اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔18-01-2011

لمحہ فکریہ

کالم ----- عفاف اظہر

 
پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے تحت مقدمات کا ریکارڈ رکھنے والے اداروں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس قانون کے غلط استعمال نے نا صرف غیر مسلم اقلیتوں بلکہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے . ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے پر اس قدر سنگین الزامات عاید کرنا ایک معمول بنتا چلا جا رہا ہے جو ملک میں موجود مختلف فرقوں کے درمیان بڑھتی نفرت اور فرقہ واریت کی انتہا کا پتا دیتی ہے . توہین رسالت کے قانون پر تحقیق کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے مطابق اس قانون کے تحت ملک میں ساڑھے نو سو سے بھی زائد مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں سے بیشتر عیسائی ،ہندو یا پھر احمدی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ایک دوسرے کے خلاف ہیں . ساڑھے نو سو میں سے چار سو اسی مقدمات مسلمانوں کے خلاف ہیں اور ساڑھے تین سو کے قریب احمدیوں کے خلاف ہیں اور ایک سو بیس کے قریب مقدمات عیسائیوں کے خلاف اور ہندو شہریوں کے خلاف صرف چودہ مقدمات درج ہیں . اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ وہ مقدمات ہیں جن پر سزائیں عمل میں آیی اور یہ ان درخواستوں کا پانچواں حصہ بھی نہیں ہیں جو مقدمات پولیس کے پاس درج کے گئے پولیس کے ریکارڈ میں توہین رسالت اور توہین مذہب کی چار ہزار سے بھی زائد ایسی درخواستیں موجود ہیں جو ابتدئی تفتیش کے بعد بے بنیاد ہونے کی بنا پر رد کر دی گیئں تھیں .انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے معرض وجود میں انے کے بعد ابتدئی سالوں میں یہ قانون صرف احمدی فرقہ کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا رہا جنہیں تازہ تازہ حلقہ اسلام سے خارج کیا گیا تھا . بعد میں نوے کی دہائی میں ان کا رخ عسائیوں کی جانب ہو گیا جبکہ دو ہزار کے بعد ایک نیا ہی رجحان دیکھنے میں آیا جو آج پاکستانی معاشرے میں موجود شدت پسندی کی بھرپور طور پر عکاسی کرتا ہے . کیوں کہ دو ہزار کے بعد اس قانون کا رخ خود مسلمانوں کی جانب ہو گیا اور سب سے مقدمات خود مسلمانوں کے ایک دوسرے کے خلاف منظر عام پر انے لگے . اس بڑھاتے رجحان کی تازہ ترین مثال ڈیرہ غازی خان کے ان امام مسجد کی ہے جنہیں مخالف فرقے کے ایک اجتماع کا پوسٹر پھاڑنے پر ان کے بیٹے کے ہمراہ چالیس سال کی سزا سنائی گی ہے .قوانین معاشرے کی اصلاح کے لئے بناے جاتے ہیں اور پھر ایک ایسا قانون جس نے معاشرے کو سواے تباہی اور بگاڑ کے دیا ہی کچھ نہیں اس کی حفاظت کا مطلب سواے ذاتی مفادات اندھی تقلید اور جہالت کے اور ہو بھی کیا سکتا ہے ؟ سمجھ سے باہر ہے کہ اس قوم کا خدا کون ہے ؟ ضیاء الحق کے بناے گئے قوانین کو خدائی قوانین کا درجہ حاصل ہے تو پھر دسرے الفاظ میں ضیاء الحق کو خدا کا ہوا .... کیوں کہ خدا اور رسول کے بتاے ہوۓ اصول تو کبھی چلے نہیں اس قوم کے آگے اورتو اور صحیفہ آسمانی کی بھی متعدد آیات تک تو منسوخ ہو چکی ہیں لیکن اگر کسی چیز میں کوئی بھی رد و بدل نہیں ہو سکتی تو وہ فقط توہین رسالت کے قوانین ہیں ....