اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔08-08-2011

ڈوبتی ناؤ

کالم ----- عفاف اظہر

پاکستان کی حکمران سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے لیے ملک میں نیا سرائیکی صوبہ بنانے کے لیے پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور کرانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ملک کے کسی صوبے کو تقسیم کر کے ایک نئے صوبے کو تشکیل دینے کا عمل بغیر اس صوبے کی اسمبلی کی منظور شدہ قرار داد کے ہو نہیں سکتا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ اشارہ دیا گیا کہ ماہ رمضان کے دوران سرائیکی بولنے والوں کو خوش خبری ملے گی تاہم سرائیکی صوبے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ پنجاب اسمبلی اس ضمن میں قرارداد کی منظوری دے۔ اور ادھر پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے پاکستان میں سرائیکی صوبے کی تحریک کئی عشروں سے جاری ہے لیکن کچھ عرصے سے اس بحث میں تیزی آ گئی ہے۔ ایک طرف پنجاب میں سرائیکی صوبے کی بات کی جارہی ہے تو دوسری طرف ضلع بہاولپور کو دوبارہ سے صوبہ بنانے کا مطالبہ ہورہا ہے۔ اور پنجاب کے جنوبی اضلاع پر مشتمل ایک صوبہ بنانے کے حامی بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔۔صوبہ سرحد کا نام جب خیبر پختون خواہ رکھا گیا تو ہزارہ صوبے کا مطالبہ سامنے آیا، پاکستان میں نئے صوبوں کے مطالبات اور بحث مباحثوں میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔ تو ادھر مسلم لیگ نون کے رہنما اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شھباز شریف کہاں کسی سے پیچھے رہنے والے تھے کہ بیان داغ دیا کہ کراچی کو بھی صوبہ بننا چاہیے سندھ کی ہزاروں سالوں سے اپنی علیحدہ حیثیت اور شناخت رہی ہے، اس دھرتی کو تقسیم کرنے کی بات کرنا سندھی قوم کو گالی دینے کے برابر ہے۔ سندھ کے لوگ اپنی دھرتی کی تقسیم کسی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔‛ان کا کہنا تھا کہ شھباز شریف سندھ میں خانہ جنگی کرانا چاہتے ہیں کیونکہ تقسیم کی بات کرنا قومی غیرت کو للکارنے کے مترادف ہوگا ۔ رابطہ کمٹی کے رکن قاسم علی رضا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کا یہ موقف ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے عوامی ریفرنڈم کرائے جائیں اور عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق مطالبات پورے کئے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ شہبازشریف نے سندھ میں صوبے کی بات کیوں کی کیونکہ نہ توسندھ کے عوام نے کبھی سندھ کی تقسیم کی بات کی اور نہ کبھی کراچی کے لوگوں نے کراچی کوصوبہ بنانے کی بات کی ہے۔

