اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔12-06-2011

پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں

کالم ----- عفاف اظہر

 کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ایک انیس سالہ نوجوان سرفراز شاہ کی یہ دردناک ہلاکت پاکستان کی محافظ فوج کے کردار پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گی ہے . ہاتھ جوڑتے اس نوجوان کو رینجرز کے سامنے گڑگڑاتے اپنی بیگناہی کا چیخ چیخ کر اظہار کرتے اور بندوقوں سے مسلح ملک و قوم کے محافظوں کو اس نوجوان پر تابڑ توڑ گولیاں برساتا دیکھ کر عوام پر غم و غصہ کا عالم ہے معامله قومی اسمبلی تک جا پہنچا ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں حسب معمول شور مچا رہی ہیں . صحافی برادری بھی بار بار ہلاکت کی ویڈیو کلپ اور اس نوجوان کے اہل خانہ کے بیانات سنا سنا کار اپنی کار کردگی پر داد تحسین وصول کر رہی ہے. گویا کہ ایک پرانی گھسی پٹی کہانی کو نیے کرداروں اور نئی شکلوں کے ساتھ پیش کر کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک کامیاب کوشش کی جا رہی ہو . مانا کہ جو بھی ہوا بہت برا ہوا . کہ پاکستانی معاشرے کی حالت اب کینسر کے آخری دور سے گزرتےقریب المرگ مریض کی مانند ہو چکی ہے کہ جب بیماری کی طوالت کمزوری اور نقاہت کے سبب آخری دموں پر اتے اتے مریض کا اپنا قدرتی حفاظتی نظام یعنی کہ امیون سسٹم اسکے اپنے ہی جسم کے خلاف کام کرنے لگتا ہے جو دوسرے الفاظ میں اسکی موت کا پیغام ہوتا ہے . ہماری حفاظتی ایجنسیاں ادارے اور محافظ فوج کا خود پر ہی یوں گولیاں چلانا ثابت کر رہا ہے کہ اب اس بد نصیب معاشرے پر بھی وقت نزع ہی ہے. مرگ بنگال کے بعد بولان میںشہریوں کے گلے کاٹنے آ گئےآج سرحد سے پنجاب و مہران تک،تم نے مقتل سجاے ہیں کیوں غازیو ؟اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے ؟کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو ؟کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے ؟کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو ؟خون اترا تمہارا تو ثابت ہوا پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ایسا پہلی بار ہوا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی ایسا ظلم ہمارے ہاں پہلی بار ہوا ہے . آج تک ہر بار ہر ظلم پر ہم ایسے ہی تو کچھ دیں جوش و جنوں میں چیختے چلے آ رہے ہیں چاہے اسمبلیوں میں ہوں یا پھر ایوانوں میں ، عدالتوں میں ہوں یا پھر انسانی حقوق کے کٹہروں میں گویا کہ ہر دفعہ ہمیں یہی محسوس ہوتا آیا کہ یہ انہونی پہلی بار ہی ہوئی ہے . اور ہر دفعہ ستم بھیس بدل کر یوں ہی اتا ہے کہ جیسے پہلے کچھ ہوا ہی نہ ہو شہروں اور گلیوں میں روز روز ہوتا جبر ہماری بے بسی پر یوں مسکراتا نظر آتا ہے کہ گویا وہ بھی اب ہماری رمض بخوبی پہچان چکا ہو . بیشک ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ایک زی شعور انسان کا بنیادی فرض ہے .مگر ظلم ہے کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ؟ نہیں ہر گز نہیں ہم تو ابھی ظلم کی سہی تعریف سے ہی لا علم ہیں . کہ آج تک ظلم اسی کو تو سمجھا ہے جو صرف خود پر ہو . اور جب یہی ظلم دوسروں پر ہو تو ہمیں ہزاروں توجیہات کیوں فراہم کر دیتا ہے . ؟کہ ابھی پچھلے ہی دنوں سیالکوٹ میں دو نوجوان بھائیوں کا وہ بہیمانہ قتل ہوا تھا تو اس درندگی سے کہ جنگل کی حیوانیت بھی پانی بھرتی دیکھائی دی مگر وہ فوج نے نہیں کیا تھا ؟ اور نہ ہی عوام کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپنی ممتا کی زندگی کی بھیک مانگتی دو معصوم سی بچیوں کی والدہ مسیحی خاتوں آسیہ کی موت کے حق میں جلسے اور جلوس ان رینجرز نے نکالے تھے ... .. گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو ایک خونی درندے کو ہیرو بنا کر پھولوں کے ہار ان ایجنسیوں نے نہیں پہناے تھے .... اور نہ ہی شہباز بھٹی کے قتل پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والے خوشی کے بھگڑے ڈالنے والے یہ فوجی تھے ..... مسیحیوں کی بستیاں جلا کر خوشی کے شادیانے بجانے والے ، ہندوں سے ذاتی دشمنوں کو توہین رسالت کا نام دینے والے . احمدیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ کر جنت کمانے والے نہ تو فوجی ہیں نہ رینجرز اور نہ ہی ایجنسیاں ... بلکہ وہ یہ معاشرہ ہے ہمارے اپنے ہاتھ انسانی خون سے بری طرح لتھڑے ہوے ہیں انسانی خون کی ارزانی جتنی آج تک خود ہم نے کی ہے وہ فوج اور ایجنسیاں کیا کر سکیں گی کہ یہ فوج یہ ایجنسیاں یہ ادارے یہ رینجرز بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں . جب انسانی حقوق اور انسانی جان کی قدرو قیمت کا احساس اس معاشرے کو نہیں اخلاقی قدروں سے جب یہ معاشرہ واقف نہیں تو پھر اس معاشرے کے ہاتھوں پروان چڑھی اس نسل سے اخلاقیات کی توقعہ کیوں ؟ جس معاشرے میں حرمت رسول کے نام پر انسانی جانوں کی بلی چڑھائی جاتی ہو اور واہ واہ کرنے والوں کی کمی نہ ہو .. ..جہاں الله اور رسول کے نام پر ایک عرصۂ دراز سے وہ لہو کا بازار گرم ہو کہ خدا کی پناہ اور کوئی آواز بلند ہوتی دیکھائی نہ دیتی ہو ...جہاں قتل و غارت اغواہ چوری ڈاکہ سے لے کر سر عام ابرو ریزی کرنے پر بھی ہزاروں توجیہات فراہم کی جاتی ہوں تو پھر اپنوں ہی کا لہو چاٹ چاٹ کر پلنے والے ان رینجرز سے حفاظت اور انسانی حقوق کی پاسبانی کی توقعہ رکھنا تو بچھوو ں سے بھلائی کی امید رکھنا ہے کہ جن کی فطرت ہی کاٹنا بن چکی ہو وہ بھلا آپ کو کیوں نہ کاٹیں گے ؟ ہمارا اپنا خون پی پی کر پلے ہوۓ یہ وہ نام و نہاد محافظ درندے کہ جن کو جبڑوں کو اپنوں کا لہو لگ چکا ہے تو پھر یہ ظلم کی تمام حدیں بھلا کیوں پار نہ کریں گے ؟ کہ اس حد سے بڑھتے ظلم کا قصوروار یہ معاشرہ اور یہ قوم خود ہی تو ہے کہ جو کہنے کو تو قوم ہے مگر حقیقت میں پیشہ ور قاتلوں کا وہ ہجوم ہے جنہیں اپنوں کے لہو کا ذائقہ بھا چکا ہے کہ ظلم صرف ظلم ہی ہے چاہے وہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے کریں یا یہ حفاظتی دستے بندوقوں سے ... کہ آج اس طرح چیخنے چلانے سے بھی کچھ بھی نہیں بدلنے والا سوائے اس کے کہ کچھ دن خاموشی کے بعد ایک اور نیا المیہ اور ایک اور نیا ظلم تاریخ رقم کرے گا کہ جب ظلم کے مفہوم سے ہی واقف نہیں تو ظلم کے خلاف آواز کیوں کر اٹھا سکتے ہیں .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team