اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔12-10-2010

پرویز مشرف ہی نشانہ کیوں؟
 
تحریر: نجیم شاہ
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ہیں جنہوں نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد باقاعدہ سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور کھل کر یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ فوج کو آئینی طور پر اقتدار میں شامل کر لیا جائے۔اپنی پارٹی کے نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا ”نیا سماجی نظام تین اُصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اول یہ کہ ہم جو کچھ کرینگے و ہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگا، دوم یہ کہ قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر کیلئے جدوجہد کی جائے گی اور سوئم یہ کہ رہنماءدستاویز قرارداد مقاصد ہوگی۔“ سابق صدر نے بڑی حوصلہ مندی سے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے اپنے دورِ حکومت میں بعض غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ ان غلط فیصلوں کے نتائج منفی ثابت ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ این آر او کا اجراءسب سے بڑی غلطی تھی جس پر میں قوم سے معافی مانگتا ہوںاور آئندہ انشاءاللہ ایسی غلطیاں نہیں کروں گا۔ سابق صدر کی سیاست میں واپسی کے اعلان سے ذرائع ابلاغ پر کافی ہلچل دیکھنے میں آ رہی ہے۔ نئی جماعت کی تشکیل کے بعد میڈیا چینلز پر اُن کے طویل انٹرویوز دکھائے جا رہے ہیں اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں سیاست دان اور تجزیہ کار بحث مباحثے کر رہے ہیں۔ آج کل ذرائع ابلاغ کا زیادہ تر موضوع پرویز مشرف بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت پرویز مشرف کے جو بیانات موضوع بحث ہیں اُن میں جرمنی کے ایک میڈیا پر کشمیر کاز کے حوالے سے اُن کے ایک بیان پر حکومتی اور سیاسی سطح پر بہت نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ پرویز مشرف نے الزام لگایا ہے کہ اُن کے بیان کو تروڑ مروڑ کر سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی سزا ﺅںسے بچنے کیلئے سعودی فرما رواسے جلاوطنی کی سفارش اور فوج کو آئینی کردار دینے کے حوالے سے بیانات نے بھی حکومتی ایوانوں اور اپوزیشن حلقوں میں ہلچل مچا رکھی ہے۔
پرویز مشرف ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ عوام میںایک سچے اور کھرے انسان کے طور پر مشہور ہیں۔ قول کے پکے ہیں اور دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان میں صرف تین سیاستدان ہی ایسے گزرے ہیں جو ایماندار تھے۔ ایک قائداعظم، دوسرے ذوالفقار علی بھٹو اور تیسرے پرویز مشرف ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم زیادہ عرصہ تک زندہ نہ رہ سکے ورنہ آج نہ صرف کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا بلکہ اس ملک کا نقشہ ہی بدل چکا ہوتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو آج زندہ ہوتے تو تیسری دنیا کو کہاں سے کہاں لے جاتے۔ اسلامی کرنسی ایک ہوتی، عالمی بینک کی طرح کا ایک اسلامی بینک ہوتا اور نیل کے ساحل سے لیکر کاشغر کے ساحل تک ایک سرحد ہوتی ورنہ کم از کم یورپی یونین کی طرح ایک ویزہ سب جگہ کام آتا۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسی عظیم شخصیت سے بھی غلطیاں ہوتی رہیں لیکن عوام نے اُنہیں بھی معاف کر دیا اور آج بھی وہ لوگوں کے دلوں میں ایک عظیم لیڈر کی یادیں نقوش کر گئے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے نو سالہ دور اقتدار میں بھی ملک میں معاشی استحکام آیا، یونیورسٹیوں کی سطح پر تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی، لوگوں کو روزگار ملا، پاکستان تیزی سے ترقی کرتا ہوا ایک ملک تھا اور معاشی ترقی کی رفتار آٹھ فیصد تک پہنچ چکی تھی، کرنسی مستحکم تھی اور معیشت کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا۔ 