حکمرانی و سیاسی بے حسی بھی نقطۂ انتہا پر ہے چار صوبے سنبھالے نہیں جا رہے مگر منصوبے ہیں مزید جوڑ توڑ کرنے کے . کوئی پوچھنے والا نہیں ان کو کہ کہ خیبر پختوں خواہ کے بن جانے سے کون سا وہاں کی عوام کے دکھ درد میں کمی واقعہ ہوئی ہے . ؟ پختوں خواہ کہلا لینے سے کیا وہاں کی غربت دور ہو چکی ہے یا پھر تعلیمی معیار میں خطر خواہ بہتری پیدا ہوئی ہے ؟ تو اب پنجاب کے چار حصے کر دینے پر کونسی ضمانت ہے کہ ایسا کر دینے سے صوبہ پنجاب میں امن و امن کی صورت حال جنت نظیر ہو جائے گی اور کراچی کے علیحدہ ہو جانے سے سندھ میں کون سا دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی ؟ کمال ہے ملک کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے مگر حکمران و سیاسی پارٹیاں ہیں کہ ہر کوئی اپنی اپنی بولیاں بولنے میں مگن ہے . شہر قائد کراچی کی مخدوش صورت حال کہ جو کبھی رنگ و روشنیوں اور ہنگاموں کا شہر کہا جاتا تھا آج وہ دھماکوں اور اموتوں کا نام بن چکا ہے کراچی کی تشویش ناک صورت حال کہ روزانہ متعدد افراد ٹارگٹ کلنگ کی نذر ہو رہے ہیں کراچی ایک عرصۂ دراز سے ہڑتالوں اور ہلاکتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے مگر صاحب اقتدار ہیں کہ انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی . کراچی میں ہر دن چڑھتا سورج گمنام لاشوں کے ساتھ سوگوار بیوگان اور یتیم و لاوارث بچوں کے لئے ایک نیا سوال لے کر ابھرتا ہے کہ جن کا جواب صرف اور صرف صاحب اقتدار کے پاس ہی تو ہے . مگر وہ ڈیوائد اینڈ رول کی پالیسی کے تحت صوبوں کو تقسیم در تقسیم کرتے اپنے پچھلے گناہوں کو صفائی سے دفناتے اور مزید کے لئے زمین ہموار کرنے میں بدستور مگن ہیں . حکمرانوں کی بے حسی کے ہاتھوں بگڑتے حالات اور سونے پر سہاگہ حکمرانوں کی رنگ برنگی بولیاں سن کر ملک کی یتیمی و لاوارثی کی یہ مخدوش حالت اس رضائی کی مانند محسوس ہوتی ہے جو ان سیاسی و مذہبی حکمران نما پاگل کتوں کے ہاتھ چڑھ چکی ہے کہ اب جب تک اس کے چیتھرے نہ اڑ جائیں گے ان کو چین ہی کب مل سکے گا ؟

کمال کی بے حسی ہے کہ لاکھوں زلزلہ و سیلاب زدگان گزشتہ کئی برسوں سے بنا سائبان کھلے آسمان تلے موسم کی تلخیاں برداشت کرنے پر مجبور ہیں پینسٹھ فیصد سے بھی زائد آبادی خط غربت تلے زندگیاں گزار رہے ہیں . پانی کی قلت اور بجلی کے بحران نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے . اشیا خور و نوش کے آسمان سے باتیں کرتے نرخ ایک عام انسان کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں . طبی اخراجات برداشت کرنے سے بہترموت کو گلے لگانا ہے اور لاغر و فرسودہ تعلیمی نظام کہ جس کی بگڑتی حالت نے تعلیمی سطح پردنیا بھر کے بد ترین ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے کہ بنگلہ دیش بھی ہم سے تعلیمی میدان میں کہیں آگے ہے . . اور باقی کی رہی سہی کسر ان بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ نے پوری کر رکھی ہے کہ آج کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جس میں ہم خود مختار ہوں سوائے خود کش دھماکوں کے .مسائل کے جبڑا کھولے یہ خطرناک ازدھے اور بحرانوں کے بحر بیکراں میں اس ملک کی ڈوبتی ناؤ ہچکولے لے رہی ہے مگر حکمرانوں کو ان تمام مسائل کا حل فقط صوبوں کی تقسیم میں ہی دیکھائی دیا ہے . مفادات کی اس بہتی گنگا میں ہر کوئی اپنے اپنے ہاتھ دھونے میں مگن ہے اب دیکھیں کہ کب تک یہ گنگا بہے گی ، کب تک یہ شکستہ ناؤ ان مفاد پرست نا خداؤں کے ہاتھوں چلے گی ؟ اور آخر کب تک حکمرانوں کی ہر پل بڑھتی بے حسی اور عوام کی اس گھمبیر خاموشی کے نا نا قابل معافی گناہوں کا بوجھ یہ سر زمین اٹھا پائے گی ؟

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team