وہ مرد مومن ضیاء الحق جس نے اس قوم اس قوم کو مذہبی انتہا پسندی کی کھائی میں ایسا دھکا دیا کہ گھر گھر میں بارود کی فیکٹری اور مدرسوں میں مجاہدین کی فصل اگا دی .... ،نوجوان نسل کے ہاتھ میں بندوق تو منہ پر ہیروئین کی لت لگا دی ....امریکی آقاؤں کی ایما پر جہاد کے نام پر مذہب سے کھلواڑ کیا قوم کو اندھی تقلید کی ایسی روش پرڈالا کہ ہر مسجد کو ضرار کے مقابل لا کھڑا کیا ..کیا کیا احسانات گنواؤں کہ اس مرد قلندر نے جس شان سے اسلام کو دنیا میں ذلیل و خوار کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا اس کے حواری مللاؤں نے آج تک اس کی لو کو مدھم نہیں پڑنے دیا توہین رسالت کے قوانین کا بانی وہ مرد مجاہد جس نے اس قانون کی آڑ میں ڈنڈے سے خدا اور رسول کی عزت کروانے کے نت نیے ڈھنگ اور انسانیت کی تذلیل کے ایسے ایسے نادر مو ا قح مسلمانوں کو فراہم کئے کہ انسانیت لب دم اور حیوانیت دم بھرنے پر مجبور ہو گی . پاکستانی قوم نے تو گویا اسلام کا ٹھیکہ ہی لے لیا مذہب ایک ایسی دکھتی رگ ہے کہ اس کے نام پر ہر ظلم با آسانی چلتا ہی نہیں بلکہ مذہب کے سایے تلے تمام انسانیت سوز مظالم پھلتے پھولتے ہیں پہلے تو کچھ لوگ طالبان کی مخالفت کی بات کرتے تھے مگر اب ایک مذہب کے جنوں میں ایک انسانی جان لے کر قانون سے کھیلنے والے ایک خونی ایک قاتل کی حمایت میں پورا ملک ہی کیا بلکہ صحافتی آزادی کا علمبردار پاکستانی میڈیا بھی طالبان بن چکا ہے. یہ اس رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم بھرنے والے ہیں جن کی شان میں طائف کے لہولہان کر دینے پر فرق پر نہ مکہ کی گلیوں میں روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکنے پر ان کی توہین ہوئی اور تو اور یہ اس محسن انسانیت کے نام پر جانیں لینے کو کمر بستہ ہیں جنہوں نے ہندہ کے آپ کے پیارے چچا حمزہ کے قلیجه چبا جانے پر بھی معاف کر دینے کا ہی نمونہ پیش کیا . طاقت اور ہمت ہوتے ہوے معاف کرنے کو سب سے افضل قرار دیا . جس اندھی تقلید اور ا عتقاد پرستی کی روش پر ہماری قوم گزشتہ کیی دہائیوں سے چل رہی ہے اس کی اگلی منزل یہ جنونیت ہی تھی ، اور یہ اس کھلی حقیقت کا ثبوت ہے کہ طالبانیت کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے اور اب بہت جلد پوری قوم اس کی بوتل کے اندر ہو گی. جس مذہبی جنونیت کو عشق رسول سے منسوب کیا جا رہا ہے وہ جہالت گمراہی اور حیوانیت کی وہ قسم ہے جس نے آج صبر و تحمل بردباری اور ہوش و حواس تک چھین لئے ہیں اب آگے یہ کیا کیا گل کھلنے جا رہی ہے اس کا اندازہ ہماری سوچ سے بہت آگے ہیں ...یہ اسلام کے لبادے میں "اسلام ہی پر "قاتلانہ حملے اب روز کا معمول بن چکا ہے گورنر کا قتل کوئی پہلا قتل تو تھا نہیں اس سے پہلے گوجرہ ، سمبریاں ،سیالکوٹ لاہور اور فیصل آباد بھی تو یہی جنونیت نما نام و نہاد عشق رسول سر چڑھ کر بول رہا تھا.. . کہ ناز جس خاک وطن پر تھا مجھے آہ جگراسی جنت پر جہنم کا گمان ہوتا ہےالله اور رسول کے نام پر جو جو کچھ پاکستان میں ایک عرصۂ سے ہوتا چلا آ رہا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہی تو ہے کہ آج ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے پاکستان میں اگر یہ سلسلہ اب ختم نہ ہوا تو کوئی بعید نہیں کہ اب یہ ملک