اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔25-06-2011

حزب تحریر
کالم  ۔۔۔۔۔  محمد مبشر انوار
دنیا میں ازل سے خیر و شر کی قوتیں بر سر پیکار ہیںاور ہر دور میں نیکی اور بدی کی جنگ جاری رہی ہے لیکن کبھی کبھی یہ جنگ نیکی و بدی سے ہٹ کر نظریات کی جنگ میں بھی تبدیل ہوتی رہی ہے گو کہ اس میں بھی بنیاد خیر و شر ہی کی رہی کہ ایک فریق دوسرے فریق کو شر کا نمائندہ جبکہ دوسرا فریق پہلے کو شر کا نمائندہ سمجھ کر یلغار کرتا رہا۔ جنگ و جدل کے ان معرکوں میں اگر خیر و شر کا پیمانہ جانچنا ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ فاتح کا کردار کیا رہا اگر تو فاتح نے مفتوح قوم کے جان ومال،عزت و آبرو، کھیت کھلیان کا تحفظ کیا اور نہتے و مسلح کے درمیان فرق ملحوظ رکھا تو ایسا فریق بجا طور پر خیر کا نمائندہ کہلانے کا حقدار ہے کہ یہ سب خصوصیات انسانیت کے زمرے میں آتی ہیں اور صرف خیر کے نمائندے ہی انسانیت کی تکریم کرتے ہیں،شر کو یہ توفیق ہی نہیں کہ وہ انسانیت کی تکریم کرے۔ علاوہ ازیں خیر کے نمائندے مفتوح قوم کو لڑانے سے بالعموم گریز کرتے ہیںجبکہ وہ فریق جو جنگ وجدل کے نتیجے میں فاتح ہونے کے بعد ان عوامل کے ساتھ انسانیت کے پیمانے پر سلوک رکھنے سے قاصر ہو وہ یقینی طور پر شر کا نمائندہ تصور ہو گا۔حتی کہ آج کے مہذب دور میں وہ قوتیں جنہوں نے ،انسانیت کا پرچار کرتے ہوئے انسانیت کے نام پر،جنگی قیدیوں اور جنگوں کے اصول وضع کر رکھے ہیں،وہ بذات خود طاقت کے نشے میں انہی اصولوں کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔خواہ وہ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ ہو یا اسامہ بن لادن کا یا پھر ریمنڈ ڈیوس کا،ہر معاملے میں ان طاقتوں کی جانبداری اور انسانیت کے اصولوں کی پامالی واضح نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پر عائد فرد جرم کے اعتبار سے امریکی عدالت عظمی مصلحت و دباو ¿ کا شکار رہی اور نا مکمل شواہد کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو 85سال کی قید سنائی گئی۔ ریمنڈ ڈیوس نے دن دیہاڑے،عوام الناس کے درمیان دو پاکستانیوں کو طاقت کے نشے میں سر عام قتل کردیا ، کہ اسے صرف علم نہیں بلکہ یقین تھا کہ اس کا ملک اسے رہائی دلا سکتا ہے اور ہوا بھی یہی کہ سرعام قتل عام کرنے والاامریکی بالآخر بآسانی اپنے ملک جانے میں کامیاب رہا جبکہ ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں نہ صرف منہ دیکھتی رہیں بلکہ اپنی بہترین خدمات کے اظہار سے بھی گریز نہ کر پائی۔ گو کہ صوبائی حکومت اپنی فیس سیونگ کی خاطر خدمات سے انکار کرتی رہی مگر اس کی نااہلی مقدمے کی کارروائی سے صاف ظاہر ہوتی رہی جبکہ وفاقی حکومت اس مسئلے کو صوبائی حکومت کے گلے باندھنے پر مصروف رہی لیکن در پردہ امریکی حکومت کو خوش کرنے کی کوششوں میں مصروف رہی۔ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے امریکی و پاکستانی حکومت کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے یہ اب کوئی راز کی بات نہیں رہی اور اس کی رہائی کے لئے قانون کا کس طرح استعمال ہوا،عدالتی کارروائی کو کس طرح مذاق بنایا گیا،یہ ساری دنیا جانتی ہے جس کے نتیجے میں بعد ازاں عدالتی فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا عندیہ اس وقت دیا گیا جب تمام معاملات بخیر و خوبی طے پا چکے تھے اور حتمی طور پر یقین ہو چکا تھا کہ عدالت کا فیصلہ یقینی طور پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔اور یوں امریکی حکومت اپنے شہری کو بچانے میں کامیاب رہی اس کے برعکس ڈاکٹر عافیہ کس کسمپرسی سے اپنا مقدمہ ہار گئی ۔ قانون کا مذاق وہاں بھی اڑایا گیا، عدالتی جانبداری وہاں بھی نظر آئی مگر ہار ہر دو صورتوں میں کمزور فریق کی ہوئی،اور طاقتور فریق اپنی بات بزور منوانے میں کامیاب رہا۔
