اسلامی تہذیب دنیا بھر کے مسلمانوں میں پائے
جانے والے عام تاریخی رسوم و رواج کو ظاہر
کرتی ہے۔ دنیا کے مسلمان تہذیبی بنیادوں پر
ایک دوسرے کو الگ محسوس نہیں کرتے۔ مذہب
اسلامی میں جو عام روایات ہیں وہ تمام اسلامی
تہذیب میں پائی جاتی ہیں۔ خبر ہے کہ سعودی عرب
کے 70علماءبشمول امام کعبة اللہ نے ٹیلیفون پر
”ہیلو“ کہنے کو حرام قرار دیا ہے۔ انگریزی
زبان میں ہیل
(Hell)
جہنم کو کہتے
ہیں جبکہ
Hello
کے معنی جہنمی
بنتا ہے اور شریعت کی رو سے کسی کو بھی جہنمی
کہنا حرام ہے۔ سروے اور تجربہ سے معلوم ہوا ہے
کہ انگریز خود بھی جب فون کرتے یا وصول کرتے
ہیں تو ہیلو
(Hello)
کی بجائے ہائے
(Hi)
استعمال کرتے
ہیں جبکہ غیر انگریز میں یہ رواج پڑ چکا ہے کہ
وہ ہیلو
(Hello)
کہتے ہیں۔ اس
تحقیق اور سروے کے سامنے آنے کے بعد علمائے
کرام نے ہیلو کہنے سے مسلمانوں کو سختی سے منع
کیا ہے۔عام طور پر ہم کسی کو فون کرتے ہیں یا
سنتے ہیں تو اپنی بات کو ہیلو سے شروع کرتے
ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا
فرمان ہے جس نے جس قوم کی مشابہت کی وہ اُن ہی
میں سے ہوگا۔ اس وقت دنیا میں تہذیب کی جنگ چل
رہی ہے۔ انگریز چاہتا ہے کہ وہ اپنی تہذیبی
جنگ کے ذریعے دنیا پر چھا جائے۔ جو لوگ یہ
تاویل باندھتے ہیں کہ ہیلو کہنے میں کوئی حرج
نہیں تو پھر نمستے کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں
ہونا چاہئے۔ اگر مسلمانوں کی اکثریت نے اسلامی
تہذیب کو چھوڑ کر انگریزی تہذیب کو اپنا لیا
تو کیا غلط مسئلہ بھی ٹھیک ہو جائے گا؟ مثلاً
اگر مسلمان اکثریت سے دیوالی کے موقع پر ماتھے
پر تلک لگائیں تو کیا یہ کام ٹھیک ہو جائیگا؟
یہاں مسلمانوں کی اقلیت یا اکثریت نہیں دیکھی
جائے گی بلکہ دیکھا یہ جائے گا کہ جس چیز پر
مسلمان چل رہے ہیں یہ چیز آئی کہاں سے ہے۔ اگر
کفار کی طرف سے آئی ہے تو پھر حرام ہی
ہوگی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے
ہاتھوں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے تھے ۔ اس سے
ثابت ہوتا ہے کہ کفار کے ہاتھوں کی بنی چیز
استعمال کر سکتے ہیں لیکن تہذیب اور مسئلہ ہے
مثلاً جب اذان کا مسئلہ آیا تو صحابہ ؒنے کہا
کہ اذان کے لئے بگل بجا لیا کریں تو آپ نے کہا
کہ بگل یہود بجاتے ہیں اس لیے منع کر دیا۔
یہاں بات سمجھنے کی ہے کہ آپ نے یہ نہیں کہا
کہ بگل یہود کا بنا ہوا ہے بلکہ آپ نے یہ کہا
کہ بگل یہود بجاتے ہیں۔ سعودی علماءکی طرف سے
اس طرح کا فتویٰ جاری ہونے کی ابھی تک تصدیق
نہیں ہو سکی لیکن غیروں کی تہذیب اپنانے سے
پہلے ہمیں یہ تک معلوم ہونا چاہئے کہ جو تہذیب
ہم اپنائے ہوئے ہیں کیا وہ لوگ خود بھی ایسی
تہذیب اپنا رہے ہیں؟ یہ بات غورو فکر کی ہے کہ
آیا ہیلو کہنے سے انگریز کی مشابہت آتی ہے یا
نہیں۔ اگر مشابہت آتی ہے تو اس سے بچنا چاہئے۔
ایک حدیث میں ہے کہ ”سلام کو عام کرو اور ہر
اس شخص کو سلام کرو جس کو تم جانتے ہو اور اُس
کو بھی جس کو تم نہیں جانتے۔“ آج مسلمان
بیسیوں آزاد ملکوں کے مالک ہیں لیکن ان کی
اکثریت نے تہذیب مغرب کی نقالی کو اپنا شعار
بنا لیا ہے۔ آج کے مسلمان کا کردار اور عمل
دوسروں کو کیا متاثر کرے گا وہ خود غیروں کی
تہذیب، تمدن اور اخلاق کو اپنے لئے مشعل راہ
بنا بیٹھا ہے، نتیجہ ظاہر ہے۔
|