ہی ختم ہو جائے . دنیا کوئی کسی بھی قوم نے آج تک اپنے مذہب کی اس درندگی سے تذلیل نہ کی ہو گی جتنی پاکستانی قوم عملی طور پر کرتی چلی آ رہی ہے کہ پغمبر اسلام کی ایک بھی صفات آج ہم میں موجود نہیں مگر ہاں اس کے نام پر کھلواڑ کرنا خوب جانتے ہیں غصہ، نفرت، بے صبری ، حسد، قتل، بد عنوانی، رشوت خوری ، ریاکاری ، جھوٹ ، مکاری ، عیاری، زنا ، بد کاری ، بے حیائی ، توہین ،کون سی برائی ہے جو آج ہم میں نہیں توہین رسالت کی مرتکب تو ہم خود ہیں ہر گلی کی نکڑ پر اس قوم کی ماؤں بہنوں کی عزت تار تار کی جاتی ہے مگر وہاں غیرت ایمانی جوش نہیں دکھاتی ، طاقت اور دولت کے لئے خدا سے زیادہ بندوں کی عبادت کرتے تو وہاں بھی مذہبی جنوں جوش میں نہیں آتا ...اگر محمد نام والے وزیٹنگ کارڈ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے سے توہین رسالت ممکن ہے تو پھر آدھا ننانوے فی صد پاکستانی قوم توہین رسالت کی مرتکب اور موت کی سزا حقدار ہے . کیوں کہ جس طرح ہر پاکستانی اپنے نام کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کسی نہ کسی صفاتی نام کو لگانا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے اسی طرح ہر پاکستانی ایک دوسرے کو گالیاں دینا بھی اپنا اخلاقی حق گردانتا ہے تو کسی بھی ایسے شخص کو گالی دینا بھی تو توہین رسالت ہی ہوئی نہ اس حساب سے پھانسیوں کی تعداد تو اندازے سے کہیں زیادہ ہے اور طالبان بہت کم ...قانون کی کیا بات ہے ہم تو وہ منافق قوم ہیں جو انسانوں کو ازار دینے کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں ہمارے پاس قران جیسا لاح عمل ہے ہم نے اس میں سے بھی فساد برپا کرنے کے حیلے ڈھونڈ رکھے ہیں ہماری آنکھوں میں بہتے لہو کا منظر جچ گیا ہے انسانی لہو کی ارزانی کا عالم نہ قابل بیان ہو چکا ہے ہم وہ گستاخ قوم ہیں کہ دن رات پغمبر اسلام کی تعلیمات کی گستاخی کرتے ہیں لیکن جب کہیں کسی کا خون بہانا مقصود ہو تو یکدم سچے اور پکے مسلمان بن جاتے ہیں .اس حمام میں سبھی ننگے ہیں . اپنی اپنی جنت ہے کسی کو غازی بن کے مل جاتی ہے تو کسی کو شہید ہو کر ..ایسے میں اب ضرورت کسی مسیحا کی نہیں بلکہ فقط ایک ایسے مصطفی کمال اتاترک کی ہے جس کی نظر سے بیرونی داڑھیوں کے ساتھ ساتھ اندرونی بھی نہ بچ سکیں . کہ مر تو ہم کب کے چکے ہیں اب تو بس لاش گل سڑ رہی ہے آج ہمیں گورکن کی ضرورت ہے جو ہماری اس لاش کو اتنا گہرا دفنا دے کہ اس کے تعفن کی بد بو اور برے اثرات سے باقی دنیا محفوظ رہ سکے . بھارتیوں کو آج حقیقت میں قائد ا عظم کا شکر گزر ہونا چاہیے کہ جنہوں نے کمال تجربہ کاری سے سارے ہندوستان کے ان پڑھ جاہل بیوقوف اور بزدل ایک جگہ اکٹھے کر کے باقی دنیا کو پہچاننے کی سہولت دے دی . کیوں کہ ایسی قومیں جو تہذیب و تمدن اور درد و گداز جیسی قدروں سے نا آشنا ہو جاییں وہ بلاخر اپنی موت آپ مر جاتی ہیں . تاریخ میں ان کا نام صرف عبرت حاصل کرنے کے کام اتا آہی اور انے والی نسلیں اور تہذیبیں ہمارے کرتوت بھی اپنے بچوں کو عبرت حاصل کرنے کے لئے سنایا کریں گی کہ جو مظالم آج ہم مذہب کے نام پر ڈھا رہے ہیں عنقریب ہی تاریخ کا مورخ چنگیز خان ، ہلاکو خان اور ہیروشیما نگا ساکی بھول جائے گا .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team