اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔22-08-2011

ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئی

کالم ----- عفاف اظہر

اقوام متحدہ نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پرتشویش کا اظہارکرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اغواء، ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے کے سلسلے اور صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں اس طرح کے واقعات کا سلسلہ سال دو ہزار میں جاری ہے۔اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفترکے ترجمان رپرٹ کولیویل نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل کئی رپورٹیں وصول کی ہیں، جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے اس ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان کولیویل نے پاکستان میں تمام حکومتی اورسیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ملک میں اغواء، ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے کے سلسلے اور صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ روکنے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں پاکستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے اور سال دو ہزار دس میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں سولہ صحافی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم کمیٹی (سی پی جے ) کے مطابق اس سال کے دوران گیارہ صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن ان واقعات میں نہ کوئی ملزم گرفتار ہوا ہے اور نہ ہی ملوث افراد کو سزا ہوئی ہے۔ اور بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جون میں جاری ہونے والے رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ اب تک صوبے کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کی ایک سو سے زیادہ لاشیں مل چکی ہیں۔
جس طرح کسی بھی کھيل ميں کھلاڑی ٹيم ورک کو پس پشت ڈال کر انفرادی طور پر کھیلنے لگیں تو یقیناً نتيجہ ناکامی کی صورت ميں نکلے گا بالکل اسی طرح ہمارے ملک ميں ہر طبقہ کے نا خداؤں نےاپنا الو سیدھا کرنے کے لئے انفرادی کھيل کھیلنے کا سلسلہ اپنا رکھا ہے اور نتيجہ وہی يعنی کبھی ايک کا نقصان کبھی دوسرے کا۔ سياستدان ہوں یا پھر ملا حضرات ، بيوروکريٹس ہوں یا پھر فوج یا کہ پھر جج صاحبان ہر کوئی اپنا راگ الاپتا دیکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے ملک کو ہر کسی کی وجہ سے باری باری بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لاشوں کے تحفے وصول کر رہے ہیں، نوجوان خون میں نہلا رہے ہیں، مسجدیں بارود کا ڈھیر بن چکی ہیں امام بارگاہیں محفوظ نہیں، مزار اور مقدس مقامات دہشت کی لپیٹ میں ہیں . الغرض ہر کسی نے آج تک یہاں وہی تو بیچا ہے جسکی مانگ تھی ـ ملا اور ضياء نے مومن بن کراسلام بيچا، جرنیلوں نے پاکستان بيچا، پی پی پی اور نوں لیگ نے جمہوريت بيچي، شریفوں نے شرافت بیچی کسی نے زبان تو کسی نے قوميت کا بھاؤ لگايا اور کسی نے علاقاقيت کی بولی لگائی تو کسی نے اپنی ہی قيمت لگائي مگر منزل سبکی مشترک تھی اور وہ تھا اقتدار اور پيسہ ـ ۔لیکن یہاں اس کھیل میں کپتان سمیت نااہل سیاست کے کھلاڑیوں کو سمجھنے کی طاقت اگر کسی کے پاس تھی تو وہ فقط امریکہ ہی کے پاس تھی لیکن اس ضمن میں امریکہ .کی آج تک کی خاموشی کو کیا انسانی حقوق کی پاسبانی سمجھا جائے گا ؟
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئی
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے، بعد اور آج تک انسانی حقوق کی پامالیوں کا بازار اسی طرح گرم رہا ہے گویا کہ پاکستان نے ہمیشہ ہی سے اس ضمن میں دنیا بھر کو پیچھے چھوڑ دینے کا تو گویا عہد کر رکھا ہے ہر کسی نے دو دھاری تلوار ہاتھوں میں اٹھا رکھی ہے الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو دیکھیں، پہلے “جناح پور“ اور پھر “پاکستان ہے تو ہم ہیں“ کا نعرہ لگا دیا۔ نواز شریف کی ن لیگ کو دیکھیں، پہلے سپریم کورٹ پر دن دھاڑے مسلح حملہ اور بعد میں اسکی تقدیس میں خصوع و خشوع سے آغاز۔ ضیاء الحق کو دیکھیں، ایک طرف افغانستان میں اللہ کی خوشنودی بذریعہ “جہاد“ کا درس جبکہ دوسری طرف پاکستان میں “فرقہ واریت“ کی تن، من اور دھن سے سرپرستی۔ کس کا ذکر کریں اور کس کو چھوڑیں یہاں تو " ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا ؟" مگر “وِچوں وِچوں کھائی جاؤ، اُتوں رولا پائی جاؤ“ کے مصداق انہی مغربی آقاؤں کی بے جا خاموشی پشت پناہی اور ملی بھگت سے آج انسانی خوں کی یہ ارزانی نظر آ رہی ہے مانا کہ جب گھر میں چور ہوں تو باہر سے کوتوال تو نہیں آئے گا چور ہی آئے گا کہ اگر باہر کے چوروں کو روکنا ہے تو اس چور کو پکڑنا ہوگا جو گھر کے اندر رہ کر باہر کے چوروں کو دعوت دیتا ہے . قصوروار ہر حال میں گھر والے ہی ہیں . لیکن دوسری طرف جيسے سابق صدر مشرف صاحب نےاپنے انٹرويو ميں فرمايا ہے کہ اگر ہم امريکہ کا ساتھ نہ ديتے تو وہ ہميں تباہ کر ديتا- گويا ہم نے ڈر کر امريکہ کا ساتھ ديا، ورنہ دہشت گردوں کو تربيت دينا، انھيں پناہ دينا اور انھيں اپنی سر زمين کو استعمال کرنے دينا کوئی حماقت نہيں تھي- - اور پھر ایک امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے گزشتہ 56 سال کے دوران 63 لاکھ مسلمان شہید کیے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے ڈرون حملوں کے ذریعے 10 ہزار پاکستانی قبائلی شہید کیے ہیں ۔ کیا وہ 63 لاکھ مسلمان بھی انسان نہیں تھے جو امریکہ نے مار دیے۔ یا پھر انسانی حقوق کی پاسداری کرنا امریکہ کی اخلاقی حدود میں شامل نہیں ؟
اور پھر اگر اسامہ کی ہلاکت کے بعد انتقامی کاروائی کا ڈھنڈورا پیٹ کر نام نہاد اور خود ساختہ “دہشتگردی کے خلاف جنگ“ کو جاری رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ “کے جی بی“ یا “ایم سولہ“ اپنی شکست کا بدلہ لینے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے گی اور کوئی بھی انتقامی کاروائی نہیں کرے گی؟ حالانکہ سن اسی کی دہائی میں امریکی صدر رونلڈ ریگن کے دورِ صدارت کے شروع سے ہی امریکی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ عالمی سطح پر دہشتگردی کے پسِ پشت روس کا ہاتھ ہے۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے لہذا اس میں سکت ہی نہیں اٹھنے کی۔ تو یہ منطق بھی اس لیے قرین قیاس قرار نہیں دی جا سکتی کہ زخمی شیر، صحتمند شیر کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایک وقت ہوتا تھا جب مٹھی بھر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے لیے ایک فرض شناس پولیس آفیسر ہی کافی ہوتا تھا لیکن اب تین ڈویژن فوج بھی ان کے آگے بے بس نظر آتی ہے اور اس کی مثالیں، کشمیر کی وادیوں، افغانستان کے بیابانوں اور پاکستان کے سبزہ زاروں میں دہشتگردوں کی کامیاب کاروائیوں سے عیاں ہیں۔ لیکن یہاں سوچنے کی بات ہے کہ جب دہشتگروں کے خلاف ایک ایس ایچ او ہی کافی ہوتا تھا تب کسی ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں میں دوسرے ممالک کا مفاد پوشیدہ نہیں ہوتا تھا، تب حکومتیں اُلٹنے کے لیے دہشتگردی کا سہارا نہیں لیا جاتا تھا، تب مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے دہشتگردوں سے ہنگامے نہیں کروائے جاتے تھے تاکہ ملک کو داخلی انتشار کا شکار ثابت کیا جا سکے، تب تشدد اور تباہی کے ذریعے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کا رواج نہیں ہوتا تھا، تب “بوری بند کلچر“ کی دہشت نہیں تھی، تب آتشیں اسلحہ سرِ عام نہیں بکتا تھا۔ تب پولیس اور فوج میں کرپشن نہیں تھی۔ ان حالات و واقعات و حقائق و تبدیلیوں کے پیشِ نظر فوج، نیوی اور سیکورٹی اداروں پر دہشتگرد حملوں کو فوج کی کمزوری و نااہلیت سے مشروط کرنا حقائق و حالات پر پردہ پوشی اور عوام الناس کی آنکھوں میں دن دھاڑے دھول جھونکنے کی ایک منحنی سی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہلا سکتا۔
اقوام متحدہ کا یہ ڈبل کردار بھی سمجھ سے با لا تر ہے کیا اقوام متحدہ لا علم ہے کہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک جو جو کچھ وہاں ہوتا چلا آ رہا ہے جو اس کے بعد ابھی انھیں وہاں سے انسانی حقوق کی پاسداریوں کی توقعات وابستہ ہیں ؟ یا پھر اقوام متحدہ کا کام صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اسطرح رپورٹیں ہی پیش کرنا ہے اور وہ بھی ان ممالک جن کے سر سے امریکہ کا دست شفقت اٹھ چکا ہو یا پھر اٹھنے کے ارادے باندھ رہا ھو ؟ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تو پاکستان میں ایک عرصۂ دراز سے ہوتی چلی آ رہی ہیں مگر اقوام متحدہ یہ سب آج ہی کیوں دیکھائی د ینے لگی ہیں .؟.

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team