80فیصد لوگ جو پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی سیاسی غلطیوں کے بعد اُنہیں بُرا کہتے تھے موجودہ دور میں کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کا دور ہی اچھا تھا کم از کم دس دس گھنٹے بجلی تو نہیں جاتی تھی، مہنگائی پر اُس کا کنٹرول تو تھا۔ چینی جو 28روپے کلو فروخت ہوتی تھی آج 80روپے کلو بھی نہیں مل رہی ۔ دودھ، گھی، دالیں، پٹرول کی قیمتیں آسمان کو پہنچ چکی ہیں۔ موجودہ دورِ حکومت میں ہونے والی مہنگائی کا موازنہ 2007ءسے کرکے تناسب نکالا جائے تو لگ پتہ جائے گا۔پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ڈالر مستقل طور پر پورے آٹھ سال تقریباً ایک ہی قیمت کا حامل رہا مگر آج وہی ڈالر 86روپے کا ہو چکا ہے۔ اس صورت میں صرف پرویز مشرف ہی ایک رہنماءبن کر اُبھر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت کے چند مزید ایسے اقدامات جن کے باعث عوام میں اُنکی شہرت میں اضافہ ہوا ان میں قومی و صوبائی اسمبلی، بلدیاتی نظام میں خواتین کی مخصوص نشستوں میں اضافہ، میڈیا کی آزادی، بھارت کے ساتھ امن مذاکرات، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں ترقی شامل ہیں جبکہ لال مسجد، بلوچستان آپریشن، قبائلی علاقوں میں آپریشن ایسے اقدامات تھے جن کی وجہ سے پرویز مشرف کی مقبولیت کا گراف نیچے چلا گیا۔ اپنے دورِ اقتدار میں ہونے والی سیاسی غلطیوں پر پرویز مشرف قوم سے معافی مانگ چکے ہیں اور اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی غلطیوں کے پیچھے ایک پوری داستان ہے جو وقت آنے پر قوم کے سامنے لائی جائے گی۔
جہاں تک پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ سول حکومت کی ناکامی فوج کو مجبور کرتی ہے کہ وہ انتظام سنبھال لے بالکل درست ہے۔ جب قوم مایوس ہو اور ہر طرف انتشار دیکھتی ہو تو وہ یہی بہتر سمجھتی ہے کہ ہماری مسلح افواج کو اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ فوج کے علاوہ اُنہیں کوئی دوسرا نجات دہندہ نظر نہیں آتا۔ پرویز مشرف کا کہنا کہ میاں نواز شریف نے سزاﺅں سے بچنے کیلئے سعودی عرب کے فرماں روا سے اپنی جلاوطنی کی سفارش کرائی تھی ، اس پر میاں نواز شریف کی خاموشی نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ انہوں نے سابق صدر کی ایسی باتوں کا جواب دینے سے ہی صاف انکار کر دیا ہے۔ پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت رشوت ستانی، اقرباءپروری میں ملوث ہے اور صرف فوج ہی ملک کو بچا سکتی ہے۔ پرویز مشرف نے بے نظیر اور نواز شریف سے زیادہ عرصہ حکومت کی، پوری فوج اُن کے پیچھے تھی لیکن آج تک کوئی کرپشن سامنے نہیں آئی جبکہ اس وقت عوام پریشان ہیں، مہنگائی عروج پر ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔جہاں تک کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے اُن کے بیان کا تعلق ہے اگر اس میں حقیقت ہے تو پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ درج کرکے اُنہیں سرعام پھانسی دے دینی چاہئے کیونکہ یہاں ملکی سالمیت کا سوال ہے اور پاکستان کے ساتھ کسی کو بھی غداری کا حق نہیں ہے۔ نہ صرف پرویز مشرف بلکہ ماضی میں بھی جس حکمران نے ملک کے ساتھ غداری کی اُس پر بھی غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ملک دو لخت ہوا، خالصتان تحریک سے وابستہ سکھوں کی لسٹ بھارت کے حوالے کی گئی، نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں کارگل کے محاذ پر شکست تسلیم کرکے فوج واپس بلائی، قرض اتارو ملک سنوارو کی رقم کہاں گئی؟ جنرل ضیاءالحق نے امریکہ کو سپر پاور بنانے میں اہم رول ادا کیا، جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالے،آج تک کس کو سزا یا پھانسی ہوئی؟ ڈاکٹر عافیہ، ایمل کانسی اور یوسف رمزی کو کن حکومتوں نے امریکہ کے حوالے کیا؟پرویز مشرف نے عدالت عالیہ کے ساتھ محاذ آرائی کی تو عدالت عظمیٰ پر حملہ کن لوگوں نے کرایا؟ آج اگر آل پاکستان مسلم لیگ کے قیام سے دوسری پارٹیاں خطرہ محسوس کر رہی ہیں اور پرویز مشرف کی غلطیوں کو اُجاگر کیا جا رہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کیوں کی جا رہی ہے؟ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی غلطیاں کرتی آئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک سے زیادہ بار اقتدار میں بھی رہی ہیں۔
پرویز مشرف نے۲۱ اکتوبر ۹۹۹۱ءمیں نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹ کر جب خود حکومت سنبھالی تو لوگوں نے اُن کا شاندار استقبال کیا تھا اور مٹھائیاں بھی تقسیم کی تھیں اور جب ۸۱ اگست ۸۰۰۲ءکو انہوں نے استعفیٰ دیا تب بھی لوگوں نے خوشیاں منائیں اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اقتدار میں آتے وقت مٹھائیاں بانٹنے والوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن اقتدار سے رخصت ہوتے وقت مٹھائیاں بانٹنے والوں میں صرف وہ سیاستدان اور اُن کی سیاسی پارٹیاں تھیں جو پرویز مشرف حکومت میں زیر عتاب رہیں۔صرف پرویز مشرف ہی نہیں ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہر پارٹی کو حکومت میں خوش آمدید کہا گیا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں جبکہ رخصتی پر بھی مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔
پرویز مشرف آل پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں کود پڑے ہیں تو بلاخوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک دلیر ، ذہین اور چوکس انسان ہیں۔ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور میڈیا کی توجہ بڑی شدت سے حاصل کرلی۔ جمہوری نظام میں حتمی فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ وہ عوام کی توجہ کس حد تک حاصل کر پائیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتلائے گا۔ پرویز مشرف سمیت پاکستان کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سیاست میں آئے اور اپنا فیصلہ خود کرے۔ ایک فوجی یا جرنیل اگر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر سکتا ہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں سیاست کرنے کا بھی اُسے پورا پورا حق حاصل ہے۔ یہ عوام کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیتے ہیں۔ میڈیا کو بھی چاہئے کہ وہ غیر جانبدارانہ رویہ اپناتے ہوئے کرپشن کو اجاگر کرے تاکہ اصلی اور نقلی چہرے بے نقاب ہو سکیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں ہمیشہ سے عامیانہ ذوق کی سیاست کی جاتی رہی ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھلایا جا رہا ہے جو کسی طور مناسب نہیں۔ ایک دوسرے کی ہتک کرنا بد اخلاقیت کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان میں صرف دو طریقوں سے تبدیلی آ سکتی ہے۔ ایک کسی انقلاب کی صورت میں اور دوسری اچھی لیڈرشپ، جسے عوام پسند کرتے ہوں۔ ہمیں اس وقت ایک اچھے لیڈر کی ضرورت ہے ۔ایک ایسے لیڈر کی جو قوم کی ڈوبتی کشتی کو منزل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بے شک نواز شریف ہوں، آصف علی زرداری ہوں ، عمران خان ہوں یا پرویز مشرف، جب تک عوام کے مسائل حل نہیں کرینگے اُس وقت تک اُن کے دلوں پر حکمرانی نہیں کر سکتے ۔آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا جب تک ہمارا نظام قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہوگا کسی خونی انقلاب کی آمد کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved