اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔23-05-2011

مذہب کیا ہے ؟

کالم ----- عفاف اظہر

 انسان کی تاریخ خاک و خون سے لتھڑی پڑی ہے اس دن سے لے کر آج تک جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا اسقدر خون ناحق بہایا گیا ہے کہ اگر اس خون کو جمع کیا جائے تو آج اس روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے کپڑے اس خون سے رنگے جا سکتے ہیں بلکہ شاید اس پر بھی وہ خون بچ کر ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لباس لال کرنے کے لئے کافی ہو .مگر مقام حیرت ہے کہ اس پر بھی آج تک حضرت انسان کے خون کی پیاس نہیں بجھی . اگر تاریخی پس منظر میں انسانی کردار کا مطالعہ کیا جائے اور حال کے گرد و پیش پر نظریں دوڑائی جائیں تو یہ انکشاف طعنہ بن کر پھانس کی طرح دل میں چبھنے لگتا ہے کہ انسان کل بھی جابر تھا آج بھی ہے . یہ خون کبھی عزت و ناموس کے نام پر کئے گئے تو کبھی بغض و عناد کی بناء پر . کبھی رزق کی تلاش میں نکلی ہوئی فاقہ کش قوموں نے یہ ظلم ڈھائے تو کبھی محض تسخیر عالم ہی جابر شہنشاہوں کا مطمح نظر تھی .اور پھر ایسا بھی وقت آیا کہ ان تمام کی تمام خون ریزوں کا رخ مذہب کی طرف موڑ دیا گیا . اور اندھی قتل و غارت گری و انسانی مظالم کی داستانیں خود خدا ہی کے نام پر کی جانے لگیں . مذہب کو آڑ بنا کر بنی نو ع انسان کا سفاکانہ خون بہائے جانے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلا نکلا . اور یہ سب کچھ بار ہا پہلے بھی ہوا اور آج تک ہو رہا ہے کہ انسانی کردار کا یہ رخ دیکھ کر بسا اوقات دل یاس و نا امیدی سے بھر جاتا ہے اور یہ سوال نیزے کی طرح دل و دماغ میں چبھنے لگتا ہے کہ کیا اسی لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا ؟ ایک مذہب ہی تو تھا کہ جس سے توقعہ تھی کہ انسان کو انسانیت کے آداب سیکھائے گا مگر خود اس کا دامن بھی خون آلود نظر آتا ہے . تاریخ عالم گواہ ہے کہ اسی بظاھر چھوٹے اور معمولی سے لفظ " مذہب " کے نام پر ماضی و حال میں انسانیت کے وہ چیتھڑے اڑائے گئے کہ یہ لفظ بذات خود ہی آج انسانیت کے لئے ایک گالی بن کر رہ گیا .ایسے ایسے مظالم انسانی تاریخ مذہب کے نام سے منسوب کرتی نظر آتی ہے کہ رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور نظر مذہبی اقدار سے تھکی ہاری لوٹ آتی ہے کہ مذہب جس سے توقعہ تھی کہ انسانیت کو فساد و خون ریزی سے نجات دلائے گا مگر وہ تو خود ہی انسانیت کے خون اور تحقیر و تذلیل میں سب سے آگے دیکھائی دیتا ہے . حیرانگی ہوتی ہے کہ بظاھر چھوٹا سا یہ لفظ "مذہب "جس نے ماضی سے لے کر حال تک کی تمام بڑی سے بڑی انسانی تباہیوں و بربادیوں کا ٹھیکہ اپنے ہی کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے .یہ لفظ کہ جو ہر نوک زبان پر ہی نہیں بلکہ دل و دماغ پر بھی چھایا رہتا ہے جس نے آج بھی ایک عالم کو اسقدر حواس باختہ کر رکھا ہے کہ دنیا جہاں سے بےخبر وہ خود سے لا علم مذہب کے نام کا ڈنڈا ہاتھ میں تھامے ہمیشہ دوسروں کو سدھارنے پر کمر بستہ نظر آتے ہیں مگر یہ جاننے کو قطعا تیار نہیں کہ در حقیقت اس لفظ مذہب کی حقیقت کیا ہے ؟ المیہ تو یہ ہے کہ یہ مذہبی ڈنڈا بردار یہ تک ماننے کو تیار نہں کہ مذہب جس نے دنیا بھر کی بلائیں اپنے سر اٹھا رکھی ہیں آخر یہ خود ہے کس بلا کا نام ؟ آج فی زمانہ مذہبی اقدار کی آئے دن بنتی یہ درگت اور مذہب کے نام ہی سے یہ وحشت کا عالم دنیا بھر کی مذہب سے غفلت و بیگانگیت نہیں بلکہ مذہب کی وہ غلط تعریف ہے جو دنیا کو بتائی جا رہی ہے مذہب کی وہ غلط تصویر ہے جو دیکھائی جا رہی ہے اور وہ تمام کی تمام غلط تشریحات ہیں جو مذہب سمجھائی جا رہی ہیں . جبکہ مذہب تو ایک راستے کا نام ہے اور اس کی حقیقت اور اہمیت بھی فقط ایک راستے سے بڑھ کراور کچھ بھی نہیں. اور ایک راستے پر صرف چلا ہی تو جا سکتا ہے اس کو لاگو نہیں کیا جا تا .جی ہاں وہ مذہب جس کی ہمیشہ سے ایک منزل کی طور پر نشاندہی کی جاتی ہے کہ جسے پانے کے لئے کبھی حوروں کے لالچ کا سہارا لیا جاتا ہے تو کبھی دودھ و شہد کی نہروں کا . کبھی جنت کے باغوں کے ٹکٹ تو کبھی دوزخ کے عذاب کے دعوت نامے ، کھبی خدا کے عذاب سے دہشت زدہ تو کبھی اس کی ناراضگی سے خوفزدہ . جیسے کہ : اوپر کوئی دنیا ہے کہ حوروں سے بھری ہے کیا گیسو و رخسار ہیں کیا جلوہ گری ہے ؟ہر شاخ گلستان تمنا کی ہری ہےواعظ کا مصلی نہیں لالچ کی دری ہے کچھ فکر نہیں سب پہ مصیبت کی گھڑی ہے دوزخ میں ہے دنیا اسے جنت کی پڑی ہے مذہب ایک ایسا راستہ ہے جو صرف اور صرف انسان کے چلنے کے لئے ہی بنایا گیا ہے چلانے کے لئے ہر گز نہیں .اور کسی بھی راستے کی سہی اہمیت تب تک کی ہی نہیں جا سکتی . اصل حقیقت تو منزل ہے کہ جب تک اسکی طلب اسکی چاہت دل میں نہ ہو تو اسکی طرف جانے والا ہر وہ راستہ بھی بیکار اور بےسود بن کر رہ جاتا ہے .الغرض ایک سادہ سی مذہب کی حقیقت کو جس مشکل سے دوچار کر رکھا ہے یہ اسی کا خمیازہ ہے کہ لاوارث قوموں کی طرح آج
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم کے مصداق ایک خالی برتن کی مانند بج رہے ہیں جتنا مذہب کے نام کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اتنے ہی اندر سے کھوکلے ہیں . ایک ایسے منزل سے بھٹکے ہوۓ تھکے ہارے ناکام و نامراد راہی کی مانند ہیں جو اپنی منزل کو کھو کر راستوں ہی سے دل بہلانے کے سامان تلاش کرنے لگے . جس راستے پر خود نہیں چلتے ہام مگر اس راستے کو دوسروں پر ہر ممکن لاگو کرنا چاہتے ہوں .دوسروں کے ا عمال سدھارنے کا ٹھیکہ بھی خود ہی اٹھانا چاہتے ہوں . ایک ایسے مجنوں و پاگل شخص کی مانند جو خود اپنی پہچان کھو کر دوسروں کی بھی مٹانا چاہتا ہو . کہ وہ مذہب کا وجود جو حقیقت میں منزل نہیں ہاں مگر یہ منزل کی طرف لے جانے والا ایک راستہ ضرور ہے . اور منزل کی طرف جانے کا صرف ایک ہی راستہ نہیں ہوتا بلکہ بہت سے دوسرے راستے بھی تو ہوتے ہیں طویل بھی مختصر بھی کھٹن و پیچیدہ بھی آسان و سہل بھی اور کچھ وہ بھی جو نا مکمل اور ادھورے ہوں جو مختلف اطراف سے مختلف سمتوں سے ہوتے ہوے جاتے اسی ایک ہی منزل کی طرف ہیں .اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے جس بھی راستے کو منتخب کرے ہاں مگر شرط منزل کی تڑپ ، لگن اور اس کی صحیح پہچان ہے . اور یہ پہچان اسے فقط شعور و آگہی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے جو انسان کو انسانیت کے اس مقام سے وابستگی دلواتے ہوے اسکی حقیقی پہچان بن جاتی ہے کیوں کہ خود سے آگہی حاصل کئے بنا کسی بھی منزل کو پا لینے کا تصورفقط دیوانے کا ایک اور خواب ہی تو ہے اور بس . اور ایک انسان کو اپنی منزل جاننے سے پہلے خود کو پہچاننا ازحد ضروری جو منزل کی طرف لے جانے والے سہی راستے کے انتخاب کا پہلا زینہ ہے . اور یہ خود کی پہچان ہی تو شعور و آگہی کی وہ نعمت کہلاتی ہے جو موسیٰ کے عصا کی مانند راستوں کی ہر رکاوٹ سے نمٹنا خوب جانتی ہے . کسقدر بدبخت ہے آج بھی یہ حضرت انسان بھی کہ قوم عاد و ثمود کا ذکر قصوں کہانیوں میں دل بہلانے کو تو خوب کرتا ہے مگر شعور کی اس آنکھ سے آج بھی محروم ہے جو آج اسے عاد و ثمود کی قوموں کے گرد آلود آیئنے میں اس کا اپنا ہی عکس دیکھا سکے . نوح و لوط کی قوموں کی تباہیوں کے پس منظر سے تو خوب آگاہ ہے مگر سلگتے ہوے حقائق کے پس منظر میں انکی اپنی صورت جو دیکھا سکے اس آگہی کی نعمت سے یہ آج بھی محروم ہی ہے . کہ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا اسکے لئے تمام تر مذاھب کے یہ راستے اور پھر اس پر لا اکراہ فی دین کا حکم اس حقیقت کا کھلا کھلا انکشاف ہی تو ہیں کہ منزل خود پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ کوئی تو ہو جو کسی بھی راستے سے مجھ تک پہنچے مگر یہ بد بخت انسان آج بھی اپنی حقیقی منزل سے کوسوں دور انہی مذہبی راستوں کی بھول بھلیوں میں ہی گم ہے .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team