اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-  mmanwaar@yahoo.com

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت06-01-2009

کون کیا کر رہا ہے

کالم:۔ محمد مبشر انوار

تقریح طبع کے لئے کھیلے جانے کسی بھی کھیل کو جب تک اس کے مروجہ قواعد و ضوابط کے مطابق نہ کھیلا جائے تو اس کے حقیقی حسن اور لطف سے محظوظ نہیں ہوا جا سکتا اور ایسے کسی بھی کھیل میں ہونے والے اثرورسوخ ‘بد نیتی یا بے ایمانی کا احساس تماشائیوں کو ہو جاتا ہے تب یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ شخص یا ادارہ جو کھیل کی غیر جانبداری پر کسی بھی حیثیت میں اثر انداز ہوتا ہے یا تو اپنی جانبداری یا جرم کا اقرار کر کے کھیل کی اہمیت کو برقرار رکھے وگرنہ تماشائی اس کھیل میں ہونے والی بد نیتی سے اکتا کر اس سے دامن چھڑانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔ اس قسم کی کئی مثالیں کھیل کے مختلف میدانوں میں اور تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔ دوسری طرف سیاست ‘جس میں تفریح طبع کی بجائے عوامی فلاح و بہبود کا عنصر پایا جاتا ہے اور سیاستدانوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اختیارات اور اجتماعی دانش و بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی کو یقینی بنائیںگے‘ پاکستانی سیاست کو بالعموم مختلف اطراف سے آلودہ کرنے اور سیاست کے چشمے کو زہر آلود کرنے کی دانستہ کوششیں کی جاتی ہیں‘ جس سے سیاستدان خود بھی مستثی نہیںکہ سیاستدان بھی سیاست میں ذاتی مفادات کے اسیر ہو کر اپنے ہی ہمعصروں کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کر کے اس کے جمہوری حسن کو برباد کرتے ہیں۔
ریاست کے مجوزہ اور مسلمہ ستونوں میں مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے علاوہ اب میڈیابھی غیر متنازعہ طور پر مسلمہ ستون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ تیسری دنیا بالعموم اور بعد از آزادی پاکستانی سیاست میں بالعموم ایک اور ادارہ بھی اقتدار کے ایوانوں میں کسی نہ کسی حوالے سے جلوہ افروز رہا ہے اور اس کے مفادات ہمیشہ اقتدار میں ہونے والی اونچ نیچ سے وابستہ رہیں ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ ادارہ بیک وقت دو محاذوں پر(فرائض منصبی اور اقتدارکے ایوانوں ) بر سر بیکار رہا ہے اور بد قسمتی سے ہر دو محاذوں پر عدم یکسوئی کے باعث صد فصد کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔ آئینی حوالے سے دیکھا جائے تو اس ادارے کا اپنا ایک مخصوص دائرہ کار ہے جس کے اندر رہتے ہوئے اسے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے چاہئیں مگر افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں میں یہ تاثر اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ وہ اپنی سیاست کا محور و مرکز اس ادارے کے لوگوں کی رپورٹس کو رکھتے ہیں اور انہی رپورٹس کی بنیادوں پر اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں۔ اس طرح اس ادارے کا کردار ملکی سیاست میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جبکہ ریاست کے باقی ستون بھی ملکی سیاست میں اپنے اپنے کردار کے حوالے سے اسی ایک ادارے کی طرف دیکھتے رہیں ہیں ۔ آج کی ملکی سیاسی صورتحال قدرے مختلف ہے یا مختلف پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘ان اداروں میں عدلیہ اور میڈیا پیش پیش ہیں۔ ایک طرف عدلیہ اپنے ماضی کی نسبت آج زیادہ کھل کر اور با اعتماد طریقے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے تو دوسری طرف میڈیا بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس ادارے پر کسی کا اثر نہیں ہے۔ ماضی قریب میں دیکھیں تو پرویز مشرف دور حکومت میں ہونے والی بد انتظامی کے نتیجے میں جو صورتحال ملک کے اندر پیدا ہوئی ‘ اس میں یہ میڈیا ہی تھا اور یہ سیاستدان ہی تھے ‘ جنہوں نے مل کر ایک غیر آئینی اقدام کی ہر سطح پر بھر پور مذمت کی اور میڈیا نے ان کا بھر پور ساتھ دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک او رنا قابل تردید حقیقت ‘جس سے انکار ممکن نہیں ‘ وہ یہ کہ اسی طاقتور ادارے نے ملکی و عالمی صورتحال کے پیش نظر پرویز مشرف کی پشت پناہی سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا تھا ‘جس میں عالمی ضامنوں نے بھی اقتدار کے رسیا کے سر سے دست شفقت کھینچ کر اس کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا تھا۔ ملکی ادارے کے پیش نظر کیا ترجیحات رہی اور عالمی ضامنوں کے پیش نظر ہاتھ اٹھانے کی کیا وجوہات رہی ‘یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ملکی ادارے کے نزدیک اپنی ساکھ کا مسئلہ درپیش تھا تو عالمی ضامنوں کو نتائج نہیں مل رہے تھے ‘ جس کے لئے انہوں نے دست شفقت دراز کر رکھا تھا لہذا ان ترجیحات اور وجوہات کی بناءپر ہی میڈیا اور سول سوسائٹی پرویز مشرف کو اقتدار سے باہر کرنے میں کامیاب ہوئی تھی ۔ آج بھی ملکی و عالمی سطح پر بھی بعینہ یہی صورتحال پیدا ہو چکی ہے یا اسی صورتحال کا تاثر ابھارا جا رہا ہے ‘جس میں ملکی ادارہ سالمیت و کرپشن کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کررہا ہے تو دوسری طرف عالمی ضامنوں کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ دوسری طرف میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے بعد اور براستہ این آر او پاکستان واپسی کا راستہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی ضامنوں کو بہتر کارکردگی کا یقین بھی دلایا گیا۔
بد قسمتی سے پاکستان کے سیاسی افق پر پھر ویسے ہی بادل نظر آ رہے ہیں کہ ملک کا طاقتور ترین ادارہ بظاہر حکومت کے ساتھ نظر آ رہا ہے مگر در پردہ اس ادارے کی تر جیحات کے عین مطابق میڈیا کے کچھ عناصر‘ مسلسل حکومتی بد عنوانیوں کو طشت ازبام کر تے ہوئے‘ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ کہ واضح طور پر محسوس ہو کہ جمہوری حکومت پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو رہی ہے اور جلد از جلد اس حکومت کے اعلی عہدیدار سے جان چھڑانے میں ہی ملکی استحکام مضمر ہے۔ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ میڈیا کا کردار بلا شبہ حکومتی بد عنوانیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ایک چیک رکھنا بھی ہے اور حکومتی عہدیداروں کو بھی اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ ان کی جتنی ذمہ داری ہے اسی قدر ان کی باز پرس بھی ہو گی اور ان پر تنقید بھی ویسے ہی ہو گی لہذا ایسی تنقید کو وہ اپنی اصلاح کے لئے استعمال کریں تو یقینی طور پر بہتری کی صورت پیدا ہو گی ‘ جارحانہ بیانات سے تصادم کی راہ ہموار ہو گی‘ جس میں نہ صرف ملک بلکہ حکومت کا بھی نقصان ہے۔ آنے والا غیر جانبدار مو ¿رخ جہاں میڈیا کی جارحیت کو تنقید کا نشانہ بنائے گا وہیں وہ حکومت کی عاقبن نا اندیشی اور بد عنوانی کو بھی معاف نہیں کرے گا۔



 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team