اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔20-06-2011

ہم اور ہماری روایتیں

کالم ----- عفاف اظہر

 ہر سال ماں کے دن ہی کی طرح آج کے روز یوم والد دنیا بھر میں منایا جانا بہت سی دوسری روایتوں کی طرح ایک روایت بن چکا ہے . کل یوم والد کے حوالے سے پارک میں سب بچے بہت پرجوش تھے خوبصورت پھولوں اور فادرز ڈے کارڈز پر دل موہ لینے والی تحریروں پر ایک دوسرے سے تبصروں میں مصروف تھے کہ میری نظر پارک کے ایک کنارے پر خاموش بیٹھے ایک بزرگ پر پڑی اور نہ جانے کون سی کشش مجھے بے اختیار انکے پاس کھنچ کر لے گئی . بات چیت کا سلسلہ بڑھاتے ہوے میرے ہپی فادرز ڈے کہنے پر جواباً انہوں سے ایک سرد آہ بھری اور کہا کہ ا یک باپ کا رشتہ کیا ہے یہ ان ایک دن کے منانے والوں کو کیا پتا ؟ ماں باب کے لئے سال میں یہ ایک دن منانے کی روایت مغرب کی نقل میں تو اب ہم بھی اپناتے چلے جا رہے ہیں مگر انکی اہمیت جانے بنا اپنائی جانے والی یہ روایتیں انسان کی اپنی اہمیت کھو چکی ہیں . میری حیرانگی اور سوالیہ نظروں کو بھانپتے ہوے مزید کہا کہ انکی شریک حیات کو گزرے دس سال ہو چکے ہیں اور وہ ابھی کچھ سال پہلے ہی پاکستان سے اپنے دو شادی شدہ بیٹوں کے بلانے پر یہاں آے ہیں اور دونوں بیٹوں کے فیصلے کے مطابق ہر ماہ پندرہ دن ایک کے ہاں اور باقی پندرہ دن دوسرے کے ہاں رہتے ہیں . میں نے بےاختیار کہا کہ بہت خوش قسمت ہیں آپ کہ آپ کے بچے آپ کو اتنا چاہتے ہیں تو انہوں نے جواباً ایک ایسی سرد آہ بھری کہ جو میری روح میں کپکپی دوڑا گئی اور کہا کہ ہاں بیٹی اس حد تک ہی خوش قسمت ہوں کہ جس مہینے میں تیس دن ہوں اگر مہینہ اکتیس کا آ جائے گھر رکھنا تو درکنار مجھے کھانا تک پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا . میں ان فادرز ڈے پر ہر سال ملنے والے پھولوں کے گلدستوں اور کارڈز کا کیا کروں کہ جب میں نے ہر اکتیس دن والے مہینے کہ تیس دن صرف اس ایک اکتیسویں دن کی فکر میں ہی کاٹنے ہوتے ہیں . میں خاموش لاجواب ایک بے بسی کے عالم ان روایتوں کی حقیقت پر سوچ رہی تھی جو آج انسان کی اہمیت گھٹا چکی ہیں کہ ہمارے اس نام و نہاد سماج کی حقیقت کیا ہے یا دوسرے الفاظ میں ہمارا اپنا کوئی سماج تو ہے ہی نہیں کہ ہماری یہ سب کی سب روایتیں ہی تو دوسروں کی دین ہیں . بہت سی ہندوستان سے علیدگی پر تحفے کے طور پر لیتے آے اور باقی مغرب سے متاثر ہوکر اپنا تو لیں مگر اسکی اہمیت کو کبھی بھی سمجھ نہ سکے . حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا اپنا معاشرتی وجود تو ہے ہی نہیں کہ جس سے متاثر ہوے اس کو اپنا لیا کے تحت جو کھچڑی اب بن چکی ہے اسے ہم اپنا معاشرہ کہتے ہیں.کہ ہندوستان سے جسمانی طور پر الگ ہوۓ تریسٹھ سال ہو چکے مگر دماغی طور پر آج بھی ہندوستان ہی میں ہیں . یہ عزت غیرت کے تصور سے لے کر رسوم و رواج کی چتا پر آے دن ستی ہوتی ہوئی دختران قوم ہماری منافقت پر مہر ثبت کرتی دیکھائی دیتی ہیں کہ ہم بھلے ہندوستان سے جتنا بھی دشمنی کا ڈھونگ رچا لیں لیکن اپنے اندر کے ہندوستانی کو آج تک ختم نہیں کر سکے .شادی بیاہ سے لے کر روزمرہ کے معاملات زندگی میں ہمارے ہر رسوم و رواج میں آج بھی ہندوانہ کلچر جھلکتا ہوا اس دو قومی نظریہ کے منہ پر طمانچہ مارتا دیکھائی دیتا ہے کہ جس کو بنیاد بنا کر زمین کا ٹکڑا تو الگ کر لیا مگر ذہنی طور پر آج تک الگ نہ ہو سکے . اور ذہنی طور پر مغرب کی غلامی کے چنگل سے تو ہم کبھی بھی چھٹکارا نہیں پا سکے آزادی آزادی کے جوشیلے نعروں نے نفسیاتی طور پر مغرب کے متاثرین میں لا کھڑا کیا ہے . کہ سال بھر ہزاروں ماؤں کو کوکھیں اجاڑ کر مدرڈے فادر ڈے منا لیا تو گویا سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ادا کر لیا غیرت کے بے غیرت تصور اور عزت کے بھیانک کھیل نے پاکستانی معاشرے کو عورت کے لئے دنیا بھر میں خطرناک ترین معاشروں کی فہرست میں آج تیسرے نمبر پر لا کھڑا کیا ہے ایک طرف رسم و رواج پر بلی چڑھتی عورت اور دوسری طرف ویلنٹائن ڈے کا اہتمام ؟ ذہنی طور پر مغرب کی غلامی کے چنگل سے تو ہم کبھی بھی چھٹکارا نہیں پا سکے آزادی آزادی کے جوشیلے نعروں نے نفسیاتی طور پر مغرب کے متاثرین میں لا کھڑا کیا ہے . کہ سال بھر ہزاروں ماؤں کو کوکھیں اجاڑ کر مدرڈے فادر ڈے منا لیا تو گویا سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ادا کر لیا غیرت کے بے غیرت تصور اور عزت کے بھیانک کھیل نے پاکستانی معاشرے کو عورت کے لئے دنیا بھر میں خطرناک ترین معاشروں کی فہرست میں آج تیسرے نمبر پر لا کھڑا کیا ہے ایک طرف رسم و رواج پر بلی چڑھتی عورت اور دوسری طرف ویلنٹائن ڈے کا اہتمام ؟ اس حقیقت کا کھلا کھلا اعتراف ہے کہ ہماری اپنی آج بھی کوئی پہچان نہیں کہ ہر معاشرتی سوچ میں ہم آج بھی ہندوستان کے زیر اثر ہیں اور نفسیاتی طور پر مغرب کے متاثرین ہمارا اپنا معاشرہ رسوم و رواج اپنی سوچ اپنی پہچان آج بھی کوئی نہیں . مغرب اور مشرق کے درمیان منافقت کا سینڈوچ بن چکے ہیں .وہ روایتیں ہی کیا ہویئں کہ انسان کی اہمیت ان سے گر جائے ؟ وہ سماج ہی کیا ہوا جو انسان سے جینے کا حق چھین لے ؟ کون کہتا ہے کہ ستی کی روایت اب دم توڑ چکی ہے کہ روایتوں کی لاشوں کے ساتھ آج بھی ہر روز ہمارے ہاں انسان ستی ہو رہا ہے . روایتوں کو جنم دینے والا یہ انسان انہی روایتوں کی بلی چڑھ رہا ہے ، روایتوں کو آسمان کی بلندیوں تک لے کر جانے والا انسان خود قبروں کی پستیوں میں اتر رہا ہے . روایتیں تو بدستور جی رہی ہیں مگر انسان تل تل مر رہا ہے . صرف اس لئے کہ ہم انسانی رشتوں کی اہمیت نظر انداز کر چکے ہیں یہ بھول رہے ہیں کہ انسانی زندگی اور انسانی رشتوں کے سامنے یہ روایتیں بہت ہی چھوٹی ہوتی ہیں . اور جب جس معاشرے میں روایتیں اتنی اونچی ہونے لگیں کہ زندگی کی قیمت چھوٹی محسوس ہو سروں سے پگڑیاں اونچی ہونے لگیں تو تو اس سے قبل کہ وہ اس معاشرے کو مٹا ڈالیں ان روایتوں کی لکیروں کو جتنی جلدی ہو سکے مٹا دینا چاہیے

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team