اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔14-10-2010

 ٹیکسوں کی ادائیگی سے انکار کیوں؟
 
تحریر: نجیم شاہ

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹیکسوں کی وصولی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کا ایسا نظام رائج ہے جس میں عام شہری سے سربراہ مملکت تک کوئی بھی ٹیکس کی چھوٹ سے مستثنیٰ نہیں ۔ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے یہاں ایک بڑی آمدنی والا طبقہ صدر، وزیراعظم، جاگیردار، وڈیرے اور اراکین پارلیمان نہ صرف خود کو ٹیکس کی ادائیگی سے مبرا سمجھتے ہیں بلکہ انہیں پالیسی کے تحت ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ بھی حاصل ہوتا ہے۔ ٹیکس استثنیٰ، ٹیکس چوری، خسارے میں چلنے والے اداروں اور ترقیاتی بجٹ کو موثر استعمال کرنے کے طریقہ کار کے فقدان کے باعث ملکی معیشت کو سالانہ 13سو ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی نہ صرف خود عرصہ سے انکم اور زرعی ٹیکس ادا نہیں کرتے بلکہ اُن کے 25وزراءبھی ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔ دوسری خبر کے مطابق امریکہ نے کہا ہے کہ جو ممالک اپنے امراءپر ٹیکس لاگو نہیں کرتے وہ مستقبل میں امریکہ سے ماضی جیسی کسی مدد کی توقع نہ رکھیں۔ امریکی انتظامیہ کے مطابق اس وضاحت کا بڑا مقصد پاکستان کو خبردار کرنا ہے کیونکہ پاکستان امریکہ سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر امداد حاصل کرنے والا بڑا ملک ہے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے وزیراعظم نے گزشتہ کئی سالوں سے انکم ٹیکس اور زرعی ٹیکس ادا نہیں کیا حالانکہ وہ ملک کے بڑے جاگیرداروں میں سے ایک ہیں جبکہ پاکستانی ارکان پارلیمان کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے جن کی اوسط دولت 9لاکھ ڈالر فی کس ہے لیکن صرف چند ہی لوگ انکم ٹیکس دیتے ہیں جبکہ اکثریتی اپنے آپ کو ٹیکسز سے مستثنیٰ کرنے کے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ایک روایت چلی آ رہی ہے کہ امراءطبقہ حب الوطنی کا رونا تو روتا ہے لیکن خود ٹیکسوں کی ادائیگی سے کتراتا ہے جبکہ غریب عوام خون پسینے کی کمائی سے کچھ نہ کچھ ٹیکس ضرور ادا کرتے ہیں اور انہیں اس مد میں مراعات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں انکم ٹیکس کا نظام فرسودہ بنیادوں پر قائم ہے جس سے کرپشن پھیل رہی ہے۔ جس ملک میں وزرائ، وزیر اعظم اور صدر ، اراکین اسمبلی خود انکم ٹیکس نہیں دیتے وہ کس طرح ملکی ترقی میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک عام آدمی ٹیکس نہ دے تو یہی حکمران اس کی چمڑی ادھیڑ دیتے ہیں، یہ کیسا انصاف ہے؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے گرشتہ سال 12نومبر کو ہارون الرشید صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ میاں نواز شریف نے امسال پانچ ہزار روپے انکم ٹیکس دیا ہے جبکہ یہ معمولی اخبار نویس ہر سال 64ہزار روپے انکم ٹیکس دیتا ہے۔ 17نومبر کونشر ہونے والے پروگرام ”کیپیٹل ٹاک“ کیلئے حامد میر صاحب اور سہیل وڑائچ صاحب نے رائیونڈ میں موجود فارم ہاﺅس میں میاں نواز شریف کا خصوصی انٹرویو کیا جس میں اُن سے سوال کیاگیا کہ آپ اس قدر پراپرٹی، انڈسٹریز، فارم ہاﺅسز کے مالک ہیں اور انکم ٹیکس صرف 5ہزار روپے دیتے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں؟ نواز شریف صاحب نے جواباً 1971ءسے لے کر پرویز مشرف تک تمام حکومتوں سے گلے شکوے کئے جنہوں نے ان کی فیکٹریاں بند کروائیں، جہاز ڈبوئے، ملکیتوں پر قبضے کئے مگر پانچ ہزار انکم ٹیکس کا براہ راست جواب ندارد۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پورے بزنس ایمپائر کا مالک صرف پانچ ہزار روپے انکم ٹیکس دے رہا ہے جس کی ملکیت میں رائیونڈ محل ، اندرون اور بیرون ملک پراپرٹی، فارم ہاﺅسز اور درجنوں فیکٹریاں ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں بڑا آدمی وہی ہے جو اپنی زندگی خوب عیش و عشرت سے گزارتا ہے لیکن ٹیکس نہیں دیتا اور نہ ہی اُسے کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے۔ یہ سب غریبوں کا خون نچوڑتے ہیں۔ یہی تضاد ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی برائی ہے۔ جب ملک کے معاشی حالات اچھے نہیں ہوں گے تو ملک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا۔ اب بھی بڑے بڑے انکم ٹیکس چور بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ ٹیکس ادا کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام کو وہ تمام سہولتیں فراہم کی جائیں جو ایک حکومت کا فرض ہے۔ حکومت اگر ایسا نہیں کرتی تو وہ خود ٹیکس چور ہے۔ پاکستان میں صرف تنخواہ دار طبقہ ہی پورا ٹیکس ادا کرتا ہے جسے ٹیکس کٹنے کے بعد تنخواہ ملتی ہے اس کے علاوہ کاروباری، جاگیردار، سیاستدان، کارخانہ دار طبقہ جہاں تک بس چلے ٹیکس چوری کرتا ہے۔ حکمران اگر خود ٹیکس دیں تو معیشت کو سدھارنا آسان ہوگا لیکن ناانصافی ہی اصل بنیاد ہے جسے دور کرنا ہوگا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved