اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔01-10-2010

مسجد کا اُڑتا ہوا گنبد، حقیقت یا ڈرامہ
 
تحریر: نجیم شاہ

ابتدائے آفرینش سے ہی حضرت انسان میں یہ وصف رکھ دیا گیا کہ وہ اپنی عقل کے استعمال سے اشیاءکی حقیقت و ماہیت جاننے کےلئے ہر لحظہ کوشاں رہتا ہے۔ انسان کی پیدائش کی غرض و غائت، اس کی تکمیل کی خواہش، مادی آسائشات کا استعمال، معلوم حقائق کی سچائی کی پرکھ اورغیر معلوم حقائق جاننے کی کوشش، یہ تمام تحقیق ہی کے مختلف انداز ہیں۔اسلام وہ واحد دین ہے جو رہبانیت کی نفی کرتا ہے اور انتہائی سچائی تک پہنچنے کیلئے عقل کے استعمال کی اجازت دیتا ہے کیونکہ تحقیق و تجربے میں غور و فکرسے اگر منہ موڑا جائے تو اصل حقائق تک پہنچنے میں دشواریاں ہوتی ہیں۔اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ کسی بھی خبر کی حقیقت جاننے کیلئے تحقیق ضرور کر لینی چاہئے ہو سکتا ہے وہ خبر یا واقعہ جو کسی بھی ذریعے سے آپ تک پہنچا ہوجھوٹا اور من گھڑت ہو۔ اسی طرح اسلام میں بہتان طرازی سے بھی منع کیا گیا ہے۔کسی بھی جھوٹ کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے پیارے رسول سے منسوب کرنا بہتان طرازی کے زمرے میں آتا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے:”اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھے ۔“(یونس ۔۷۱) حدیث میں بھی اس طرح کے جھوٹ سے منع کیا گیا ہے اور سخت وعید سنائی گئی ہے۔حضرت علیؒ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھ پر جھوٹ مت بولو کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہو۔“اس سے ظاہر ہوا کہ کسی بھی جھوٹ کو نبی کریم سے منسوب کرنا بجائے ثواب حاصل کرنے کے اُلٹا ہمارا ٹھکانا جہنم میں بنا سکتا ہے۔آج کل ایک ویڈیو کا بڑا چرچا ہے۔اس ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیپال میں زیر تعمیر مسجد کے مینار پر گنبد لگانے کیلئے مقامی کرین آپریٹر سے مدد مانگی گئی تو اُس نے انکار کر دیا اور کہا کہ تم اپنے اللہ سے مدد مانگو ۔ وہیں پر کسی مسلمان کو خواب میں بشارت ہوئی کہ گنبد پر کپڑا ڈال کر چھوڑ دو اور دیکھو اللہ تعالیٰ کیسے گنبد کو مینار تک پہنچاتا ہے۔اس واقعے کی صرف ایک ہی موبائل ویڈیو مختلف لوگوں نے انٹرنیٹ اور یوٹیوب پر اَپ لوڈ کی ہوئی ہے جس میں گنبد اُڑتا ہوا آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے اور جا کر مینار پرلگ جاتا ہے۔ لوگ اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے چیخیں اور دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر چیز پر قادر ہے اور اُس ذات کیلئے کوئی کام بھی مشکل نہیں ہے۔اس واقعے کو اللہ تعالیٰ کا معجزہ اور اسلام کی فتح قرار دیا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی اس کی گہرائی میں جانے کیلئے تیار نہیں کہ تحقیق کرکے پتہ لگاسکے کیا واقعی نیپال میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے؟ اگر رونما ہوا ہے تو میڈیا کے اس دور اس کی اتنی تشہیر کیوں نہیں ہوئی؟ ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے میں کہاں تک سچائی پنہاں ہے؟ ایسی ویڈیو منظرعام پر لانے کا اصل مقصد کیا ہے اور اس میں کونسے عناصر ملوث ہو سکتے ہیں؟