اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔26-04-2011

انصاف کی آواز کہیں سے نہیں اتی

کالم ----- عفاف اظہر

اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے وین

آج لکھاں دھیان روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن

اٹھ دردمندان دے دردیا اٹھ تک اپنا پنجاب

 آج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون

پریت دیاں شہزادیاں آج وچ مزاراں رون

آج آکھاں وارث شاہ نوں کیتوں قبراں وچوں بول

آج کتاب عشق د ا کوئی اگلا ورقہ پھول

"میں تھک چکی ہوں ان عدالتوں سے۔ دس سال ہوگئے ہیں ذلیل ہوتے ہوتے۔ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے تو اب کون سی عدالت رہتی ہے۔ اب صرف اللہ کی عدالت ہے۔ میں اس پر امید کرتی ہوں۔ مجھے اللہ انصاف دے گا۔" انصاف کے لئے مختاراں نے کئی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ کبھی انسداد دہشت گردی عدالت نے چودہ میں سے چھ ملزمان کو موت کی سزا سنائی اور آٹھ کو بری کر دیا۔ کبھی لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے ان چھ میں سے پانچ کو بری کر دیا، تو کبھی وفاقی شرعی عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو معطل کیا۔ کبھی ملزمان کو گرفتار کر لیا جاتا، تو کبھی رہا۔ ‘مجھے خطرہ ہے۔ میرے خاندان کو خطرہ ہے۔اگر کوئی نقصان ہوا تو ذمہ دار سپریم کورٹ اور حکومت ہوگی۔‘لیکن مختاراں خطرہ سے کھیلنے کی عادی ہے۔ ان کے کیس کے حقائق اپنی جگہ، انہوں نے اپنے علاقے کے طاقتور جاگیرداروں، یعنی مستوئی قبیلے کے بعض افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے دشمنی مول لی۔ آگے کا ردِ عمل تو مختاراں نے نہیں طے کیا، لیکن وہ اپنی جدو جہد میں پرعزم ہے۔ ’میں سب بہنوں کو کہوں گی، سب تنظیمیں کو کہوں گی، میڈیا کو کہوں گی ہمارا ساتھ دیں۔ اس نظام کو بدلنا چاہتی ہوں جہاں لوگوں کو عورتوں کی قدر کا پتہ نہیں ہے، جو وڈیروں کے فیصلوں کو ترجیح دیتے ہیں۔‘جنسی زیادتی کی شکار خواتین کی تو پاکستان میں بدنامی ہوتی ہے، لیکن مختاراں نے اس کو عزت و وقار کا ذریعہ بنایا۔ مختاراں نہ صرف اپنا مقدمہ لڑتی رہی، اس نے عورتوں کی فلاح کے لیے تنظیم قائم کی۔اس کو ایوارڈ ملے، بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی، اپنے گاؤں میں عزت بڑھی۔ اس کی ہمت سے اور خواتین کا بھی حوصلہ بڑھا۔ ایک طرح سے مختاراں مائی اب ایک عورت کا نام نہیں رہا، وہ ایک علامت بن چکی ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جو پاکستان کی خامیوں اور اچھایوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ایک طرف ملک کے کئی نظام ہیں، پنچایت، جاگیردارانہ، جرگہ، متوازی عدالتوں کے اور دوسری طرف مختاراں کے روپ میں ایک عورت ہے اور اس کی مسلسل جدو جہد۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے مختاراں مائی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوے اسے خطرہ کی گھنٹی قرار دیا ہے کہ یہ فیصلہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی ان تکالیف میں اضافہ کرے گا جو ان کو اذیت کا شکار بنانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں پیش آتی ہیں۔کمیشن کے مطابق اس سے عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جنسی تشدد کرنے والوں کو یہ یقین ہو جائے گا کہ وہ جرم کر کے صاف بچ جائیں گے۔ مختاراں مائی کے مقدمہ کے نتیجہ کا سب سے زیادہ اذیت ناک پہلو یہ قانونی ریپ ہے کہ آج ایک بار پھر قانون تو جیت گیا مگر انصاف بری طرح ہارا . مختاراں مائی کے ساتھ جرگہ و پنچائت کی اجتمائی زیادتی کا زخم ابھی تازہ ہی تھا کہ اب کی بار قانونی اداروں اور انصاف کے ٹھیکداروں مل کر اس مظلوم کا ایک بار پھر اجتمائی ریپ کر ڈالا کہ آج سوال یہ نہیں کہ ملزمان رہا کیوں کر دِیے گئے ؟ نہ ہی سوال قانون اور انصاف کا ہے بلکہ آج سوالیہ نشان تو اس معاشرے میں عورت خود بن کر رہ گی ہے ؟ کیوں کہ یہاں آج صرف ایک یہی تو مختاراں مائی نہیں بلکہ یہاں تو ہر گلی میں ہر موڑ پر چوک اور بازاروں میں روزانہ ہزاروں دختران قوم مختاراں مائی کا روپ لئےجنسی زیادتیوں کا شکار ہوتی نظر اتی ہیں ان کی بےبسی اور لا چارگی کا ہے ؟ آج سوالیہ نشان تو خود قانون بن چکا ہے جس کی حثیت فقط اب فقط ایک طوائف کی سی بن کر رہ گی ہے . مانا کہ عدالتیں ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ دیتی ہیں ، ہمارا انصاف اندھا تو ہمیشہ سے تھا ہی مگر کیا آج گونگا بہرہ اور اسقدر مفلوج بھی ہو گیا کہ ایسی جرگہ و پنچائت کو بھی عدالت کے کٹہرے تک نہ لا سکے جنہوں نے اس قدر ذلیل اور گھٹیا فیصلہ صادر کیا ؟ یہ ہماری عدالتیں نہیں قانون کے کوٹھے ہیں جہاں انصاف کے خریدار اتے ہیں اس قانون نامی طوائف کا استعمال کرتے ہیں اور کالے کوٹوں کے کالے کرتوتوں سے کون واقف نہیں جو کہنے کو تو قانون کے علمبردار مگر حقیقت میں تو سدا سے قانون کے دلال ہی ہیں . کیا کہوں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے غم میں نڈھال اس قوم کے ان نوجوانوں کو جنہوں نے غم و غصہ کی بھرپور شدت سے امریکا کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے وہ کہ جنہیں سات سمندر پار امریکا کا ظلم اور عافیہ صدیقی کی مظلومیت تو دیکھائی دے گی مگر خود اپنی ہی چھت تلے اس مختاراں مائی کی بےبسی نظر نہ آ سکی دختر مشرق ، پاکستان کی آبرو ، وطن کی بیٹی جیسے ہزاروں القابات سے نواز کر امریکا سے دشمنی میں عافیہ کو تو خوب سیاسی ہتھکنڈہ بنا ڈالا گیا مگر یہاں وطن کی اس بیٹی کی ابرو بار بار اچھالی جاتی رہی مگر کسی کی خاموشیوں کے قفل نہ ٹوٹے . اور اب کیا کہوں ان چست و چوبند صحافتی اداکاروں کو کہ ریمنڈ ڈیوس نے دو قتل کیا کر دئیے گویا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہو ان کا غم و غصہ میں جوش و جنوں کا عالم قابل دید تھا . اور مقتول کی بیوہ کی انصاف سے مایوسی پر خود کشی کا ٹریلر یوں دیکھا یا جا رہا تھا کہ گویا پاکستان کی یہ پہلی عورت تھی جو بیوہ ہوئی ہو یا پھر کسی بیوہ نے یہاں پہلی بار خود کشی کی ہو . اور مذہبی دوکانداروں سے تو شکوہ ہی فضول ہے کہ انکی گنگا الٹی بہتی ہے ان کا لا ہ عمل ظلم کو بڑھانا ہے روکنا نہیں کہ جنہیں فرانس میں عورتوں کے نقاب نہ اوڑھنے کا دکھ تو اتنی دور سے بھی دیکھائی دے گیا مگر یہاں اپنے ہی معاشرے کی عورت کی یوں مسلسل ہوتی جبری برہنگی نظر نہ آ سکی ؟. اور کہاں چلے گئے وہ ہمارے محترم چیف جسٹس صاحب اور یہاں کیوں خاموش ہو گئے انکے وہ از خود نوٹس کہ جن کے لئے عوام نے سر تن کی بازی لگا دی انکے آنے سے تو گویا انصاف کی بہاریں آ گیئں مٹھائیاں تقسیم کی گیئں بھنگڑے ڈالے گئے خوشیاں یوں منائی گیئں کہ جیسے چیف جسٹس نہ ہوں انصاف اور قانون کا کھویا ہوا وقار ہوں کہ جن کے اتے ہی اس قوم کے تمام دکھ درد ہی دور ہو گئے ؟؟ منافقت انتہا ہے کہ ایک طرف غیرت کا جوش اتنا کہ اس کے نام پر بھی قانون ہی کی حفاظت میں دختران قوم کی بلی چڑھائی جاتی ہے تو دوسری طرف بے غیرتی کا یہ کھلا نمونہ کہ ایک نام و نہاد جرگہ کے گھٹیا ترین فیصلے پر بھرے چوراہے پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور وہاں ہجوم میں کوئی بھی مائی کا لعل ایسا نہیں کہ جو پوچھ سکے کہ آخر اس نام و نہاد پنچائت کو یہ گھٹیا اور غیر اخلاقی فیصلہ صادر کرنے کو اختیار کس نے دیا ؟ واہ کیا دوہرا معیار ہے غیرت مرد کی اور بھگتے عورت کہ اگر یہ جاگے تو بھی قربان عورت اگر غیرت نہ جاگ سکے تو بھی ذلیل عورت ہی . ہاں شاید قصوروار تو خود مختاراں مائی ہی ہے کہ اس منافقت سے بھرپور مرد زدہ معاشرے میں ایک عورت ہوتے ہوے انصاف کی امید لگا بیٹھی تھی . ایک ابرو ریزی ہی تو ہوئی تھی اس کی کیا ہوا ایک وہی تو نہیں جس کے ساتھ ایسا ہوا ہو جس قوم کے غیرت مند نوجوان مزار قائد پر بھی قوم کی بیٹیوں کی ابرو لوٹ رہے ہوں تو انکے لئے بھلا یہ بھرے چوراہے کیا ہیں ؟ ہاں قصوروار مختاراں مائی ہی تو ہے انصاف کے ملنے کی امید لگانے کی بجاے اگر انصاف خرید لیا ہوتا وکیل کی بجاے ایک جج ہی کر لیا ہوتا تو کم سے کم آج یہ مایوسی کے آنسو تو نہ بہانے پڑتے . انصاف کی آواز کہیں سے نہیں اتییوں حشر تو اس دھر میں مدت سے بپا ہے

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team