اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔20-09-2010

تحریک صوبہ ہزارہ اور اے این پی کی سیاست
 
تحریر: نجیم شاہ
 
مسلم لیگ نواز کے ساتھ خیبر پختونخواہ نام پر اتفاق رائے کے بعد اٹھارہویں ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظور ی ہوئی ہی تھی کہ اے این پی نے صوبہ بھر میں جشن منانے کاا علان کر دیا۔ ہر طرف ہوائی فائرنگ، بھنگڑوں اور جشن کا سماں تھا کیونکہ 63سال بعد اے این پی کو خیبر پختونخواہ کی صورت میں اپنی شناخت مل چکی تھی۔صوبے کے نام کی تبدیلی کا مطالبہ باچا خان کے وقت سے کیا جا رہا تھا اور باچا خان پاکستان سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ پاکستانی سرزمین کی بجائے جلال آباد افغانستان میں جا کر دفن ہوئے۔باچا خان کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کا خیال تھا کہ صوبے کا نام تو شاید نہ بدلے، کیوں نہ اسی بہانے سیاست کی جائے اور اپنی ساری سیاست کامحور صوبے کے نام کی تبدیلی کو بنا دیا جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی جو خود کو پختونوں کی نمائندہ جماعت کہلوانے کی دعویدار ہے ایک طرف صوبہ پنجاب میں سرائیکی صوبے اور بلوچستان میں پختونوں کے حقوق اور اُن کی شناخت کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ دوسری طرف اگر اپنے صوبے میں بسنے والے غیر پختونوں کی شناخت کی بات آئے تو وہاں اے این پی کا مﺅقف تبدیل ہو جاتا ہے۔صوبے کے نام کی تبدیلی کے خلاف ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان اور چترال میں شدید ردعمل سامنے آیااور ہزارہ کے عوام جو عرصہ سے اپنی ایک الگ شناخت چاہتے تھے وہاں صوبے کے نام کی تبدیلی کے بعد صوبہ ہزارہ کی تحریک مزید زور پکڑ گئی۔
ہزارہ کے عوام کو صوبے کے نام کی تبدیلی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جس طرح عوامی نیشنل پارٹی ”پختونخواہ“ کی صورت میں اپنی الگ شناخت چاہتی تھی اسی طرح ہزارہ کے عوام بھی اپنی ایک الگ شناخت چاہتے ہیں کیونکہ ہزارہ نہ صرف پورے صوبے بلکہ پاکستان بھر میں مشہور و معروف ڈویژن ہے اور پشتو کے بعد ہندکو پورے صوبے کی دوسری بڑی زبان ہے جو نہ صرف ہزارہ ڈویژن کے پانچ اضلاع بلکہ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت کوہاٹ، نوشہرہ، ڈیرہ اور بنوں کی بھی زبان ہے اس کے علاوہ ضلع اٹک میں بھی ہندکو بولنے والوں کی اکثریت موجود ہے۔
ہزارہ ڈویژن مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، بٹ گرام اور کوہستان کے اضلاع پر مشتمل ہے۔پینتالیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس ڈویژن میں تقریباً 65فیصد ہندکو بولنے والے موجود ہیں جبکہ 35فیصد آبادی پشتو بولتی ہے۔ پشتو بولنے والوں میں بھی اکثریت اُن لوگوں کی ہے جن کے گھروں میں پشتو کے ساتھ ساتھ ہندکو بھی بولی جاتی ہے۔ میں خود پٹھان قبیلے میں سید فیملی سے تعلق رکھتا ہوں اور مانسہرہ کے جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں ہندکو اور پشتو دونوں زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ مانسہرہ میں ساٹھ فیصد ہندکو جبکہ چالیس فیصد آبادی پشتو بولتی ہے۔ ایبٹ آباد اور ہری پور میں اکثریتی زبان ہندکو ہے جبکہ بٹ گرام میں اکثریتی آبادی پشتو بولتی ہے۔ ہزارہ ڈویژن کے ضلع کوہستان کی زبان کوہستانی ہے۔
ہزارہ ڈویژن اس لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد 95فیصد ہے۔ ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے تعلیمی ادارے پورے ملک میں مشہور ہیں اور ہر صوبے سے طالب علم یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔اسی طرح پاکستان کی 70فیصد چائے اور 80فیصد تمباکو بھی ہزارہ میں پیدا ہوتا ہے۔ شنکیاری میں چائے کے باغات اپنی مثال آپ ہیں۔ پولٹری کی صنعت میں بھی ہزارہ آگے ہے۔ پولٹری کی پیداوار میں مانسہرہ پورے ملک میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ اس کے بعد پنجاب کے ضلع فیصل آباد کا نمبر آتا ہے ۔39فیصد بجلی ہزارہ کے مقام تربیلا سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور چین کے درمیان زمینی راستہ ”شاہراہ قراقرم“ بھی ہزارہ ڈویژن سے گزرتی ہے۔ اس طرح صوبے کی آمدنی پر 80فیصد ہزارہ کا حق بنتا ہے۔اگر یہی سب کچھ دیکھا جائے تو ہزارہ کو صوبہ بنانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
جہاں تک عوامی نیشنل پارٹی کا یہ اعتراض کہ ہزارہ میں صرف ہندکو ہی نہیں پشتو بولنے والوں کی بھی اکثریت ہے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ صوبہ پختونخواہ کے دارالخلافہ پشاور کی زبان ہندکو ہے اس کے علاوہ کوہاٹ، نوشہرہ، بنوں کی زبان بھی ہندکو ہے جبکہ چترال میں چترالی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں سرائیکی زبان بولنے والے موجود ہیں۔ ضلع دیر میں بھی وہاں کی مقامی زبان کو اہمیت دی جاتی ہے۔اگر گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ مل سکتا ہے تو پھر قدرتی وسائل سے مالا مال ہزارہ ڈویژن کو بھی صوبہ کا درجہ ملنا چاہئے ۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی ایک نیا تنازع کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اُس نے آئندہ تعلیمی سال سے پورے صوبے کے سرکاری اسکولوں میں پشتو کو پہلی جماعت سے میٹرک تک لازمی مضمون قرار دینے کی منظوری دے دی ہے۔ پشتو کو لازمی مضمون کے طور پر صوبے کے جن پچیس اضلاع میں اگلے تعلیمی سال سے پڑھایا جائے گا اُن میں ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، کوہستان، ڈیرہ اسماعیل خان اور چترال بھی شامل ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے صوبے کی 63سالہ تاریخ میں پہلی بار پشتو کو لازمی مضمون قرار دیا ہے۔ جس کے جواب میں ہزارہ کے عوام بھی صوبے کی دوسری بڑی زبان ہندکو کو لازمی مضمون کے طور پر پورے صوبے میں نافذ کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved