اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔20-03-2011

اصل سونامی کہاں آیا ہے ؟

کالم ----- عفاف اظہر

 جاپان میں زلزلے اور سونامی کی ناگہانی آفت نے چشم زدن میں ہزاروں افراد کو آب بُرد کر دیا ہزاروں جانیں تلف ہوئیں لاکھوں لا پتا اور بےگھر ہوے دنیا بھر نے رنجیدگی سے دیکھا . قدرتی آفات پر انسان کا اختیار ہی کہاں جو سواے افسوس کے کچھ کر سکے ہاں مگر ایک حقیقت تو اٹل ہے کہ جا پانی قوم کے پاس وہ قوت ارادی . بلند حوصلہ اور لگن ہے کہ جسکا دوسری جنگ عظیم کا سونامی بھی کچھ نہ بگاڑ سکا تھا . ہزاروں جانیں تو تب بھی گی تھیں بربادی تب بھی کچھ کم نہ تھی مگر اس با ہمت قوم کے پاس بلند حوصلہ اور علم کی پیاس کے وہ اہنی ہتھیار تھے جس کی بدولت وہ کچھ ہی عرصۂ میں دوبارہ زندہ قوموں میں سر فہرست آ کھڑے ہوے . سونامیوں کی گود میں پلی یہ جاپانی قوم علم و ٹیکنا لو جی کی اس ناؤ پر سوار ہے جو وحشی موجوں سے لڑنے کا حوصلہ با خوبی رکھتی ہے . جاپانی قوم بھلے ہماری طرح نام کے مسلمان نہ سہی مگر اسلام کے احکامات کی عملی تصویر ہیں . ۔"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے" ، "علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے "، "علم حاصل کرو پنگھوڑے سے لے کر قبر تک " . یہ سب احکامات کاینات کی اس عظیم ترین ہستی کے اپنی امت کے لئے ہیں جس پر مذہب اسلام کا کل دار و مدار ہے . مگر بد نصیب امتیوں نے عشق رسول کے معاملے میں بھی ہمیشہ کی طرح یہاں بھی منافقت کا دامن نہ چھوڑا . دن رات رسول خدا صلی الله علیہ وسلم سے والہانہ عشق کا دم بھرنے والے محبت و عقیدت میں انسانیت کی تذلیل و تحقیرتک کرنے سے زرہ بھر بھی نہ چوکنے والے ان امتیوں کی نظر میں عشق کی قیمت صرف اتنی ہی ہے کہ اگر لہو بہانہ مقصود ہو تو عشق رسول سر چڑھ کر بولے گا ہاں مگر علم کے فریضے سے محبت کا یہ عالم ہے کہ یہ حالیہ سال کی تعلیمی رپورٹ نہیں گویا کہ حقیقی سونامی یہاں آیا ہو . جاپان میں تو ہزاروں جانیں گیئیں مگر یہاں کروڑوں جانوں کا مستقبل ہی جہالت کے اس وحشی سونامی کی نظر ہو گیا . برطانوی حکومت کے تعاون سے پاکستان میں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے والی پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس نے سال دو ہزار گیارہ کو تعلیمی ایمرجنسی کا سال قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ملک کا تعلیمی نظام ہنگامی صورتحال کا شکار ہے جس سے کروڑوں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایجوکیشن ٹاسک فورس کی طرف سے ’پاکستان کی تعلیمی ایمرجنسی‘ کے عنوان سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی اس تباہ کن ایمرجنسی کے اثرات انسانی، سماجی اور معاشی سطح پر موجود ہیں اور اس بحران سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان تعلیم کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانے میں اب تک ناکام رہا ہے اور تقریباً ستر لاکھ بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہیں اور یہ تعداد لاہور شہر کی پوری آبادی کے برابر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں جتنے بچے اس وقت پرائمری تعلیم سے محروم ہیں ان کی تقریباً دس فیصد تعداد پاکستان میں ہے اس طرح تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ٹاسک فورس کے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہائی سکولوں میں داخلے کی شرح محض تئیس فیصد ہونے کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں اور بھی پیچھے ہے۔ اور آج بھی ایسے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے جو تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیمی مواقع کم نہیں ہیں بلکہ اس کی ناہموار تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ملک کے بیس فیصد امیر ترین شہری غریب ترین شہریوں کے مقابلے میں سات سال زیادہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف تیس فیصد پاکستانی انتہائی تعلیمی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ بمشکل دو سال تک سکول جا پاتے ہیں۔ایجوکیشن ٹاسک فورس کا کہنا ہے کہ دنیا میں چند غریب ترین ممالک میں پرائمری تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا اپنے تعلیمی اہداف مقررہ مدت میں حاصل کرنے کی جانب گامزن ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنی قومی پیداوار کا کم از کم چار فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا پابند ہے۔ لیکن حالیہ برسوں کے بجٹ میں یہ شرح بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے یعنی گزشتہ برس صرف دو فیصد تعلیم پر خرچ کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے تعلیمی اہداف کو پورا کرنے کےلیے سالانہ سو ارب روپے درکار ہوں گے۔ ٹاسک فورس کا کہنا ہے کہ حکومت سرکاری سکولوں پر قومی پیداوار کا محض ڈیڑھ فیصد خرچ کر رہی ہے اور یہ خرچ اس سبسڈی سے بھی کہیں کم ہے جو پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور پیپکو کو دی جاتی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تیس ہزار سے زیادہ سکول مخدوش حالت میں یا اس کی عمارتوں کو مرمت کی اشد ضرورت ہے جبکہ اکیس ہزار سے زیادہ سکول کھلے آسمان تلے چل رہے ہیں اور بہت سے سکولوں میں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ صرف پینسٹھ فیصد سکولوں میں پینے کا پانی میسر ہے، باسٹھ فیصد میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہے، اکسٹھ فیصد کی چاردیواری ہے اور صرف انتالیس فیصد میں بجلی کا نظام موجود ہے۔ ایجوکیشن ٹاسک کے مطابق اتنی پیچیدہ اور مایوس کن تعلیمی صورتحال سے نمٹنے کےلیے ضروری ہے کہ ہر سطح کے رہنماء، وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ سے لے کر سکول کے ہیڈ ماسٹر تک سب کو مل کر ایسا تعلیمی نظام وضع کریں جس کے نتائج خود اس کی ترجمانی کریں۔ اس رپورٹ میں تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے تعلیمی اہداف حاصل کرنے کےلیے کچھ اضافی اخراجات کرنا ہوں گے۔ تعلیم جس پر ملک و قوم کے مستقبل کا کل دارو مدار ہے پر خرچ کرنے کے لئے ہمارے پاس نہ تو بجٹ ہے اور نہ ہی کوئی ارادہ . ہم وہ بد بخت قوم ہیں جو ہر دفعہ قاتلوں، لٹیروں، جاگیرداروں اور بدمعاشوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں اور پھر چند روز بعد ان کے ظلم و جبر سے تنگ آکر دھاڑیں مار کر رونے لگتے ہیں۔ انسانيت کی قدر و قيمت اور انسانی عزت و تکريم ماضی کا حصہ ہو چکے ہيں اور دولت کی دوڑ اور ہوس ہر سطح پر معاشرے ميں حاوی ہو چکی ہے۔ اجتماعی سوچ کا فقدان اور ذاتی و مفاداتی سوچ نے پورے معاشرے کو بری طرح متاثر کر کے رکھ ديا ہے۔ نہ کسی کی جان و مال محفوظ ہے اور نہ کسی کی عزت . ایک عام انسان کے لیے نہ تعليم ہے نہ علاج، نہ روزگار اور نہ ہی انصاف۔ يہ کروڑوں انسانوں کا ہجوم بیکراں آج مکمل طور پر حکمرانوں اور دہشتگردوں کے ہاتھوں جو تہی دامن ہو چکا ہے ان کا قصور فقط انکی یہ علم دشمنی اور جہل دوستی ہی تو ہے . علم کی وہ طاقت جس کا حصول مسلمان امت پر بلکل ویسے ہی فرض قرار دیا گیا تھا جیسے کہ عبادت . ایک طالب علم کو مجاہد اور علم کی راہ میں جان جانے کو شہادت یوں ہی تو قرار نہیں دیا گیا تھا ، .... کہ علم کی دو دھاری تلوار نہ صرف کائنات تسخیر کرنے کے گر جانتی ہے بلکہ بڑی سے بڑی طاقت کو اپنے قدموں میں جھکانے کے فن سے بھی آشنا ہے . علم کی پیاس میں در در بھٹکنے کا یہ حکم فقط حکم نہیں تھا بلکہ پس پردہ محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم کی اپنی امت سے والہانہ محبت تھی جواپنے علم کی جوت جگا کر دنیا پر راج کرنے کا راز بتا رہی تھی .. .. یہ ہماری بد بختی ہی تو ہے کہ عشق و عقیدت کے تمام تر عملی فرائض نظر انداز کر کے ہم فقط لفاظی عشق رسول میں اندھے گونگے اور بہرے بن گئے ، علم کے مجاہد کی نشست پر انسانیت کے خونیوں قاتلوں کو لا بٹھایا اور جہالت کے جنونیوں کو جام شہادت بانٹنے لگے .. . ...ہاں یہ اپنے فرائض سے غداری کی سزا ہی تو ہے یہ تمام تر مسلمان ممالک کی مخدوش حالت ..علم کی روشنی سے محرومی آج ہمارے اپنے انسانی حقوق سے محرومی کا سبب بن چکی ہے ...جہالت سے پیار آج ہماری اپنی جانوں ہی کو نہیں بلکہ ملک و قوم کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا چکا ہے . جاپان میں انے والے اس سونامی کا گھاؤ تو کچھ ہی برسوں میں بھر جائے گا ... مگر یہاں جہالت کے خود ساختہ سونامی کے وحشی تھپیڑے جو ملک و قوم کے مستقبل کو ہی بہا لے گیے ہیں .... اصل سونامی تو یہاں آیا ہے وہاں نہیں ... کہ لا پتہ تو ہمارا مستقبل ہوا ہے انکا نہیں .... حقیقت میں بےگھر تو ہم ہوے ہیں وہ نہیں . تاریخ کے بد ترین بحران کا بھلے سامنا جاپانیوں کو ہو مگر تاریخ کے بد ترین موڑ پر آج ہم ہیں ..

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team