اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-  mmanwaar@yahoo.com

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت01-02-2010

نئی پیش رفت مذاکرات کیوں

کالم:۔ محمد مبشر انوار



مفادات کے اس دور میں انفرادی و اجتماعی طور پر ریاستیں بھی مفادات کے حصول کے سنہری اصول پر کاربند ہیں اور اپنی قوم و ملک کے مفادات کا تحفظ قانونی و غیر قانونی ہر دو طریقوں سے کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسی ہی صورتحال آج سے تقریباً نو برس پہلے پید اہوئی اوروقت کی عالمی طاقت نے فوری عجلت میںان حالات سے اپنے لئے مفادات کو کشید کرنے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا۔ عالمی سطح پر مفادات باالعموم سٹریٹجک نوعیت کے ہی ہوتے ہیں اور ایسی صف بندی میں بائیں دکھا کر دائیں سے وار کر دیا جاتا ہے جبکہ مضروب ریاست کو ہوش اس وقت آتی ہے جب پانی سر سے گذر جاتا ہے بالخصوص ایسی ریاست میں جہاں اقتدار بیساکھیوں پر قائم ہو،اقتدار آئینی و قانونی جواز بنیادوں کے بغیر ہو،اور اختیارات کا استعمال فقط وقتی ہو نہ کہ دائمی۔ 2001میں بعینہ پاکستان میں یہی صورتحال تھی جب ایک آمر کے لئے اپنے اقتدار کو جواز مہیا کرنے کے لئے کسی ایسی ہی صورتحال کی ضرورت تھی اور 1977میں بھی ملک ایسی ہی صورتحال کا شکار تھا جہاں عالمی ضرورت کے تحت فرد واحد کے فیصلوں کو عالمی طاقتیں اپنی سہولت کے مطابق ڈھال سکتی تھی۔اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ امریکہ کے سٹریٹجک مفادات کیا رہے تھے اب سوال یہ ہے کہ ان مفادات کا حصول کہاں تک ممکن ہو سکا ہے اگر ان سٹریٹجک مفادات کا شمار کریں تو ان کی ترجیحات کا تعین تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے لیکن ترجیحات یقینی طور پر یہی رہی ہیں۔ ۱ طالبان طرز حکومت کا خاتمہ۲سنٹرل ایشیاءسے معدنیات کی ترسیل۳چین پر دباو ¿ اور ہندوستان کا علاقائی کردار۴پاکستان کا ایٹمی پروگرام و اندرونی عدم استحکام ۵ ان مفادات کے حصول کے لئے خود ساختہ دہشت گردی کےخلاف جنگ بطور ہتھیار
طالبان طرزحکومت سے امریکہ و دوسری مغربی ریاستوں کو خوفزدہ ہونا اب مسلمہ ہو چکا ہے کیونکہ طالبان خواہ کیسی ہی حکومت کر رہے تھے ایک حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ان کے دور حکومت میں افغانستان پر سکون تھا اور وہ جس شریعت کو نافذ کرنا چاہتے تھے،اس میں کسی حد تک کامیاب بھی تھے یہ الگ بحث کہ ان کی شریعت واقعتاً شریعت محمدی کی تصویر تھی یا نہیں؟لیکن طالبان کی حکومت باقی اسلامی ممالک کے لئے ایک مثال بن سکتی تھی کہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والا ملک میں اپنے فقہ کے مطابق آج کے دور میں بھی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لاسکتا ہیں جو استعماری طاقتوں کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا اور وہ اس سوئے ہوئے شیر کو جگانا نہیں چاہتے تھے سو گیارہ ستمبر کا ڈرامہ رچانا پڑا اور اس ڈرامے پر عجلت سے عملدرآمد کو کامیابی کی کنجی تصور کیا گیا۔دوسری اہم ترجیح سنٹرل ایشیاءمیں پائے جانے والے وہ قیمتی معدنی ذخائر تھے جن کی آنے والے وقت میں قدر و قیمت انتہائی زیادہ ہوگی، ان پر تسلط کے ساتھ ساتھ ان کی ترسیل کے راستوں کو محفوظ تر بنانا بھی شامل تھا۔ تیسری اہم ترین ترجیح خطے میں چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کو قابو میں لانا تھا اور اس مقصد کی خاطر چین کی جاسوسی کے لئے بغیر پائلٹ کا ایک طیارہ بھی چین نے اتار لیا اور سابق صدر بش کو اس پر میڈیا کے سامنے معذرت بھی کرنا پڑی لیکن اس کے باوجود چین نے اس طیارے کو پرزوں میں تبدیل کر کے امریکہ کے حوالے کیا۔ چین کی خارجہ پالیسی روز اول سے ہی جیو اور جینے دو پر استوار رہی ہے اور امریکی جاسوسی طیارے کی واپسی اسی پالیسی کا ایک حصہ تھی لیکن چین نے اپنے مفادات اور خودداری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا بلکہ امریکہ کو یہ باور کرایا کہ چین کی سالمیت و خودداری کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام کا بھر پور جواب دیا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی یہ خواہش بھی رہی ہے کہ وہ اس خطے میں ہندوستان کو علاقائی طاقت کا کردار دیا جائے جس سے علاقے میں موجود باقی ممالک اس سے دب کر رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ ہونے کے باوجود،افغانستان میں بدلتے حالات کے ساتھ اپنے جائز کردارسے محروم رہا جبکہ ہندوستان کو افغانستان میں بیشتر اہم امور پر امریکہ نے اپنے ساتھ رکھا۔ امریکہ ہندوستان کی خوشنودی کی خاطر (بہ حیثیت ایک بڑی منڈی) پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے متعلق بھی شکوک و شبہات پیدا کرتا رہا اور اس کے اندرونی معاملات میں دخیل رہا،اور آج بھی ہے۔افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بتدریج بڑھاتے ہوئے پاکستان کے دامن تک لانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جبکہ بد قسمتی سے ہمارے حکمران ان تمام سازشوں کو بروقت سمجھنے میں قاصر رہے یا دوام اقتدار کی خاطر امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔
ان تمام ترجیحات کو بظاہر دیکھا جائے تو چند ایک دوسرے سے متضاد بھی نظر آئیں گی جیسے پاکستان کا فرنٹ لائن سٹیٹ ہونے کے باوجود اس کا اندرونی عدم استحکام اور ایٹمی اثاثہ جات کے متعلق شکوک و شبہات اوروسطی ایشیاءسے معدنیات کی محفوظ ترسیل کے لئے پاکستان میں استحکام کا ہونا لیکن در حقیقت مفادات کے حصول میں یک جہتی لائحہ عمل سے کام نہیں لیا جاتا بلکہ مختلف متضاد منصوبوں سے اپنے مفادات حاصل کئے جاتے ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان کے حوالے سے بھی ہے کہ معدنیات کی ترسیل تو کسی او ر محفوظ راستے سے بھی ممکن بنا لی جائے گی مگر الکفر ملت واحدہ یہ کسی صورت گوارا نہیں کرے گی کہ ایک اسلامی ملک کے پاس دور حاضر کی جدید عسکری ٹیکنالوجی رہے اور وہ کسی بھی طریقے سے پاکستان کو اس سے محروم کرنے کی کوشش کرے گی۔اب صورتحال یہ ہے کہ امن کے نام پر بد امنی پیدا کرنےوالے بھی بالآخر مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار ہیں مگر میز پر آنے سے پہلے زمین کو اپنے حق میں ہموار کر چکے ہیں۔ امریکہ 2011 میں افغانستان سے نکلنے کا عندیہ دے رہا ہے لیکن اس سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ اپنے اہداف میں کس حد تک کامیاب ہو ا ہے؟افغانستان و پاکستان میں امن نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے لیکن ہندوستان کا عمل دخل افغانستان میں بہت حد تک بڑھ چکا ہے اور پاکستان سے متصل سرحد پر اس کے 14قونصلیٹ موجود ہیں،جو پاکستان کے اندرونی حالات کو مبینہ طور پر عدم استحکام سے دوچار کئے ہوئے ہیں۔ چین کے خلاف اس کی ہرزہ سرائی ریکارڈ پر موجود ہے ،رابرٹ گیٹس کا پاکستان کو انتباہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے،سو امریکہ و بھارت اپنے مقاصد میں صد فیصد نہ سہی مگر بہت حد تک کامیاب ہو چکے ہیں اور اسی پس منظر میں مذاکرات کی نئی پیش رفت دنیا کے سامنے آ رہی ہے تا کہ ان کا دوغلا کردار اور چہرہ بچ جائے۔
 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team