اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔11-07-2011

قصوروار فقط مختاراں ہی کیوں ؟

کالم ----- عفاف اظہر

وکی لیگس کے مختاراں مائی کے بارے میں کئے جانے والے انکشافات کے بعد سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں. مختارن مائی پر دیکھائی جانے والے ٹی وی شوز میں آے دن کوئی نہ کوئی انکشافات سامنے آ رہے ہیں . کوئی مختاراں مائی کو ظالم ثابت کر رہا ہے تو کوئی اس کے اثاثوں کی کھوج میں لگا ہے کوئی اس کی مظلومیت کو ایک ڈرامہ بتا رہا ہے تو کوئی اس کے کردار ہی کے بخئیے ادھیڑنے میں لگا ہوا ہے . کوئی مختاراں کے گھر میں کھڑی مر سیڈ یز کی جانچ پڑتال میں لگا ہے تو کوئی اسکی بنائی ہوئی این جی اوز کو نشانہ بنا رہا ہے . گویا کہ صحافت اور صحافتی کردار سب ہی حسب معمول کافی چست و چوبند ہو کر اپنا اپنا کردار نبھانے میں اسقدر مگن ہیں کہ یہ دیکھنے سے بھی قاصر ہیں کہ آج مختاراں پر اٹھتی انکی ہر ایک انگلی کے ساتھ کی باقی چاروں انگلیوں کا رخ انکی اپنی ہی جانب ہے . کہ آج سوال یہ نہیں کہ مختاراں مائی قوم کی ہیرو ہے یا نہیں بلکہ سوال تو یہ ہے کہ مختاراں مائی کو ہیرو بنانے والے ہاتھ کس کے ہیں ؟ آج سوال یہ نہیں کہ مختاراں مائی سے دختران قوم کو جو امیدیں وابستہ ہیں وہ ان پر پورا اترنے کے قابل ہے بھی یا کہ نہیں بلکہ سوال تو یہ ہے کہ انکو یہ امیدیں وابستہ کروانے والے کردار کون سے ہیں ؟ آج سوال یہ نہیں کہ مختاراں مائی کی مظلومیت حقیقت نہیں بلکہ ایک ڈرامہ تھا بلکہ سوال تو یہ ہے کہ اسکو مظلومیت کی تصویر بنا کر دنیا بھر کو دیکھانے والے آخر کون سے فنکار تھے ؟ آج سوال یہ نہیں کہ مختاراں مائی کی اجازت کے بنا وہاں آج کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا کہ اسکی طاقت کے سامنے تو علاقے کی پولیس بھی بے بس ہے بلکہ سوال تو یہ ہے کہ مختاراں مائی کو یہ ہیبت ناک قسم کی طاقت فراہم کرنے والے عوامل آخر کون سے تھے ؟ یہ سچ ہے کہ صحافت بہت اہم کردار کی حامل ہوتی ہے صحافت اگر اپنا کردار با خوبی نبھائے تو قوموں میں شعور بیدار کر کے انکے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہے لیکن اگر یہی صحافت اپنا کردار نہ نبھا سکے تو ان ڈوبتی ہوئی قوموں کے لئے ظلمت کی ایک اور گہری کھائی بن جاتی ہے . اگر یہی صحافت تمام تر اخلاقی ضابطوں اور انسانیت کے تقاضوں پر پورا اترے تو ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ایک جگنو کی مانند ہے لیکن اگر یہی صحافت اخلاقیات اور انسانیت کے معیار پر پوری نہ اتر سکے تو اس بد نصیب قوم کے تابوت پر آخری کیل ثابت ہوتی ہے .مختاراں مائی کو ہیرو بنا کر پیش کرنے والے دختران قوم کو اندھیرے میں روشنی کی کرن دیکھانے والے صنف نازک کو ظلم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں مختاراں نام کا دیا تھمانے والے . قوم کی بیٹیوں کی آواز کے القابات سے نوازنے والے مختاراں کو زیرو سے ہیرو بنانے والے کوئی اور نہیں بلکہ یہی صحافتی فنکار تو تھے جو کہ آج اسے پھر ہیرو سے زیرو بنانے پر کمر بستہ ہیں . مختاراں مائی ہی کیا قوم کے سامنے آج تک تمام کے تمام زیرو کو ہیرو بنا کر پیش کرنے والی اور ہیروز کو زیرو بنا دینے میں کمال رکھنے والی یہ زرد صحافت ہی تو ہے ، ضیاء الحق کو مرد مومن مرد حق مرد مجاہد کے القابات سے نوازنے والی ، اسامہ بن لادن کو مسیحا ے قوم کا تخت سونپنے والی . کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ہیرو بنا کر قوم کے سر پر بیٹھانے والی ، ڈاکٹر قدیر خان کو محسن قوم کا تاج پہنانے والی ، نواز شریف کو قائد اور بے نظیر کو مادر ملت . سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے شرمناک اور انتہائی قابل مذمت قتل کو توہین رسالت اور قاتل کو غیرت ناموس رسالت کے القابات سے نواز کر پھولوں کے ہار پہنانے کی نوبت لانے والی کوئی اور نہیں بلکہ یہی زرد صحافت ہے . مختاراں مائی پاکستان کی کوئی پہلی خاتوں نہیں کہ جس کے ساتھ یہ ظلم ہوا اور نہ ہی پہلی بار پاکستانی معاشرے میں ایسا واقعہ پیش آیا ہے . جس مرد زدہ معاشرے میں گلی کے ہر نکڑ پر دختران قوم مظلومیت اور بے بسی کی تصویر بنی دہائی دے رہی ہوں . جس معاشرے کی عورت کا وجود ایک جنسی کھلونے بڑھ کر کچھ بھی نہ ہو . جس معاشرے کے تمام تر رسوم و رواج نام و نہاد مذہب اور قوانین مردوں کے حامی اور خواتین کے مخالف ہوں . جس ملک میں ہزاروں غیر شادی شدہ دختران قوم زنا بالجبر کی شکایات لے کے تھانے اور عدالتوں تک تو جائیں مگر چار گواہ پیش نہ کر سکنے کی صورت زنا بالرضا کے قانون میں خود ہی دھر لی جائیں اور جیلوں میں ہی قید کئی بچوں کی مائیں بن جائیں . وہاں اگر مختاراں مائی نے اسی قانون کا جس نے آج تک ہزاروں کی زندگیاں برباد کر دی اور اسی معاشرے کا جس نے لاکھوں کی جانیں لے لیں استعمال کر کے اپنی مظلومیت چاہے وہ جھوٹی ہی سہی پرچار کر کے طاقت کا ڈنڈا اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تو قصوروار فقط وہ ہی کیوں ؟ بلکہ اس سے کہیں زیادہ قصوروار تو معاشرہ خود ہے جو روزانہ ایسی ہزاروں مثالیں رقم کر رہا ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کی کوئی بھی لکیر باقی نہیں بچی . قصور وار تو قانون اور یہ نام و نہاد مذہب بھی کم نہیں کہ جس نے عورت سے انسان ہونے کا حق تک چھین رکھا ہے .جن کے پاس عورتوں کو انصاف دینے کے لئے کوئی قانون یا انکے حقوق کی حفاظت کے لئے کوئی بھی لاہ عمل نہیں . اور پولیس وہ جو ہمیشہ سے طاقتور کے گھر کی باندی اور قانون وہ جو ہمیشہ سے ہی زر کا غلام رہا ہے . ازل سے قانون فطرت ہے کہ انسانی معاشرے کفر پر تو پنپ رہ سکتے ہیں مگر ظلم پر ہر گز نہیں اور جہاں ظلم اس حد تک بڑھ جائے کہ خود ظلم کی اپنی پہچان تک ختم ہو جائے اور بے حسی اسقدر بڑھ جائے کہ کوئی بھی ظلم ظلم ہی نہ لگے . تو پھر اس بستی کے فرعو نوں کو موسیٰ کی نہیں بلکہ ان سے بھی بڑے ایک اور فرعو ن کی ضرورت ہوتی ہے جو انکی بے حسی کو جھنجوڑ کر انھیں ظلم کی سہی پہچان کروا سکے .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team