یہ چند ایسے سوالات ہیں جو ویڈیو دیکھنے کے بعد ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ہم لوگ ہمیشہ خیالوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ کسی بھی واقعے یا خبر کی تحقیق کئے بغیر اُسے من وعن تسلیم کر لیتے ہیں۔ مذکورہ ویڈیو آج سے کوئی تین سال پہلے انڈونیشیا کے ساتھ منسوب کی گئی تھی ۔اگر آپ یوٹیوب پر سرچ کریں تو یہی ویڈیو2008ءکے ابتدائی مہینوں میں بھی اَپ لوڈ کی ہوئی ملے گی۔ انڈونیشیا چونکہ ایک اسلامی ملک ہے اور وہاں کرین آپریٹر کے انکار کا شوشا کامیاب نہیں ہو سکتا تھا اس لئے ایک طویل عرصے کے بعد اس ویڈیو کو پالش کرکے نیپال کے ساتھ جوڑا گیا اور ایک من گھڑت کہانی گھڑی گئی۔ویڈیو میں گنبد کا آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے ایک ہی زاویئے میں بلندی تک پہنچنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسے کسی رسی یا تار کی مدد سے پہنچایا جا رہا ہے البتہ ویڈیو کا عمدہ رزلٹ نہ ہونے کی وجہ سے گنبد سے منسلک تار نظر نہیں آ رہی ہے۔اگر آپ مینار کے اوپری حصے کو دیکھیں جہاں آپ کو کسی چیز کے بندھے ہونے کے آثار صاف نظر آئیں گے۔ اس کے علاوہ مینار کے پچھلے حصے میں یہ تاریں بہت واضح دکھائی دیتی ہیں۔ اگرچہ ویڈیو کی کوالٹی اتنی واضح نہیں لیکن پھر بھی لگتا ہے کہ جیسے مینار پر چند لوگ پہلے سے موجود ہیں جنہوں نے اس کو اپنی جگہ پر بٹھانے میں مدد کی۔چیزوں پر کپڑا ڈال کر اسے ہوا میں اُڑانا بھی پرانا شعبدہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ جادوگروں اور شعبدہ بازوں کا کام تو نہیں؟ ٹیلی ویژن پر چلنے والے میجک پروگراموں میں بھی اس طرح کے کام کرکے دکھائے جاتے ہیں۔ اگر واقعی میں یہ معجزہ تھا تو اسے بغیر کپڑے کے ہی اُڑنا چاہئے تھا۔ممکن ہے گنبد پر کپڑا اس لئے باندھا گیا ہو تاکہ یہ مٹی اور دھول لگنے سے محفوظ رہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ واقعہ نیپال میں پیش آیا تو کیا پورے نیپال میں اُس ایک کرین آپریٹر کے علاوہ کوئی دوسرا موجود نہیں تھا؟ اس ویڈیو میں بہت سے نقائص نظر آ رہے ہیں۔ ویڈیو میں اللہ و اکبر کا ورد اور لوگوں کے رونے کی آوازیں آ رہی ہیں جبکہ آخر میں لوگوں کے چہرے کے تاثرات سے ایسا لگتا ہے جیسے اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا۔ اگر ایسا کچھ واقعہ رونما ہوا ہوتا تو لوگ سجدے میں گرے دکھائی دیتے لیکن کسی بھی بندے کے چہرے پر خوشی یا پھر جوش و خروش نہیں ہے۔اس ساری ویڈیو میں سارا تاثر آوازوں کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے جو شاید اس ویڈیو کے ساتھ جوڑی گئی ہے۔ ویڈیو سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس میں آڈیو بعد میں شامل کی گئی ہے کیونکہ موبائل کی ویڈیو میں آڈیو اتنی صاف ہرگز سنائی نہیں دیتی۔میں خود بھی ویڈیو ایڈیٹنگ میں مہارت رکھتا ہوں اور اس طرح کی ویڈیو آسانی سے تیار کی جا سکتی ہیں۔آج کل مذہب کے نام پر فراڈ عام ہیں۔ مذہب کے فراڈوں میں یہ بھی ایک فراڈ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایک بہت بڑا بہتان ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی حقانیت ان ڈرامے بازیوں کی محتاج نہیں اور نہ ہی ان ڈرامے بازیوں سے غیر اسلام حق بن سکتا ہے۔ مسجد کا اُڑتا گنبد یقینا ایک ٹریک اور دھوکے کی بے ہودہ سی کوشش ہے اور اس سے صرف کم علم و کم عقل لوگ ہی بیوقوف بن سکتے ہیں۔بہت پہلے ایک مرتبہ شوروغل ہوا کہ ہندوﺅں کے کسی دیوی دیوتا نے دودھ پینا شروع کر دیا ہے تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ کسی پنڈت کی کارفرمائی تھی۔ باطل مذاہب اور فرقے ایسی ہی فالتو چیزوں کا سہارا لیتے رہتے ہیں۔ اسلام تو صاف، واضح اور روشن ہے اور اس کی تعلیمات بھی اتنی ہی روشن اور شفاف ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ابھی کچھ ماہ پہلے پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک گاﺅں میں بارہ ربیع الاول کے موقع پر چھ فٹ لمبی نعلین پاک نکل آئی تھی۔ لوگ میلوں سفر کرکے اندھا دھند زیارت کرتے رہے۔ صرف عام لوگ ہی نہیں بڑے بڑے عالم اور پیر صاحبان بھی اس کی زیارت اور اس پر یقین کرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ بعد میں پتہ چلا اس جگہ کوئی دیگ پکائی جا رہی تھی اور بارش نے وہ نشان اُبھار دیئے تھے۔گھر کے مالک ”تنویر قادری“ نے پہلے نعلین مبارک کا شوشا چھوڑا بعد میں اُسی جگہ زمین پر اللہ اور رسول کا اسم گرامی لکھ ڈالا لیکن اعتراض ہونے پر فوری نام مٹا دیئے گئے۔ایک نجی ٹی وی چینل نے اس واقعے کے تمام حقائق منظرعام پر لائے جس سے معلوم ہوا کہ سب کچھ ڈرامہ تھا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا تھا۔ بے چارے ”تنویر قادری“ صاحب بعد میں رسوا بھی بہت ہوئے۔ چکوال واقعے کے اگلے دن راولپنڈی کے ایک گھر سے بھی نعلین پاک کی برآمدگی کی خبر آئی اور وہاں بھی لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو گیا لیکن فوراً ہی اُس معاملے کو دبا دیا گیا۔ ہو سکتا ہے کسی عقل والے نے مشورہ دیا ہو کہ چکوال کے دور افتادہ گاﺅں میں میڈیا کا جلدی پہنچنا تو درکنار ہے البتہ راولپنڈی /اسلام آباد میں ایسا کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اس طرح چکوال کا واقعہ بھی جھوٹا ثابت ہو جائے گا اس لئے خاموشی اختیار کرنے میں ہی بہتری ہے۔ وہ کام جو اللہ اور اُس کے رسول نے نہیں کیا اُسے اُن کے ساتھ منسوب کر دینا گناہ عظیم ہے۔یوٹیوب پر دیکھا جائے تو اس قسم کے معجزات کی ویڈیو زکے انبار لگے ہوئے ہیں اور تمام معجزات مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک مسلمان کا ایمان ہوتا ہے کہ اسلام جوں کا توں ہے اور سچا دین ہے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی شعبدے باز کس قدر بھی شعبدہ دکھائے کہ عقل اسے تسلیم نہ کرے یا مافوق الفطرت واقعہ یا بعید العقل امر جسے ظاہری آنکھ سے نہ سمجھ سکے ایسی صورت میں بھی ایسے واقعات سے اسلام کے بارے میں شک یا گمان نہیں کرنا چاہئے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایسے دھوکے باز فراڈیوں کو بے نقاب کریں تاکہ مسلمانوں کو ورغلانے اور ان سے رقم بٹورنے کی یہ سازش ناکام بنائی جا سکے۔ اس بارے میں شعور بیدار کرنا ہوگا تاکہ ایسے ڈراموں اور ڈرامہ بازوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ (آمین)
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved