنا کردار با خوبی نبھایا ایک طرف مذہبی بہروپئے تھے جنہوں نے نام و نہاد شریعت کے زہر آلود نشترچلا چلا کر مذہب کی چھاتی کو خوب لہو لہان کیا تو دوسری طرف کالے کوٹ والوں کے کالے کرتوتوں نے بھری عدالت کے باہر ایک قاتل کو پھولوں کے ہار پہنا کر ایک خونی ایک مذہبی جنونی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے قانون اور انصاف کی شہ رگ پر بھرپور گھناونے وار کئے . .اب بھلا عوام ایسے میں کہاں کسی سے پیچھے رہنے والی تھی ، ہم نے بھی جو کیا خوب کیا ...ایک گورنر کے قتل پر مٹھائیاں بانٹیں بھنگڑے ڈالے ، کسی نے اس کو توہین رسالت کا نام دے کر قتل کو جائز قرار دیا تو کسی نے ایک مسلمان کے جنازے کو ہی حرام قرار دے دیا ....کسی نے قاتل پر پھول نچھاور کئے تو کسی نے ایک قاتل کو ہیرو ہی بنا ڈالا ... کسی نے گورنر کو غلط کہا تو کسی نے قاتل کو سہی ...کسی نے سلمان تاثیر کو شہید بنا ڈالا تو کسی نے قاتل کو مرد مجاہد …میں حیران تھی کہ دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ..... ، توہین رسالت کے نام پر اندھا دھند توھین انسانیت ... دنیا بھر کے ٹی وی چینلز ایک قاتل کو پھولوں کے ہار پہنانے اور آسیہ کی موت کے حق میں نعرے دیکھا رہے تھے اور میں سوچ رہی تھی کہ کہ کیا آسیہ اس قوم کی بیٹی نہیں ؟ ایک وہ بیٹی تھی مختاراں مائی جس کی بھرے چوراہے پر اجتمائی ابرو ریزی کی جاتی رہی مگر عدالت تک ایک گواہ نہ آیا اور ایک یہ قوم کی بیٹی آسیہ ہے جو چیخ چیخ کر اپنی مظلومیت کی دوہائی دے رہی ہے مگر یہاں پوری قوم ہی اس کی موت کی تمنائی ہے . جب مذہب اسلام سلامتی کا دوسرا نام ہے تو پھر یہ کون سا مذہب ہے جو اپنی عقیدت کی آڑ میں انسانیت کا خون بہانا جائز قرار دیتا ہے . جب اسلام باہمی اخوات و بھائی چارے کا درس دیتا ہے تو پھر یہ قتل و غارت گری کون سے دین کا درس ہے ؟ ...جب اسلام امن ہی امن ہے اور پاکستان اسلام کا قلعہ تو پھر افق پر ان دہشت و بد امنی کی سیاہ گھٹاؤں کا کیا جواز ہے ؟ ابھی انہی سوالوں کے بحر بیکراں میں غوطہ زن تھی کہ فتح مکہ کا وہ دور یاد آ گیا کہ جب اسی مذہب اسلام کے جھنڈے نے سر عام معافی کا علان کرتے ہوے ہر مذہب کے پیروکار کو اپنے دامن میں پناہ دینے اور انکے تمام تر انسانی و مذہبی حقوق کے حفاظت کی ضمانت دی تھی اور پھر ایک زور دار جھٹکے نے شاندار ماضی سے واپس لا کر ذلتوں بھرے اس حال میں لا کھڑا کیا اور کہاں اسلام کا یہ جھنڈا جس کے نیچے آج خود مسلمانوں کے حقوق بھی محفوظ نہیں رہے .... مسلمان کی وہ تعریف کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ '" کوئی شخص تب تک مسلمان نہیں جب تک اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہ ہوں " اور کہاں آج کے مسلمان کی تعریف کہ جن سے غیر تو غیر خود مسلمان بھی محفوظ نہیں . کیا ہوا کیوں آدمیت کی جبیں شل ہو گئیکیا جہالت کے جنوں سے قوم پاگل ہو گئیسارے دریا، خون نا حق سے لبالب بھر گئےدہشتوں کی بارشوں سے خوب جل تھل ہو گئیکون ہیں بمبار خود خودکش ،ہے کہاں القائدہوہ جو اک پہچان کی مشکل تھی وہ حل ہو گئی سچ تو یہ ہے کہ آج المیہ سلمان تاثیر کا قتل نہیں اور نہ ہی المیہ قاتل کا جنوں ہے بلکہ حقیقی المیہ تو سلمان تاثیر کے قتل پر عوامی رد عمل ہے ، المیہ تو جنونیت کی وہ انتہا ہے جس کا مظاہرہ اس قوم نے پچھلے چند دنوں میں کیا اور دنیا بھر نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ آج سوال یہ نہیں کہ سلمان تاثیر شہید ہے یا قادری مجاہد؟ سلمان تاثیر توہین رسالت کا مرتکب تھا یا کہ پھر قادری مذہبی جنونیت کا ؟ بلکہ آج سوال تو ہمارے نزدیک توہین رسالت کی اس تعریف کا ہے جس نے انسانیت اور حیوانیت کا فرق تک مٹا ڈالا ہے ؟آج سوال تو خود ایک شہید اور ایک مجاہد کی پہچان بن کر رہ گئی ہے ؟. المیہ آج قوم میں جنونیت و جہالت کی وہ انتہا ہے جس نے ہم سے غور و فکر اور تدبر کی وہ تمام طاقتیں سلب کر لی ہیں کہ جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سمجھا سکیں . اسلام علم و عقل حکمت و دانائی کا مذہب تھا جسے آج دہشت و جنونیت کا دین ثابت کیا جا چکا ہے . اسلام جس میں ایک قوم کی طاقت کے تمام راز پنہاں تھے مگر ہماری جہالت نے اسے دکھتی رگ بنا ڈالا ہے . کہ آج ہم جس دین کی خاطر جانیں لینے اور دینے پر ہر دم کمر بستہ نظر اتے ہیں اس کی تعلیمات کے مطابق زندگیاں گزر ا نے کو تیار نہیں ...رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کی حرمت پر کٹ مرنے کو تو ہر دم تیار ہیں مگر ان کی سنت پر عمل پیرا ہونے کو راضی نہیں .... یہی تو حقیقت میں توہین رسالت ہے مگر ہم ماننے کو تیار نہیں ؟ ... اور آج اگر کوئی بھی قاتل کسی کا بھی قتل کر کے سارا ملبہ توہین رسالت پر گرا دے تو جھٹ سے ایک خونی سے ہیرو بن جائے . . نفرت کی اس فصل کی آبیاری سالہا سال سے اقلیتوں کے نا حق خون حکمرانوں کی مفاداتی چپ اور قوم کی گہری پرسکوں نیند نے ہی کی ہے ...مبارکباد کی مستحق ہے یہ عظیم قوم اور اسکے حکمران کہ مفادات کی اس طویل چپ کی بہاریں اب اپنے جوبن پر ہیں اور شدت پسندی کی یہ فصل اب کٹنے کو تیار ہے ، کل تک اقلیتوں کی خاطر تیار کیا ہوا پھندا آج ہر گردن میں ڈلنے کو بیقرار ہے . قوم اور حکمران بھی اب بھگتنے کے لئے کمر کس لے کہ اسی میں ان کی چپ کی عزت ہے. کیوں کہ سیاست میں مذہب کی آمیزش تو سمجھ میں اتی ہے مگر جب مذہب خود ہی سیاست بن جائے تو پھر اس قوم کا ذلتوں میں جینا اور گمنامی کی موت مرنا واجب ہو جاتا ہے . جس قوم کے ہیروز خونی اور پیشہ ور قاتل ہوں اور مذہبی و سیاسی رہنما ڈاکو لٹیرے ہوں انصاف و قانون کے رکھوالے مجرموں کی گل پاشیاں کریں اور خود وہ قوم ایک مسلمان کے قتل پر مٹھائیاں تقسیم کرتی تو کبھی دختر قوم آسیہ کے لئے موت کی دعائیں مانگتی جشن مناتی نظر آے اور جس عظیم قوم کا ہر فرد مجاہد اور ہر کوئی شہید ہو تو پھر بھلا قوم کو خود ساختہ تباہی سے کون بچا سکتا ہے .؟

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team