اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔19-02-2011

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں ؟

کالم ----- عفاف اظہر

انڈونیشیا میں جماعت احمدیہ پر ہونے والے مظالم کی ویڈیو فو ٹیج دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے احمدیوں کی مظلومیت سے کہیں بڑھ کردکھ تو آج امت مسلمہ میں جہالت کی اس انتہا پر ہے جوانھیں حیوانیت سے بھی بد تر مظالم خدا کے نام سے منسوب کرنے پر بدستور اکساتی چلی آ رہی ہے .اس بے رحمی سے انسانی جانوں کے چیتھڑے اڑا دئے جاتے ہیں مگر اس خدا رحیم کے نام کے ساتھ کہ جس نے قران پاک میں " ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے "میں اس کشمکش میں ہوں کہ آج انا للہ وانا الیہ راجعون کس کے لئے پڑھوں مظلوم روحوں پر یا پھر ظالموں کی جہالت پر ؟ ....جو ہزاروں کی تعداد پر مشتمل مذہب اسلام کے جنونیوں کا ایک ہجوم الله اکبر کے نعرے لگاتے ہوے چند نہتے احمدی نوجوانوں پر ٹوٹ پڑا ، خون میں لت پت بے یارو مددگار نوجوان ان تابڑ توڑ حملوں کی تاب نہ لا کر اپنی آخری ہچکیاں لے رہے تھے مگر الله اکبر کے نعرے تقطۂ عروج پر تھے اور ہجوم بدستور ان پر انتہائی بے رحمی سے ڈنڈے برساتا ہی چلا جا رہا تھا . اور پولیس ہمیشہ کی طرح یہاں بھی خاموش تماشائی بنی تھی یہ ایک ایسا ہولناک منظر تھا گویا کہ زمانہ قبل از اسلام کی ہی جیتی جاگتی تصویر ہو . آج تک صرف کتابوں میں ہی پڑھا تھا کہ تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے . ایام بچپن میں بہت سنا تھا ان مظالم کا جو قبل از اسلام کئے جاتے تھے . کفار مکہ کی ان بد سلوکیوں پر مبنی بہت سی داستانیں پڑھی تھیں جو اسلام لانے والوں سے روا رکھی جاتی تھیں . اور وہ تمام مظالم بھی جو کبھی حضرت بلال حبشی رضی الله کو ریگستان عرب کی تپتی ریت پر گھسیٹ کر تو کبھی ان غلاموں کو جو مسلمان ہوتے تھے کی چھاتیوں کو جھلستی وزنی پتھر کی سلوں سے زخمی کر کے تو کبھی وہ درندگی کہ جب ام یاسر حضرت سمعیہ رضی الله کی دونوں ٹانگوں کو اونٹوں کے ساتھ باندھ کر جسم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا . کبھی ظلم کے وہ پہاڑ جو شعیب ابی طالب کی گھاٹیوں میں محصور کر کے ڈھا ے جاتے رہے ، بد نصیب و بد بخت وادی طائف تو کبھی بدلے کی آگ میں جھلستی ہندہ کا کچا کلیجہ چبا جانا ...کس کس طرح انسانیت کی تحقیر و تذلیل ان عرب کے صحراؤں میں کی جاتی رہی ....ہاں مجھے یہ تمام تاریخی قصے تو ازبر ہی تھے مگر وقت کی ستم ظریفی کہ ان تمام تاریخی داستانوں کو حقیقت کا روپ دھارنے میں صرف بچپن سے شعور تک ہی کا عرصۂ لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایک کر کے میری نظروں کے سامنے وہ عرب کے صحراؤں کی خون آلود تاریخ کے بوسیدہ اوراق ایک بار پھر سے تازہ لہو کی بہاروں سے رنگین ہونے لگے . ...ہاں فرق تھا تو صرف اتنا کہ جو انسانیت سوز سیاہ تاریخ کفار مکہ کے ہاتھوں سے لکھی گیی تھی وہ آج عاشقین رسول اور وارثین اسلام کے اپنے ہی ہاتھوں سے رقم ہونے لگی . ...جی ہاں چاہے وہ پاکستان کی انیس سو تریپن کی اندھا دھند قتل و غارت گری ہو یا پھر انیس سو چوہتر کی احمدیہ مخلاف تحریک کہ جس نے لہو کی ندیاں بہا دیں . چاہے وہ انیس سو نواسی کا چک سکندر اور ننکانہ صاحب میں سینکڑوں گھروں کا نظر آتش کیا جانا ہو یا کہ پھر دو ہزار پانچ میں ماہ رمضان میں مونگ میں نمازیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ ..چاہے وہ دو ہزار دس کا بیت الذکر اور گری شاہو سانحہ ہو یا پھر تخت ہزارہ اور سیالکوٹ کے انسانیت سوز حملے . وہ بنگلہ دیش ہو یا پھر انڈونیشیا یا کوئی اور اسلامی ملک ہر احمدی مظالم کی کڑیاں جا کر انیس سو ترپن احمدیہ مخالف تحریک میں جسٹس منیر انکوئری رپورٹ سے ہی جا کر ملیں گی جس کا لب لباب یہ تھا کہ " مذہبی منافرت کی یہ مہم فقط علماہ اکرام کی ایک بھیانک سازش کا نتیجہ تھی " حملہ اور ہمیشہ کی طرح آج بھی چاہے دنیا بھر کے لئے نا معلوم افراد ہی سہی ...مگر میرے اپنے ہی خون سے لتھڑے ہوے ہاتھ بھلا میرے لئےنا معلوم کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟ ....حملہ اور چاہے ہزاروں ہی کیوں نہ ہو مگر میں یہ ہر گز نہیں مانتی کہ یہ وحشی ہجوم ہی میرا قاتل ہے ...بلکہ درپردہ ہاتھ تو کوئی اور ہیں ...یہ بیچارے مردہ دل و دماغ اور بے ضمیر لوگوں کا ہجوم تو ان بھیڑ بکریوں کی مانند ہے جنہیں مذہبی جہالت کے جنون نے وحشی بنا دیا ہے آج انہیں جہاں چاہے جو چاہے ہانک لے ...جیسا کہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو ا علی المدودی نے اپنی کتاب " مسلمان اور سیاسی کشمکش " کے حصہ سوئم صفہ نمبر ایک سو تیس پر اس قوم کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے کہ ." یہ انبوہ عظیم جسے مسلمان قوم کہا جاتا ہے اسکا حال یہ ہے کہ اسکے ننانوے اشاریہ نو فیصد افراد نہ تو اسلام کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہ انکا اخلاقی نقطۂ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو مسلمان نہ نام ملتا چلا آ رہا ہے اور اس لئے یہ مسلمان ہیں "اب ایسے مسلمانوں کا ہزاروں کیا چاہے لاکھوں کا ہجوم ہی کیوں نہ ہو گلہ فضول اور توقعہ رکھنی بلکل ہی بیکار ہے یہ تو وہ کٹھ پتلیاں ہیں کہ مذہب ہے کس بلا کا نام اس سے انہیں غرض نہیں مذہب کی تعلیمات کیا ہیں کوئی سروکار نہیں رسول الله کا اسوہ حسنہ کیا ہے انہیں کوئی لینا دینا نہیں . ...الہامی کتاب ضابطہ حیات قران کریم کے احکامات کیا ہے کوئی واسطہ نہیں ....انہیں معلوم ہے تو فقط اتنا کہ انسانیت کی تذلیل و تحقیر کرنے میں کبھی ان کا کوئی ثانی بھی پیدا نہ ہو سکے .....جس عشق رسول کی خاطر حیوانیت کی تمام حدیں پار کی جا چکی ہیں اس .رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کی عظمت کو بھلا یہ اندھے گونگے اور بہرے کیا جانیں کہ جس عظیم ہستی نے نبوت کے کے منصب پر فائز ہونے سے قبل چالیس سال کا طویل عرصۂ صرف اور صرف انسانیت کے اس مقام تک پہنچنے ہی میں لگا دیا کہ جس کی اگلی منزل اسلام کا نزول تھا یعنی کہ . انسانیت کی انتہا ہی اسلام کی ابتداء ہے . ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ ڈھٹائی اور بے غیرتی سے ایک کھلی اندھی درندگی کو عشق رسول صلی الله و علیہ وسلم سے منسوب کیا جاتا ہے مگروہاں سینکڑوں میں ایک بھی زی شعور نہیں ؟ تو کبھی الله اکبر کے نعروں سے انسانیت کے چیتھڑے اڑا ے جا رہے ہیں مگر ہزاروں کے ہجوم میں ایک بھی دردمند دل نہیں ؟ یہ سنگدلی اور یہ بے رحمی اور وہ بھی الله اوراسکے رسول کے نام پر ؟؟؟ نہ جانے کب تک مصلحتوں کی خاموشی کا یہ دور چلے گا ؟ اور آخر کب تک انسانیت سوز مظالم سے نگاہیں چرانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ؟ کب تک الله اور اسکے رسول کے نام پر انسانیت کے چیتھڑے اڑیں گے ؟ میں جانتی ہوں کہ ان سوالوں کے آج بھی کسی کے پاس کوئی جواب نہیں، ..ہاں .مگر مجھے کوئی یہ تو بتا دے کہ آج میں کیا نام دوں اپنے ان بہتے خون کے آنسوؤں کو ؟ کیا نام دوں اپنے ماتم زدہ دل کو ؟ اور آج کیا کہوں میں خود کو ؟؟؟... کہ آج میں کس پر آنسو بہاؤں.. امت کی مذہبی جہالت کی انتہا پر یا پھر انکا نشانہ بنتے مظلوموں پر ؟ آج میں کس کا جنازہ اٹھاؤں قوم کی اس انسانیت کا یا پھر انکا شکار ہوۓ ان بیبسوں کا ؟ آج میں کس پر صف ماتم بچھاؤں اپنی اس مردہ دلی اور بے ضمیری پر یا پھر اس بے رحمی کے ہاتھوں کٹتے ان بے قصور لاشوں پر ؟ کہ :میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیںمیرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیںکوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائیہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team