تیسر طرف اگر اسامہ بن لادن کے کیس پر نظر دوڑائیں تو اس میں بھی طاقتور فریق ”مائیٹ از رائٹ“ کا ببانگ دہل اظہار کرتا نظر آیا۔ ایک خود مختار ”دوست ملک“ کی خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے، اس کے حفاظتی انتظامات کا کھلے عام مذاق اڑاتے ہوئے، اس کے دارالخلافہ کے قریب فوجی آپریشن کر کے وہاں سے کامیاب بحفاظت واپس چلا گیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے حساس اداروں پر دباو ¿ بڑھایا گیا کہ اسامہ بن لادن کے وہاں روپو ش ہونے میںیقینی طور پر با اختیار افراد کسی نہ کسی سطح پر ملوث ہیں لہذا ان کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے حساس اداروں میں حاضر سروس افراد زیر تفتیش ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان میں سے کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ حقیقتاً ایسا ہی ہوا ہوجیسے ان کا تعلق ایک نئی منظر عام آنے والی تنظیم سے جوڑا جا رہا ہے،جس کا کھرا بھی ایک غیر مسلم ملک”برطانیہ“ میں ملتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسی تنظیمیں، کام مسلم دنیا اور مسلمانوں کے لئے کرتی ہیں ،مگر ان کے تانے بانے غیر مسلم ممالک سے جا ملتے ہیں، نہ صرف غیر ممالک میں بلکہ بہت سی تنظیموں کی سرپرستی بھی غیر مسلم کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی ہوں یا القاعدہ و طالبان، یہ سب تنظیمیں انہی طاقتوں کے ایماءاور ان کے مقاصد کے حصول کی خاطر وجود میں آئی مگر مطلب نکلتے ہی ان کا کردار مجاہدین سے دہشت گردوں میں بدل چکا ہے۔ حالیہ منظر عام پر آنے والی نئی تنظیم ،جس کو حزب تحریر کا نام دیا جا رہا ہے،درحقیقت ہر دوسرے دن نئی تنظیم کے قیام کا اعلان ،انگر یز کے لڑاو ¿ اور حکومت کرو ،کے قول کی عملی مثال ہے۔ اسی طرح مسلم دنیا میں آئے روز نت نئی تنظیمیں اس امر کا اظہار ہیں کہ غیر مسلم دنیا، مسلم دنیا کو کسی بھی صورت مستحکم دیکھنے کے لئے تیار نہیں ۔ آج غیر مسلم فاتح کی حیثیت رکھتے ہیں مگر انسانیت کے جو اصول ان ممالک نے وضع کر رکھے ہیں ، اپنے دوغلے کردار سے واضح طور پر ان کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔ نہ ڈاکٹر عافیہ کو انصاف ملا اور نہ اسامہ بن لادن کو۔ آزادی اظہار اور آزادی مذہب کا پرچار کرنے والے نظریاتی طور پر اتنے خوفزدہ اور متعصب ہیں کہ مسلم دنیا میں اپنے مطلب کا نصاب متعارف کروانے پر بضد ہیں۔ مذہبی اقدار کی حفاظت کرنے والوں کو جبراً انتہا پسند و دہشت گرد قرار دے کر انہیں نیست و نابود کیا جا رہا ہے تا کہ مسلم دنیا کسی صورت متحد نہ ہو سکے جبکہ ہر نئی تنظیم مسلم اتحاد کی داعی ہے ۔ کیا حزب تحریر بھی ایسی ہی کوئی تنظیم تو نہیں جو 1953سے کام کررہی ہے مگر اب اسے ساری اسلامی دنیا میں پذیرائی مل رہی ہے، اور جانے اور کتنی تنظیمیں ابھی اغیار کی زنبیل میں موجود ہیں!!!
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved